سفر نامہ: شام امن سے جنگ تک: حلب۔۔۔۔سلمٰی اعوان/قسط13

پہاڑ بھی گواہ ہیں
ایک قوم
اور اُس کی صدیوں پرانی تہذیب کی تباہی پر
بچے ابھی تک یتیم بن رہے ہیں
ایک جابر آمر کے ہاتھوں
میں اُس وقت تک مسکراؤں گا نہیں
اور نہ ہی کوئی خوشی  محسوس کروں گا
اُس وقت تک
کہ جب تک ظالم کا خاتمہ نہیں ہوتا
تاکہ بچے اپنی دھرتی پر آزادی سے چل پھر سکیں
اپنے گھروں میں سکون سے رہ سکیں
اور ہر دن خوشی سے مسکراسکیں
بچوں کو تو بس بچے ہی رہنا چاہیے
اور کچھ بھی نہیں
اس جنگ نے کتنے بچوں کو مار دیا
صرف طاقت اور اقتدار کے لئے
ہم گواہ ہیں
شام میں جو کچھ بھی ہورہا ہے
معصوموں کی اُن کے گھروں میں ہلاکت
یا بحیرہ روم میں اُن کی غرقابی
صرف اس لئے
کہ صرف ایک آدمی
انہیں آزادی کا حق نہیں دینا چاہتا!

شام، امن سے جنگ تک/ دنیا کے کلاسیکل حسن والے شہر دمشق کا سفر/سلمٰی اعوان۔۔قسط1

”کل حلب جانے کا پروگرام ہے۔“ یہ اطلاع نسرین سے ملی تھی کہ جب میں دن بھر کی خجل خواری کے بعد شام کو ہوٹل لوٹی تھی۔
یہ بھی اُسی سے معلوم ہوا تھا کہ واپسی دن کے دن ہے۔
مجھے محسوس ہوا تھا اس کا لہجہ شاکی سا ہے جب وہ بولی تھی خفگی کا عنصر چھلکا پڑ رہا تھا۔
”یہ تو کاٹھ مارنے والی بات ہے۔ بھاگے بھاگے جاؤ۔ ہاتھ لگاؤ اور لوٹ آؤ۔ بند ہ تو چڑھنے اُترنے میں ہی ہپو ہان(ہلکان) ہو جائے گا۔“


تین چار دن کی دمشق میں صحرا نوردی اور رنگ رنگ کے لوگوں سے میل ملاقاتوں خاص طور پر ڈاکٹر ہداسے سننے کو ملا تھا کہ الیپویاحلب جسے تہذیبی حساب سے دنیا کی ماں کہا جاتا ہے۔یہ پرانے وقتوں میں اس شامی خطّے کا میٹرو پولس،عثمانیہ دور میں سلطنت کا تیسرا بڑا اور آج کا دوسرا بڑا صنعتی، اقتصادی، تہذیبی اور ثقافتی غازے سے لپا تپا چمکتے دمکتے چہرے والاشہر ہے۔ جس پر وقت اور زمانہ صدیوں سے ناز کرتا رہا ہے۔ شہر جس نے وقت کے بڑے بڑے فلسفیوں، دانشوروں اورفنکاروں کو جنم دیا۔ دمشق ہی کی طرح اُس کا بھی قرون وسطیٰ کا نمائندہ قلعہ، محل باڑیوں، بازاروں،مسجدوں، شینی گاگوں،چرچوں اور اپنی شہرہ آفاق گلیوں سے سجا ایسے حیران کن اور موہ لینے والے حُسن کا مالک ہے کہ بندہ بار بار دیکھ دیکھ کر بھی نہ رَجے۔
اس کا المدینہ سوق بھی شہرکا لاجواب تحفہ ہے۔ منقش اور رنگوں سے یوں لُتھڑا پڑا ہے کہ آنکھیں ہی پھٹنے لگتی ہیں۔ تو اب ایسے تہذیب وثقافت میں لُتھڑے پتھڑے شہر کو دیکھنے کے لئے ہوا کے گھوڑے پر سوار کیسے ہوا جا سکتا ہے؟تونسرین کا شکایتی سالہجہ سو فی درست تھا۔
”ارے“ میں نے اپنے آپ سے کہا تھا۔
”اب اگر مقدر اتنا بخت آور ہوا اور یہاں لے ہی آیا تو بھئی اِسے ہاتھ لگانے والی بات تو ہرگز ہر گز نہیں قبول۔“
نسرین نے وضاحت کی کہ قافلے کا مقصد تو صرف مقدس مقامات کی زیارات تک ہی ہے۔ ”تو اب کیا ہو؟“
اور اِس کیا ہو؟نے سوچ وبچار اور امکانات کے دروازے کھولے۔ غور وغوض شروع ہوا۔ دو تین جی داروں کا ساتھ ہو جائے تو مزہ آ جائے۔ نسرین کو سبز باغ دکھائے۔ علی اورفاطمہ کو پکڑا۔
کوئی دو دن پہلے کی بات ہے۔ میں شام کو جب اپنے کمرے میں جانے کے لئے لفٹ میں داخل ہوئی۔ دیکھا کہ ایک خوبصورت دل کش اور نوعمر جوڑا بھی میرے ساتھ ہی لفٹ میں داخل ہوا۔لڑکی تو وہی تھی جس نے پہلے دن نسرین کے ساتھ کمرے میں انٹری دی تھی۔ پیاری سی من مو ہنی سی۔ ہاں جس کے لٹر لگی تھی وہ بھی بڑا وجیہہ اور دلکش تھا۔
لڑکے نے میری طرف دیکھا اور اپنائیت بھرے لہجے میں کہا۔
”آپ کہاں کہاں گھومتی رہتی ہیں؟ ہمیں بھی اپنے ساتھ نتھی کرلیا کریں۔ کچھ آپ کا بھلا ہوگا کچھ ہمارا۔“
”شوقین ہیں پھرنے کے؟“

دنیائے اسلام کا ایک مقدس ترین اور زائرین سے لبالب بھرا کربلا شہر۔۔۔۔سلمٰی اعوان/قسط 1
”ارے مت پوچھیے کچھ۔“ مر دنے صرف مسکرانے پر اکتفا کیا۔ بولتی ہنستی آنکھوں والی بیوی نے جواب دیا تھا جو فاطمہ تھی۔
”لو بھئی پھر تو مزے ہوگئے۔ ایک اکیلا دو گیارہ اور تین ایک سو گیارہ۔ لطف آئے گا۔۔“
اندر کی خوشی نے سچی بات ہے باچھیں آخری داڑھ تک چیر دی تھیں۔
کتنے فائدے، کتنے مزے۔ خرچ میں حصّہ داری ہی نہیں مان۔ پھر اکیلا آدمی اور خاص طور پر عورت پھرتے ہوئے نری اُلو کی پٹھی لگتی ہے۔
جی چاہا یہیں شکرانے کے نفل نیت لوں۔ بھئی شکرگزاری کا اظہار اور کیسے ہو؟
اب جب بات کی تو نا  صرف ٹھیک ہے کہابلکہ شکر گزار بھی ہوا کہ زیارتوں سے فارغ ہو کر دو تین دن شہر میں گزارے جائیں اور نہ صرف شہر کی قابل ذکر جگہوں بلکہ واپسی پر راستے کے اہم مقامات جیسے ادلیبIdleb، حمااور حمص Homsوغیرہ کی بھی سیاحت کی جائے۔
”لو بھئی یہ تو موجیں ہوگئیں۔“ دل گنگنا اُٹھا۔ جھوم جھوم گیا۔
میر کارواں سے اجازت کا مرحلہ میرے ذمہ ٹھہرا اور خدا کا شکر تھا کہ انہوں نے فوراً ہی آمادگی ظاہر کر دی اور کسی قسم کا تعرض نہ کیا۔
روانگی بہت سویرے ہوئی۔ صبح نکھری ہوئی اور فضا روشن روشن سی تھی۔ مجھے ماحول کا نشیلا پن کچھ زیادہ ہی ہانٹ کر رہاتھا۔ واقعی باہر اندر سے کتنا جڑا ہوا ہے۔ آپ کی من پسند خواہش بہار کے کسی خوشگوار جھونکے کے چپکے سے ویرانے میں در آنے جیسے احساس کی طرح پور ی ہوتی نظر آئے تو پھر مستی وسرشاری کا خود پر طاری ہونے کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے۔
سفر کی دعا میں نے دل میں پڑھی تاہم میر قافلہ نے بلند آواز میں پڑھائی۔
سڑک کشادہ، خوبصورت، صحرائی اور پہاڑی نظاروں سے لبالب بھر ی ہوئی تھی۔ ایک جانب اگر حدّ نظرپھیلے ہوئے صحرا کی وسعتیں تھیں تو دوسری جانب پستہ قامت پہاڑی سلسلوں کی زنجیر جن کی اختتامی حد بحیرہ روم تھا۔ راستے کی دلنوازی کہیں چھوٹے چھوٹے گاؤں، چلتے پھرتے بچوں، عورتوں اور چھوٹے موٹے کھیتوں سے بڑھ جاتی تھی۔ بھیڑ بکریوں کے ریوڑوں کا نظر آنا بھی اِس ماحول کا ایک اہم جز و تھا۔
دھوپ کا پسا رلمحہ بہ لمحہ عرو ج پر تھا۔ النبکAl-Nabk میں رُکے۔ بے حد خوبصورت شہر تھا۔
جدید وضع کی عمارتوں سے سجا سنورا۔ حمص کو دیکھا تو وہ جلیل القدر ہستی شدت سے یاد آئی جن کی سپاہیانہ زندگی کی لغت میں شکست نامی لفظ کہیں نہیں تھا۔
گاڑی فراٹے بھرتی جار ہی تھی اور میرے دل کو اطمینان تھا کہ اِسے واپسی پر اطمینان سے دیکھیں گے۔ حماہHama اس خوبصورت شاہراہ کا ایک اور شاندار شہر ہے۔ دونوں شہروں کے درمیان پچاس کلومیٹر کا فاصلہ ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں طے ہوا۔
بس میں بیٹھے کسی مرد نے اِس شہر کے واٹر ویلزWater Wheelsکی بات کی کہ ان کابھی دیکھنے سے تعلق ہے۔ تاہم بس جیسے ڈاک کا گھوڑا بنی ہوئی تھی۔ رکنے، ذرا سا سستانے ایک دو گھونٹ چائے پانی پینے پلانے کا تو جیسے کوئی تصور ہی نہیں۔ وجہ یقیناًوہی واپسی کی  فکر سے جڑی ہوگی۔
”بلا سے نہ رُکو۔ بگٹٹ بھاگتے جاؤ۔ مجھے ذرا سی بھی پرواہ نہیں۔ میرا اندر ٹھنڈا ہے کہ مجھے واپسی کا سفر اپنی مرضی سے کرنا ہے۔“
باہر کے منظروں نے آواز دی تھی کہ ہمیں بھی دیکھ لو۔ پردیس میں اتنی مشابہت اور اپنائیت کہاں ملے گی تمہیں؟
واقعی ہوبہو وہی وطنی تصویریں تھیں۔ ٹیوب ویل چلتے اور ڈھور ڈنگر چرتے تھے۔کہیں کہیں عالیشان، کہیں کہیں ماٹھے گھر اور کسان مردو عورتیں کام کرتی ہوئی نظر پڑتیں۔
حلب اپنے دو تاثرات کے ساتھ اُبھر کر سامنے آیا تھا۔ اونچی نیچی قامت کی پہاڑیوں پر بستا رستا، زندگی کی گہما گہمیوں سے بھرا پُرا جس کے لینڈ مارک قلعے نے دور سے ہی ہاتھ ہلا ہلا کر خوش آمدید کہا تھا۔ لبوں پرہنسی آئی اور مُو مُو نے شکر گزاری کے میٹھے بول بول کر اوپر والے کا شکریہ ادا کیا۔

کتاب کائنات کا سفر نامہ۔۔۔مستنصر حسین تارڑ
حلب کو دیکھنا خوش نصیبی ہی تو تھی کہ وہ ہمارا جدّ امجدحضرت ابراہیم اسی شہر کی کسی ایسی ہی پہاڑی پر گائے کا دودھ دوہ   کر لوگوں کو پلاتے تھے۔ حلب نام بھی اسی وجہ سے پڑا۔
بھوک نے اندر باہر حشر کیا ہوا تھا۔ چائے کے ایک کپ کی طلب طوفان اُٹھائے ہوئے  تھی۔ مگر اس حشر نشر اور طوفان کو ضبط کی زنجیروں سے باندھنا ضروری تھا۔

راس الحسین یا مسجد النقطہ جا کر دونوں گاڑیاں رک گئیں۔دھوپ کی تیزی مجھے کسی شوخے کی اتراہٹ جیسی لگی تھی۔ شکر تھا ہوا میں نرمی اورمحبت تھی۔ لطف اندو ز ہونے کی فرصت نہیں تھی کہ مسجد کے باتھ روم کے لئے دوڑ لگائی۔ پہاڑی قدوقامت کے اعتبار سے چھوٹی سی تھی۔ سیڑھیاں بھی مختصر ہی تھیں۔ وضو والے چبوترے پر بیٹھ کر کوئی پندرہ منٹ تک منہ ہی دھوتی رہی تھی کہ پانی کے چھینٹے تازہ دم کردیں۔
شکر ہے کھانے کو لہسن اور دہی والے شوارما ملے۔ کولا کے ٹن پیک نے ساتھ بڑا سواد دیا۔ چلو نماز ادا کی۔
کمرے کے آخری کونے میں ایک اونچے پیڈسٹل پر ایک ضریح کے اندر سرخ کپڑے پر رکھے پتھر پر سر مبارک عالی امام رکھا ہوا تھا۔ واقعے کے ساتھ بہت ایمان افروز روایت جڑی ہوئی ہے کہ 61ھ میں جب یزید کے سپاہی عالی مقام امام کا سر مبارک دمشق لا رہے تھے، قافلہ ماروت مارتھMarroth Martپر رُکا۔ عیسائی راہب نے سر مبارک نیزے کی انی پر ٹنگے دیکھ کر پوچھا اور جاننے پر اُسے رات بھر اپنے پاس رکھنے کے لئے دس ہزار درہم کی پیش کش کی جو منظور ہوگئی۔
خدا کے برگزیدہ انسان کی باطنی آنکھ نے اُس سر سے پھوٹتا نور کاہالہ دیکھ کر اندر کی کہانی جان لی تھی۔ سر مبارک پتھر پر رکھا اور ساری شب اس کے سرہانے روتے اور باتیں کرتے گزار دی۔ روایت ہے کہ بعد میں اسلام قبول کر لیا۔
کچھ ایسا ہی واقعہ اردو زبان کے معمار کشمیری لال ذاکر کی تحریر سے ہمارے سامنے آتا ہے جسے کے ایل نارنگ ساقی نے لکھا کہ لال ذاکر کا تعلق موہیال برادری سے تھا جو حسینی براہمن کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اُ ن کے بزرگوں نے جنگ کربلا میں امام عالی رضا جناب حسین کا نا  صرف ساتھ دیا تھا بلکہ ان کا سر مبارک بھی یزید کے قبضے سے چھڑ ا کر لائے تھے۔
انسانوں کے ظلم وجبر کی کہانیاں دیکھ لیں۔

پتھر پر خون کے قطروں کے نشان آج بھی اسی طرح نظر آتے ہیں۔ دیوار پر نصب پتھر کے کتبے پر لکھی یہی کہانی خود کو دہراتی ہے۔
سچی بات ہے مشہدا ڈھاکا کی سیڑھیاں اتنی زیادہ تھیں کہ علی کی پیشکش پر کہنا پڑا تھا۔
”بیبا چاہتے ہو بھرُتہ بن جائے میرا؟اپنی اِن خوبصورت آنکھوں سے جو دیکھو گے وہ مجھے دکھا دینا۔ اپنے اِن بڑے بڑے کانوں سے جو سنو گے وہ مجھے سنا دینا۔ کافی ہے میرے لئے۔“
درختوں کی شاخوں اور پتوں میں سرسراتی ہوا کے جھونکوں سے لطف اٹھاتی علی سے حضر ت امام حسین رضی اللہ عنہ کے دو مدفون بیٹوں بارے سنتے، اُن کے لئے فاتحہ پڑھتے اور دعائے خیر مانگتے مانگتے خود سے کہتی ہوں۔
”بھئی اب آگے بڑھیں۔“
سچ تو یہ ہے کہ اِس بات کو اوپر والے کی شکر گزاری کے کھاتے میں ہی ڈالنا چاہیے کہ پڑھا لکھا، حالا ت حاضرہ اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے کے ساتھ علی کا کھاتے پیتے زمیندار گھر سے تعلق اور کھلے دل کے ہونے کا مجھے فائدہ ہوا کہ اُس نے ٹھہرنے کے لئے اندرونِ شہر کے ایک خوبصورت ہوٹل کا انتخاب کیا۔ ”بیت وکیل“
کہیں سترھویں صدی کے آغاز کامینشن جس تک پہنچنے کے لئے جن چند گلیوں سے گزرے اُن کے حُسن کی گھمبیرتا سناٹے میں بھی بولتی تھی۔ محراب در محراب ڈیوڑھیوں گلیاروں کے سلسلے لگتا تھا کوئی الف لیلویٰ داستان سناتے تھے۔ سحرزدہ سی بس آنکھیں دائیں بائیں مٹکاتے چلی جا رہی تھی۔
ڈیوڑھی موچی دروازے کے کسی مینشن جیسی لگی۔ ٹھنڈی، نیم تاریک سی جس میں جلتی زرد روشنیاں ماحول کو بڑا رومانوی سا ٹچ دے رہی تھیں۔ کشادہ آنگن میں موتی اڑاتے چوکور تالاب کے کنارے کھڑے اس کے مینجر سے بھاؤ تھاؤ کرتے ہوئے میں قطعاً خائف نہ تھی کہ جانے سودا کتنے میں طے ہو؟

کبھی وقت اپنا نایاب تحفہ دینے اورماحول اپنے بانکپن کے ساتھ یوں آپ کے سامنے آتا ہے کہ سب کچھ لٹانے کو جی چاہتا ہے۔ اور میں اُس لمحے اسی احساس کی گرفت میں تھی کہ جس سمت نظر اٹھاتی تھی کہیں کھڑکیوں، کہیں دروازوں کی چوب کاری کہیں بالکونیوں کے سٹائل، کہیں پھولوں بیلوں کے پھیلاؤ مجھے بے خود کرتے تھے۔ کمبخت میری آنکھیں پھاڑتے تھے۔ دائیں بائیں گردن گھماتے گھماتے ڈھیلے پتھرانے لگے تھے۔ کوئی نہ کوئی انوکھی چیز ہر بار کسی نئے کونے کھدرے سے باہر آکر لُبھانے لگتی تھی۔
منیجر ہاتھوں اور چہرے کے اعضاء سے کام لینا جانتا تھا۔ تمثیل کاری خوب ہوئی تھی۔ بہرحال سودا ہر گز ہرگزبرا نہ تھا۔
دو کمرے ہمیں مل گئے۔کمرے میں داخل ہونے سے قبل آ ہنی ریلنگ والے ٹیرس کے نچلے حصّے کی چوبی جھالروں کو پیار سے دیکھتے ہوئے میں نے اوپر والے کا شکریہ ادا کیا تھا کہ مجھے لگا تھا میں تو تاریخ کی ٹنل میں داخل ہوگئی ہوں جہاں سے گزرے وقت کی پرچھائیوں کی جھلکیاں دیکھ سکتی ہوں۔
فاطمہ اور علی اپنے کمرے میں چلے گئے۔ نسرین اپنے بیڈ پر لیٹ گئی۔ میں لیٹی ضرور مگر مجھے کہاں چین تھا۔ لیٹا ہی نہ گیا۔ سوچا چھت پر جاؤں۔ شہر کا بلندی سے نظارہ ہو۔ یہ لت مجھے قاہر ہ سے پڑی تھی کہ جہاں ناشتہ ساتویں منزل کے ٹیرس پر ملتاتھا اور جہاں میں آدھ گھنٹہ بنیروں سے ٹکی حریص نظروں سے اپنے سامنے تاحد نظر بکھرے شہر کو دیکھتی تھی۔
منظروں کا پھیلاؤ موہ لینے والا تھا۔ دل کش ترین قلعہ تھا۔ جیسے کسی گول بھرے پیالے میں سگھڑ گھر گھرہستن نے کسٹرڈ کی اُبھری سطح کو مختلف النوع میووں کی گارنش سے سجا دیا ہو۔ کچھ دیر اوپر رہنے کے بعد نیچے آئی اور باہر گلی میں آگئی۔ چلتے ہوئے مجھے یہ ڈر تھا کہ کہیں میں راستہ نہ بھول جاؤں۔اسی لئے بیگ میں ہوٹل کا کارڈ خصوصی طور پر رکھا تھا۔
مجھے تو سمجھ نہیں آتا تھا کہ پرانے حلب کی گلیوں بازاروں کے خاندانی حُسن کی گھمبیر تا کی  وضاحت کے لئے کہاں سے تشبیہیں اور استعارے ڈھونڈوں؟ میرے پاؤں شل تھے اور ٹانگیں بے جان۔ پر میری آنکھیں چار دنوں کے کسی بھوکے ہابڑے کی طرح پھٹی پڑی تھیں کہ جس کے سامنے ایکا ایکی ہر ے دھینے پیاز میں گندھا آلوؤں والا گرما گرم پراٹھا آ جائے۔


محراب در محراب گلیاروں سے گزرتے بلند وبالا دیواروں کے سایوں میں کہیں زور زور سے اور کہیں آہستگی سے سانس لیتی ڈرتی تھی کہ کہیں اِس نظر بازی کے چکر میں اُلجھ کر اوندھے منہ نہ گر پڑوں اور کوئی گٹہ گوڈا  اوچھے کی یاری کی طرح تڑک نہ اٹھے۔کہیں چھوٹے کہیں بڑے سنگی اینٹوں والی اونچی اونچی دیواریں خدا سے ہم کلام ہوتی نظر آتی تھیں۔ کمروں کے روشن دان، بالکونیاں، ان میں سجے پھول بوٹے بنیروں سے جھانکتی بیلیں، پتھروں کی موڑ مڑتی گلیاں جن کے دائیں بائیں پھولوں پودوں سے مہکتے کسی حسینہ کے کانوں میں لٹکتے جھولتے جھومتے بُندوں کی طرح نظر آتے تھے۔ بجلی کے پرانی و ضع کے لیمپ جنہیں گیٹ لیمپ کہتے ہیں جا بجا آراستہ تھے۔

سفر نامہ کراچی۔۔۔۔عارف خٹک
سچی بات ہے ان کے چہرے مہرے عصر حاضر کے سرخی پاؤڈر سے آراستہ نہ تھے۔ بلکہ کسی قدیم خاندانی پر وقار عورت کی طرح گھر کے دودھ مکھن کی نرماہٹ اور تری سے آراستہ چمکتے تھے۔
”ہائے میں صدقے جاؤں۔ ہائے میں قربان جاؤں اِن گلیوں کے۔“
کچھ زیادہ دور نہیں بس جہاں جا کر گلی کشادگی میں داخل ہوتی تھی اور چھوٹا سا کیفے گھر تھا۔ اندر جا کر قہوہ لیا۔ پاکستانی جان کر پذیرائی ہوئی اور گپ شپ ہوئی۔ سلیٹی توپ میں ملبوس بوڑھے نے میرے ایک سوال کے جواب میں کہاتھا۔
ساراپرانا حلب اِسی رنگ میں گندھا ہوا ہے۔ دراصل اِس رنگ کی بڑی وجہ حلب کی جغرافیائی اور تاریخی حیثیت ہے کہ بارھویں سے سولہویں صدی تک حکمرانوں نے شہریوں کو کوچہ بند تنگ گلیوں میں حجرہ نما گھروں کی تعمیر کے لئے مجبور کیا کہ حلب ہمیشہ سے بیرونی حملہ آوروں کی وجہ سے عدم تحفظ کا شکار رہا۔ مختلف کواٹر اور قلعے سماجی اور اقتصادی لحاظ سے خود مختار تھے۔ ہر کواٹر(حصہ) نسلی اور مذہبی خصوصیات کی بنا پر وجود میں آیا تھا۔ کھاتے پیتے لوگوں نے بڑے بڑے مینشن بنائے۔ جنہیں بدلتے وقت کے تحت   اب ہوٹلوں اور ریسٹورنٹوں میں بدل دیا گیا ہے۔
میرا لاہور بھی کچھ اسی ڈھب کا ہے۔ مگر جو رعنائی اور زیبائی یہاں نظر آتی ہے اس کا تو عشر عشیر بھی ہمارے ہاں نہیں۔ ہائے کتنی حسرت تھی میرے لہجے میں۔ ہر جگہ ہر ملک میں میں تو انہی تقابلی جائزوں میں ہلکان ہوتی رہتی ہوں۔ ایک نمبر کی حاسد۔
یہ تو دنیا بھر میں منفرد ہے۔ ورلڈ ہیریٹج نے اسی بنا پر اسے اپنا لیا ہے۔ کوئی ساڑھے آٹھ سو ایکڑ پر پھیلا ہوا کوئی لاکھ سوا لاکھ کے قریب لوگوں کا شہر۔
بوڑھے کی انگریزی اچھی تھی۔ لہجے میں تفاخر تھا۔
بشار کے بارے بات ہوئی تو آہستگی سے دکھی لہجے میں بولا۔
”خبیث ہے پورا۔ جب آیا تھا تو بہت ساری اُمیدیں وابستہ کر لی تھیں ہم لوگوں نے۔ مگر اندر خانے کی سیاستوں اور مار دھاڑ نے بیڑہ غرق کر دیا۔کرپشن اتنی زیادہ کہ ملکی زندگی میں ناسور کی طرح پھیل گئی ہے۔ پھر زبان بندی کی بھی اِسے بڑی خواہش ہے۔ صدام کی طرح اس کی سیکرٹ سروس بھی بلاکی ہے۔ جمہوریت کی ضرورت ہے ہمیں۔ بعث پارٹی اور اس کے نظریات اب بہت پرانے ہو گئے ہیں۔ نوجوان لوگوں میں نیا خون ہے وہ تبدیلی چاہتے ہیں۔
قہوے کا پیش کرنا تو عرب مہمان نوازی کا لازمی حصّہ ہے۔ اتنا کڑوا کہ سمجھ نہیں آتی تھی یہ لوگ کیسے پیتے ہیں؟
میں نے زیادہ مہم جوئی نہیں کی۔ بھولنے بھٹکنے کا ڈر تھا۔ یہ میرے لاڈلے محمدﷺکے مدینے کی گلیاں نہیں تھیں کہ جہاں انسان بھٹکنے کی دعائیں کرے۔کچھ علی طبعاً ذرا تیز طبیعت کا لگاتھا۔ میں نے محسوس کیا تھا کہ میری عافیت اس کے مزاج کے ساتھ چلنے میں ہے۔
حلب قلعے کی سیر کے لئے نکلے تو شام کی رنگینیاں شہر کے حُسن کو قاتل بنا رہی تھیں۔ مرکزی گیٹ کی سیڑھیاں چڑھنے سے قبل بیرونی دیوار کے ساتھ اک ذرا ٹیک لگا کر گردوپیش کو دیکھا۔ بس لگا جیسے دنیا کی قدیم ترین تاریخ کا ایک پراسرار شاہکار اپنی ہیئت کے ساتھ اپنی چوڑی چکلی سنگی سیڑھیوں کے  ہمراہ جیسے میرا منتظر تھا۔
موجودہ شام کا لینڈمارک، ماضی کے سیف الدولہ ہمدانی کا گراں قدر تحفہ جس کے اونچے محرابی دروازے سے اندر داخل ہونے تک میرا حال لوہارکی دھونکنی جیسا تھا کہ پچاس میٹر بلندی پر ہنستے کھیلتے جانا اب اِس عمر میں خالہ جی کا گھر نہیں تھا۔ یہ تو جانتی ہی نہ تھی کہ خیر سے چڑھائی کے اِس دریا سے پار اُتروں گی تو آگے بہت سے چھوٹے بڑے دریا پھر پیمائی کے لئے منتظرہوں گے۔
پودوں میں گو خاصی قربت تھی پر بیچارے چنڈھے بغیر رکھ دئیے گئے تھے۔رکھنے والوں نے سوچا ہوگا کہ آنے والوں کے خیر سے جوتے گراینڈر کا کام کریں گے۔ مگر یا تو لوگوں کے کھلّے لتر بڑے نالائق نکلے اور یا پھر پوڈے بڑے ڈھیٹ تھے۔
پیر قدرے ناہمواری پر کبھی کبھار لڑھک سے جاتے تھے۔ پہلا اور دوسرا دریا پار کرنے کے بعد رک کر اونچی اونچی دیواروں میں قید کھلی فضا میں گردوپیش کو دیکھا۔ بس یوں لگا جیسے دیو جنوں کی قید میں اُن کے ظلم وستم سہنے والی پریاں بیچاریاں مضروب ہوئی یہاں وہاں ٹکڑوں میں بٹی اپنی قسمت کو روتی ہیں۔
کتنے روپ کتنے منظر پہلو بدل بدل کر سامنے آرہے تھے۔ دشمن کو روکنے کے متوقع حربے یعنی چوڑی اور گہری خندق، دروازوں کی محرابوں میں تیر اندازی کے لئے سوراخ، نوکدار کیلیں ایک اچھے قلعے والے سبھی سامان موجود تھے۔
تعمیری انداز بھی ایک دوسرے سے مختلف تھا۔ یقیناًہر کہ آمد عمارت نو ساخت کے مصداق آنے والے ہر تاجدار نے اس میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلیاں کی ہوں گی۔ ڈھلانی راستے سے اُترو آگے پھر سیڑھیاں چڑھو۔ کسی گھمن گھیری والے دروازے سے کسی کشادہ آنگن میں اُتر جاؤ جہاں کنوئیں ہو، شکستہ محرابوں والے دروازے ہوں۔ ٹوٹا پھوٹا ملبہ ہو۔ تو پھر کسی کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھنا اور تصویر اتروانا کیسا دل چسپ تجربہ تھا۔ تھوڑی سی اس مہم جوئی کے بعد ہاتھ کھڑے کر دئیے تھے۔ نسرین تو پہلے ہی ہانپ رہی تھی۔ نوجوان جوڑا لبتہ بڑا مستعد تھا۔

”چلو تم ہمیں اس کی مسجد دکھا دو اور سنا ہے کہ یہاں کوئی محل بھی ہے۔ اس کی زیارت بھی ہو جائے۔بس یہ تھوڑا سا ہمارے لئے بہتیرا ہے۔ ہم کہیں بیٹھیں گے اور تم لوگ اپنا رانجھا راضی کرتے رہنا۔

سفرنامۂ میٹرو ۔۔۔ سنی ڈاہر
مگر آپ لکھیں گی کیا؟“ شبیر ہنسا۔
”یہی سب۔ کچھ تم سے بھی تو سنوں گی۔ باسٹھ سال کی عورت سے تم کیا توقع کرتے ہو کہ وہ تمہاری طرح چھلانگیں مارتی پھرے؟ جب تمہاری عمر کی تھی تو کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ گلگت اور بلتستان کے لوگ گواہ ہیں اس بات کے۔“
بہر حال علی کی رفاقت نے کام دکھایا۔ اس نے اِدھر اُدھر گھوم پھر کر گائیڈوں سے جانکاری کی اور تہہ خانے کے محل میں لے آیا۔ راستے دیکھ کر تو حیرت سے کنگ ہونے والی بات تھی۔ کیا کندہ کار ی تھی۔ کس قدر خوبصورت نقاشی کا کام دروازوں، محرابوں اور جالیوں پر جگمگماتا تھا۔ یہ مملوکوں کا محل تھا۔ اِس کے کمرے،دیوان، ان کے در ودیواریں اور چھتیں گویا دستی فن کی پور پور میں ڈوبی ہوئی تھیں۔
تھرڈ میلینم قبل مسیح کے اِس قلعے پر کسی ایک قوم کا تھو ڑی، بے شمار قوموں کے احسان ہیں۔ کہیں یونانیوں، بازنطینیوں، ایوبیوں، کہیں مملوکوں اور اس اکیسویں صدی کی تھوڑی سی احساس مندی آغا خان کلچرل ٹرسٹ کے کھاتے میں بھی جاتی ہے۔ اب تو خیر سے یونیسکو نے گودلے لیا ہے۔ اللہ اللہ خیر صلاّ۔
علی نے عجائب خانہ کا بتایا۔ ’’دیکھنا ہے؟“ پوچھا۔
”چھوڑو۔ تھکن سے نڈھال ہو رہے ہیں۔“
اُ س وقت سورج کی روشنی اپنے دم واپسی پر تھی۔ ماحول میں جولائی کی لتھڑی شام کا ڈوبتا حُسن رکنے اور اُسے ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے پر مجبور کر تا تھا۔ سارا حلب نیچے قدموں میں بکھرا ہوا تھا۔ اُس کے رنگوں کے عکس گویا فضا میں تیرتے پھرتے تھے۔

”میں اور یہ سب۔“
آنکھیں بند ہوگئی تھیں کہ اس پہاڑی پر میرے اُس جدّ امجدابراہیم علیہ السلام نے گائے کادودھ دھویا تھا اور بانٹا تھا۔
تاریخ کی دلاآویزی نے جذبات کو بھگو دیا تھا۔ مسجد کو دیکھنے کی خواہش اور وہاں سجدہ دینے کی تمنا کا تو کچھ پوچھیے نہ۔ بلند وبالا مینار گویا جیسے آسمان کی پہنائیوں میں جھانکتا تھا۔ بلاتا تھا۔تو پھر کشاں کشاں  کھینچتے چلے گئے تیری چاہت میں۔


دونوں جانب کی پتھریلی اونچی نیچی زمین پر تنگ سے راستے کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے درِ یار پر دستک دے دی تھی۔ فاصلے کی زیادتی بھی نہ کھِلی اور تھکاوٹ بھی جیسے کہیں اُڑنچھو ہوتی محسوس ہوئی تھی۔ ہاتھوں کی پھیلی ہتھیلیوں پر دعائیں کیا تھیں؟ بچوں اور ان کے بچوں کی سلامتی کی۔ یہ ممتا بھی کیا اونتری چیز ہے؟ مری جاتی ہے اور بچے چاہے جوتی کی نوک پر رکھیں۔
بہر حال کوئی دو گھنٹے کے بعد واپسی ہوئی۔ بھوک زوروں پر تھی۔ وہ تینوں قلعے کے سامنے ہینڈی کرافٹ کی مشہور مارکیٹ میں گھسنے کو بے تاب تھے۔ میرے یہ کہنے پر کہ پہلے طعا م بعد میں کوئی اور کام پر سب نے آمناً وصدقنا کہا۔ وہیں ایک ڈھابا نما ریسٹورنٹ میں جا گھسے۔ گرل کیے چکن اور بیف کباب ساتھ میں دہی، سلاد اور دو تین قسم کی کٹھی میٹھی چٹنیاں۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے یہ بڑی بڑی روٹیاں کہ ایک روٹی جو نہ کلاوے میں سمٹے۔ جس سے پورا ٹبر رَج جائے۔ تو ہمارے لئے بھی بس ایک ہی کافی تھی۔ دہی مزے کا تھا۔ نام کوکھٹاس نہ تھی۔ یوں بھی کھانا بڑا سستا پڑا۔ اسی 80لیرا فی کَس جان کر خوشی ہوئی۔ اتفاق میں برکت ہے کا صحیح مفہوم تو آج جانا تھا۔
شاپنگ میں تینوں کی جان اٹکی ہوئی تھی۔ سچی بات ہے بالکل موڈ نہیں تھا۔ مگر ”چلو دیکھوں تو سہی ذرا“ نے لالچ دیا۔ مارکیٹ کے لشکارے دور سے ہی اُبلے پڑ رہے تھے۔ سوچااندر کیا لینے جانا ہے؟ قریبی کھلے میدان کی طرف بڑھتے ہوئی بولی۔ ”جب جی چاہے یہیں آجانا۔“

اک محبوب نگری – سفرنامۂ جہاز بانڈہ – ابتدائیہ

پھر ایک موزوں جگہ پر بیٹھ کر ملگجے سے اندھیرے اُجالے میں اپنے گردوپیش کو دیکھنے لگی تھی۔ انسانی سیلاب رنگوں، بھانت بھانت کے ملکوں اور بولیوں میں یہاں وہاں بکھرا ہوا تھا۔
اُس وقت جب میں سمے کی اُن خوبصورت رعنائیوں سے لطف اٹھا رہی تھی۔ کیا وقت کے کسی ہزارویں حصے میں بھی کہیں یہ سوچ میرے دماغ کے کسی کونے کھدرے میں تھی کہ صرف آنے والے چھ سات سال کے درمیانی وقت میں ہی قرونِ وسطیٰ کے تعمیری انداز والے دروازوں اور دیواروں والا یہ قلعہ جو حلب کا لینڈ مارک ہے کھنڈر بنا دکھ بھرے منظروں کا عکاس ہوگا۔ اُس کی وہ شاہانہ ہیبت تڑپا دینے والے المیے میں بدل جائے گی۔باغی فوجوں کے ٹینک توپیں یہیں اِسی میدان میں ڈیرے ڈالے اِس کی تکّا بوٹی کرنے کے درپے ہوں گے۔ سرکاری فوجیں بھی اسی پر کمندیں ڈالنے کے لئے مری جا رہی ہوں گی۔ شہر کے ساتھ کوئی مخلص نہیں ہوگا۔ شہریوں کا کوئی خیر خواہ نہیں رہے گا۔ دونوں حکومتی اور مخالف اپنے اپنے مفادات کے اسیر اس کا سکون غارت کرنے اور اِسے تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہوں گے۔
یہ خوبصورت حلب شہر دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ مشرقی حصہ بشار کے مخالفوں کے کنٹرول میں جو بشار کو نکال پھینکنے کے درپے۔سرکاری فوجیں اس کی بچی کچھی اینٹ سے اینٹ بجا نے کا عزم کئے اس پر دن رات چڑھائیاں کر رہی ہوں گی۔ ڈھائی لاکھ کے قریب جو لوگ رہ گئے ہیں ان کے نکلنے کے سارے راستے مسدود ہو جائیں گے۔
خوش وخرم چہکتے مہکتے ماحول کو دیکھتے ہوئے ایسے کسی المیے، ایسی کسی سوچ کا دور دور تک سان وگمان تک نہ تھا۔ کہ وہ آگ جو کہیں 2011 کے وسط میں درعا جیسے چھوٹے شہر میں بھڑکی تھی۔ اس کی تپش کیسے دھیرے دھیرے دوسرے شہروں کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردے گی۔ یہ سوچ کہاں تھی کہ حلب بھی ایک دن اس کی زد میں آ جائے گا۔ ایک صنعتی، ایک تجارتی، ایک مفاہمتی شہر۔
پر ہوا کیا؟ اِسے کس کی نظر لگ گئی؟ یہ اِس آگ میں ایسا کودا کہ جھُلسا ہی نہیں ہائے راکھ ہو گیا۔

یہ وہ دن ہیں جب ہر صبح اٹھ کر اخبا رمیں پہلی خبر سیریا سے متعلق دیکھتی ہوں۔ اب حلب ہی زیادہ نشانے پر ہے۔ ڈاکٹر ہدا سے میں نے پوچھاہے۔ یہ تو بڑے سمجھدار کاروباری ذہنیت کے لوگ تھے۔ انہیں کیا ہوا؟
وہ لکھتی ہیں۔
آپا آپ کی طویل عرصے بعد آنے والی میل نے مجھے بہت کچھ یا د دلا یا ہے۔ آپ کے درد بھر ے محسوسات نے عجیب سی خوشی سے ہم کنار کیا ہے کہ کوسوں دور بیٹھے لوگ ہمارے دکھوں پر ہماری تباہی پر غم زدہ ہیں۔ یہ تباہی شاید ہمارے مقدر میں لکھ دی گئی تھی۔
حلب میں سنی لوگوں کی اکثریت تھی۔ جو بہرحال اسد کے علوی مسلک کے تعلق کو اتنا پسند تو نہ کرتے تھے مگر کاروباری لوگ ہمیشہ اپنے کاروبار کا مفاد دیکھتے ہیں۔ ایران اور حزب اللہ لبنان کی علاقے میں بڑھتی دلچسپی نے لوگو ں میں بے کلی اور اضطراب پیدا کرنا شروع کر دیا تھا۔ ابتدائی جھڑپوں میں اقلیتوں نے بھی سنیوں کا ساتھ دیا۔ ترکی پہلے ہی مداخلت کے بہانے تلاش کرتا رہتا تھا۔ امریکہ کی در پردہ سیاست بھی اپنا کھیل کھیل رہی تھی۔
آپا یہاں مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یورپی ملکوں کی سیاست کو تو ایک جانب رکھیں۔ اُن کی ہمدردیاں اور خیر خواہی ہمارے ساتھ بھلا کیسے ہو سکتی ہے؟ اسرائیل ہوا۔ امریکہ اور روس ہوئے۔ ہمارا تو سب تخم مارنے کے درپے ہیں۔ مگر یہ جو ڈھیروں ڈھیر اسلا م کے دعوے دار ملک ہیں اور وہ جو ہمارے ہمسائے ہمارے ماں جائے ہیں اُ ن کا کیا رنڈی رونا روؤں؟ ترکی کے لئے کہا کہوں؟ عالم اسلام کی سربراہی کا تاج سر پر سجانے کا خواہش مند۔ دیکھو تو ذرا کن کے ساتھ کھڑا ہے؟
اور اِس مرکز رشد و ہدایت کے دعوے دار ملک کو بھی دیکھو۔ وہ اپنی بادشاہت بچانے کے لئے ان کے چرنوں میں یرغمال ہوا پڑا ہے۔ تلوے چاٹتا ہے۔ ہے کوئی جو کہے شام کو تباہ ہونے سے بچاؤ۔
ڈاکٹر ہدا کی میل کیسی دل شکن سی تھی۔ پڑھتی جا رہی ہوں۔ آہیں بھرتی جا رہی ہوں۔ ہماری  تباہی میں غیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ کوئی پوچھے کہ اگر شام سے مسلکی اختلاف ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجانے والوں کے ساتھ کھڑے ہوجائیں کیونکہ انہیں ایران قبول نہیں؟
میں نے سکرین سے نگاہوں کو ہٹا لیا ہے۔ میری سوچیں بڑی زہریلی ہو رہی ہیں۔ انہوں نے مجھے ڈسنا شروع کر دیا ہے۔
خیر سے اپنا ملک بیچ میں دھڑام سے کود پڑا ہے۔ یہ اپنا رونا بھی تو ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ اب خود سے باتیں کیے  جاتی ہوں۔ ہائے میرے اِس ملک کے سفر زیست کا کوئی ایسا عہد جب اس نے اپنے مفاد کے لئے کوئی آبرومندانہ فیصلہ کیا ہو۔ ہائے اِسے بھی کیسے حکمران ملتے رہے۔ خود غرض، اقتدار کے بھوکے۔ ست بھوکوں کی طرح اِسے نوچتے کھسوٹتے رہے اور ابھی تک یہی حال ہے۔
دیر تک انہی کنجر کانیوں میں اُلجھی کڑھتی رہی۔ جلتی رہی۔

یورپ۔ جہاں زندگی آزاد ہے (۱) ۔۔۔ میاں ضیاء الحق
اب خود کو نارمل کرنے، مضطرب ذہن کو پرسکون اور اپنی توجہ ہٹانے کے لئے مجھے کمپیوٹر کے سامنے سے اٹھنا پڑا۔ اب وہ جوانی والی باتیں تو رہی نہیں۔ ذرا سی پریشانی، بری خبر بلڈ پریشر کو اوپر تک لے جانے کا باعث بن جاتی ہے۔پورا دن چاہتے ہوئے بھی میں نے کمپیوٹر نہیں کھولا۔
اب فرار کہاں تک ہوتی۔ کمپیوٹر پھر آن کیا ہے۔ڈاکٹر ہدا کی میل نے پھر بہت مضطرب کر دیا ہے۔
کوئی ایک مسئلہ ہو تو بندہ دکھ کا رونا روئے۔ ڈھیر لگے پڑے ہیں۔ جنہوں نے عافیت کے لئے ہجرت کی۔ اُن کے لئے کہا جاسکتا ہے کہ آسمان سے گرے اور کجھور میں اٹک گئے۔ کیمپوں کی زندگی جہاں سہولیات کا فقدان۔ بچوں کے لئے سکول نہیں۔ نوخیزلڑکیوں کی عمر رسیدہ مردوں سے شادیاں۔ طلاقیں۔ صحت کے مسائل۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply