موالیوں کا مجمع ہے۔غیظ و غضب، غصہ، نفرت، حقارت اور انتقام کے مارے ہوئے لوگ۔کانوں سے دھواں اور زبانوں سے زہر نکل رہا ہے۔فہم و فراست، تحمل تجمل توازن، دانش، رواداری، دلنوازی، جاں سوزی، صبر اور نظم و ضبط کا فقدان نہیں بلکہ قحط ہے اور قحط بھی ایسا جس میں مردار خور گدھ بھی بھوک سے مرنے لگیں۔ جہالت، سطحیت، چھچھور پن، ڈھٹائی کا سیلاب ہے اور سیلاب بھی ایسا جس میں مچھلیاں تک بے موت ماری جائیں۔آگ بھڑک رہی ہے، کڑاھی چڑھی ہے، تیل ابل رہا ہے اور ہر کوئی اپنا اپنا لچ تلنے پر تلا ہے۔تنور دہک رہا ہے اور سب اپنی اپنی روٹی کے چکر میں ہیں۔کہیں ’’ہنٹر والی‘‘ ریلیز ہو رہی ہےکہیں ’’چوروں کی بارات‘‘ تیار ہو رہی ہےکہیں ’’شعلے‘‘ کا ٹریلر چل رہا ہےکہیں ’’مقدر کا سکندر‘‘ اور ’’VIP بندر‘‘ کی شوٹنگ جاری ہےکہیں لٹھیت تیل پلائی لاٹھیاں لئے پھر رہے ہیں کہیں برچھیت برچھیاں سونتے تیار ہیںہر ’’مولے‘‘ نے گنڈاسہ نکالا ہوا ہےہر نوری نت کی مت ماری جا چکی ہےجنہیں خود خبر نہیں کہ منزل کدھر ہے؟ جانا کہاں ہے؟ وہ ہمیں کہاں لے جائیں گے؟
“حامد ” فلم ریویو۔۔۔۔۔۔۔۔۔علی اختر
اخباری کاغذ کی کشتی میں گتے کے چپو چلاتے ہوئے یہ چمپو—— موالیوں کا یہ مجمع مسلسل پٹرول چھڑک چھڑک کر فائر فائٹنگ میں مصروف ہے تو میں سوچتا ہوں وہ شاعر کتنا تھڑ دِلا ہو گا جس نے آج سے کہیں بہتر حالات میں لکھ ماراہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہو گااب تو ہر شاخ پر پتے کم اور الو کہیں زیادہ ہیں اور ہر الو عقلِ کل، ہوم میڈ علامہ جس کے پاس ہر مسئلہ کا تیر بہدف نسخہ موجود اور بیماری بلکہ بیماریاں ہیں کہ بگڑتی چلی جا رہی ہیں لیکن سب ٹھیک ہو جائے گا کیونکہ——’’درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا‘‘ایسی سنگین صورتحال میں بھی صدیوں پر محیط طے شدہ سچائیوں پر زوردار بحثیں جاری ہیں۔ مریم بیچاری نے بے دھیانی میں اچھے خاصے چاچا جی کو چاچا خوامخواہ بنا دیا تو اس میں بحث والی کون سی بات کہ یہی رسمِ دنیا ہے۔ پاور پلے میں رشتے نہیں پالے جاتے، اقتدار میں کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا اور ’’شریکا‘‘ وہ ہوتا ہے جو ماں کے دودھ، باپ کی جائیداد میں شراکت کا دعویدار ہو۔ سلطنت عثمانیہ، جسے ہم لوگ پیار سے خلافتِ عثمانیہ بھی کہتے ہیں، کے دوران ایک ایک دن میں انیس انیس بھائی بھی مروائے گئے۔ باپوں نے بیٹے مروا دیئے اور بیٹوں نے ابّے اندر کروا دیئے۔ اقتدار میں کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا سو اگر چاچا جی کے ’’میثاقِ معیشت‘‘ کو ’’مذاقِ معیشت‘‘ قرار دے دیا گیا تو اس میں غلط کیا ہے کہ جیسے ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ میں جمہور کا نام و نشان نہ تھا، اسی طرح ’’میثاقِ معیشت‘‘ میں معیشت کہاں سے آئے گی؟
معیشت نام کی نیک بخت تو کب کی یہاں سے رخصت ہو چکی۔ اب تو اس مرحومہ کی نشانیاں ہیں جنہیں دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے اور صدقے واری جاتے ہیں۔ رخصت ہو چکی اس بی بی معیشت کی نشانیوں میں ’’قرضہ‘‘ اور ’’افراطِ زر‘‘ سرِفہرست ہے۔ ایک بیٹی کا نام ’’غربت‘‘ دوسری کا ’’بے روزگاری‘‘ اور تیسری کا ’’مندی بیگم‘‘ ہے اور چوتھی ’’مہنگائی‘‘ کہلاتی ہے۔رہ گئیں ریکوریاں تو جہاں اے سی اور ٹی وی چلتے ہوں، آلو گوشت، کریلے قیمہ، ٹینڈے گوشت اور بینگن کا بھرتہ جیسے من پسند کھانے مع چٹنیاں، رائتے پیش ہوتے ہوں——- وہاں اور کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ریکوریاں ممکن نہیں، سو پتھر پہ جونک کی طرح لگے رہو، چمٹے اور چپکے رہو لیکن چیلوں کے گھونسلوں سے کبھی ماس برآمد ہوتے دیکھا تو کیا کبھی سنا تک نہیں۔
ادھر وزیراعظم عمران خان بھی ماشاء اللہ چشم بددور بھولپن کے مائونٹ ایورسٹ پر بیٹھ کر کہتے ہیں——- ’’عوام اور حکومت خود کو بدلیں‘‘۔ انسان اگر تقریروں، نصیحتوں، مشوروں، خطبوں، وعظوں سے بدلتے تو آج اس کرہ ارض پر فرشتوں کی فراوانی ہوتی جبکہ ہمارے بارے میں تو علامہ اقبال یہاں تک کہہ گئے کہ——’’خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں‘‘انسانوں کو تبدیل کرنا بہت صبر آزما، تکلیف دہ حد تک طویل اور جان جوکھوں کا کام ہے جو تقریروں کے ذریعہ ممکن نہیں اور لیڈر شپ کے لئے سب سے بڑا چیلنج بھی دراصل یہی ہوتا ہے۔ خاکسار جو مدتوں سے لکھ رہا ہے کہ ’’انسان سازی‘‘ پر توجہ دو تو وہ کوئی ہوائی بات نہیں، تاریخی حقیقت ہے کہ انسان بننا شروع ہو جائیں تو باقی سب کچھ خودبخود ایک خودکار نظام کے تحت بننا شروع ہو جاتا ہے۔ میرا تو تکیہ کلام بن چکا کہ ہمارا مسئلہ اقتصادیات نہیں، اخلاقیات کا ہے جو سوائے انسان سازی کے اور کسی طریقہ سے ممکن ہی نہیں لیکن یہاں توموالیوں کا مجمع ہےسوالیوں کا ہجوم ہےکہیں راج کال، کہیں اناج کال۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں