چنتخب۔۔۔۔۔سلیم مرزا

‎ پاکستان وہ ﻭﺍﺣﺪ ﻣُﻠﮏ ﮨﮯ ﺟﻮ ﭘﭽﮭﻠﮯ 11 ﻣﺎﮦ ﺳﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﺮﭘﺸﻦ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺑﺪﻥ ﺯﻭﺍﻝ ﭘﺬﯾﺮ ﮨﮯ۔۔وجہ یہ ہے کہ ملک اس وقت نواز شریف جیسے بڑے بحران کا شکار ہے، اور اس اتنے بڑے بحران کے ہوتے ہوئے بھی یار لوگوں کا سلیکٹڈ کے مسئلے کو اجاگر کرنا ثابت کرتا ہے، ارباب اختیار کی ترجیحات کا محور کیا ہے۔

تین سابقہ حکومتوں سے تجربہ کار عمر ایوب نے اس اہم قومی مسئلے پہ توجہ دلائی تو سب کو یاد آیا کہ اپوزیشن ابھی تک سلیکٹڈ لفظ کو پکڑے بیٹھی ہے۔
وہ تو بھلا ہو اسپیکر کا کہ اسے غیر پارلیمانی لفظ قرار دے کر وہاں پھینک دیا جہاں گالیاں وغیرہ رکھتے ہیں، ویسے بہت ساری گالیاں تو ہم دل میں رہتے ہیں، اس پابندی کے بعد ذمہ داری بڑھ گئی ہے کیونکہ پرائمری اسکول کے بچوں کی عموماً ایسی شکایات سامنے آتی ہیں
“میڈم اس نے مجھے دل میں گالیاں دی ہیں “۔۔۔

اب سب ارکان کو یہ دھیان  رکھنا ہوگا کہ کوئی دل ہی دل میں سلیکٹڈ نہ کہہ رہا ہو۔

دو لطیفے ہیں بہت پرانےجو لکھنے کی ضرورت اس لیے نہیں کیونکہ وہ بہت مشہور ہیں، بس یاد کروانے کی ضرورت ہے۔۔
ایک تو اس مرشد والا ہے جس نے کہا تھا کہ خبردار نسخہ تیار کرتے بندر کا خیال نہ آئے۔۔
دوسرا اس طوطے کا ہے جس نے کہا تھا کہ
” سمجھ تے گیا ای ہونا ایں” ؟

اب جتنی دیر اجلاس ہوتا رہا کرے گا اتنی دیر ہر کسی کے ذہن میں لفظ سلیکٹڈ رہا کرے گا۔

بس اپوزیشن کو ہلکا سا مسکرانا پڑا کرے گا۔۔۔
بقول نورالہدی شاہین سبزی فروٹ والے
“اردو میں سلیکٹڈ اور الیکٹڈ دونوں کا ترجمہ ’منتخب‘ ہی بنتا ہے۔

حکومت کے پاس یہ اچھا موقع ہے کہ ملک بھر میں انگلش بولنے اور لکھنے پر کوڑے مارنے کی سزا مقرر کرے اور اردو کو سختی کے ساتھ دفتری زبان کے طور پر نافذ کرے تاکہ سلیکٹڈ کے طعنے سے بھی جان چھوٹ جائے اور قومی زبان کے نفاذ کا کریڈٹ بھی ملے۔ دوسرے الفاظ میں نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔”
اسی طرح اسکاچ وہسکی والے علاقے سے ایک شیکسپئر نامی بزرگ (سنا ہے پی کر ڈرامے لکھتے تھے حالانکہ اپنے ڈرامے دیکھ کر دل چاہتا ہے کہ کاش پی کر لکھے جاتے ) کا ارشاد ہے ” گلاب کو کوئی بھی نام دے لو اس کی شگفتگی پہ اثر نہیں پڑتا “۔۔
لہذا سلیکٹڈ کہنے سے کون سی مہنگائی کم ہوجائے گی؟

نام میں کیا رکھا ہے، اور دیسی بزرگ ایسے موقعوں کیلئے فرماگئے ہیں، “جوکہتا ہے ،وہی ہوتا ہے “آج حکومت کو سلیکٹڈ کہنے والے نیب اور عدلیہ سے بچ بھی گئے تو اوپر والوں سے کیسے بچیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج نہیں تو کل وہ انہیں بھی سلیکٹ کر سکتے ہیں۔
عمران خاں الیکٹیبل کے سر کا تاج ہے، اب کسی ایک جگہ تو اسے ٹک کر سرتاج لگا رہنے دیں۔
باقی رہی معیشت تو اس کے بارے میں جب مقتدر حلقوں کو کوئی فکر نہیں تو ہمیں کیوں ہو؟ خالد ندیم شانی جس کی اپنی کریانے کی دکان بھی ہے گاہک نہ ہونے کی وجہ سے فرماتے ہیں ۔
گرانی پہ جوانی چل رہی ہے
میں خالد مطمئن بیٹھا ہوا ہوں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply