“حامد ” فلم ریویو۔۔۔۔۔۔۔۔۔علی اختر

میں بہت کم فلمیں دیکھتا ہوں اور وہ بھی گھر پر لیپ ٹاپ یا موبائل میں ۔ سینما جانے کا بھی کبھی اتفاق نہیں ہوا ۔ لیکن آج دیکھی ہوئی  ایک فلم کی دل کو چھو لینے والی کہانی نے اسکے بارے میں مزید جاننے اور لکھنے پر مجبور کر دیا ۔

“حامد” کشمیر میں فلمائی گئی ایک کم بجٹ کی انڈین فلم ہے جو ایک ماں، اسکے آٹھ سالہ بیٹے اور ایک بھارتی فوجی کے گرد گھومتی ہے ۔ اعجاز خان کی ڈائریکٹ کی گئی  یہ فلم ایک کہانی میں ہزاروں کہانیاں بیان کرتی ہے اور اہل دل کو کئی  موقعوں پر آنسو پونچھنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔

فلم ریویو: مین ان بلیک انٹرنیشنل ۔۔۔ احمد ثانی

2018 کے آخر میں ریلیز ہونے والی اس فلم کی کہانی “رحمت” نامی ایک کشمیری مزدور کے گھر سے شروع ہوتی ہے جو کشتی بنانے کا کام کرتا ہے اور ساتھ ہی ایک شاعر بھی ہوتا ہے ۔ ایک رات گھر سے نکل کر اچانک وہ مسنگ پرسن بن جاتا ہے اور پھر لوٹ کر واپس نہیں آتا ۔ اسکی تلاش میں اسکی بیوی “عشرت” ہاتھ میں فائل اٹھائے آئے دن تھانے کے چکر کاٹتی ہے اور اسے بار بار لاشیں پہچاننے کے لیے  تھانے طلب کیا جاتا ہے ۔ اسکا آٹھ سالہ بیٹا “حامد” ایک دن اپنی معصومیت کی بنا پر نمبر 786 کو اللہ کا نمبر سمجھ کر اللہ کو فون ملا دیتا ہے جو ایک بھارتی فوجی کا نمبر ہے جو پہلے ہی کشمیر میں ایک بچے کو گولی کا نشانہ بنانے کے سبب نفسیاتی الجھن کا شکار ہے ۔ وہ فوجی بھی حامد سے بات کرنا شروع ہو جاتا ہے اور اس طرح ایک دلچسپ صورتحال پیدا ہو جاتی ہے ۔

کتکشا —- ظفرجی/فلم ریویو

فلمیں سب سے جاندار اداکاری “رسیکا دوگل” کی ہے جنہوں نے حامد کی ماں کا کردار ادا کیا ہے ۔ اس سے پہلے وہ فلم “منٹو” میں بھی سعادت حسن منٹو کی بیوی کا کردار ادا کر چکی ہیں ۔ اسکے ساتھ ساتھ ڈائریکٹر نے کشمیری لب ولہجہ میں مکالمہ پر بھی خاص توجہ دی ہے ۔ اب وہ کس قدر کامیاب رہا یہ تو کوئی  کشمیری ہی بتا سکتا ہے ۔ ساتھ ہی کشمیر کا کلچر ، مناظر ، لباس وغیرہ کو بھی بہترین طریقہ سے فلمایا گیا ہے ۔

یہ فلم اچانک گم ہو جانے یا کر دیے جانے والے افراد کے گھر والوں کی مشکلات ، ذہنی کرب اور کبھی نہ ختم ہونے والی تلاش کو بیان کرتی ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ ایک بچے کی معصومیت، بدلتے خیالات ، محبت و نفرت اور ساتھ ساتھ مسلح  جتھوں (قطع نظر کہ  وہ دہشت گرد ہیں یا فریڈم فائٹرز) کے لیے تر نوالہ بننے کی کہانی کہتی ہے ۔ دوسری جانب ایک فوجی کا ذہنی کرب اور احساس جرم بھی بیان کیا گیاہے۔ اپنے ساتھیوں کی ہلاکت پر ، کشمیریوں کے اپنے تئیں نفرت پر اسکی ذہنی کیفیت کیا ہوتی ہے اور وہ کس طرح قریب قریب ایک نفسیاتی مریض بن جاتا ہے ۔

ٹائٹینک۔۔۔۔حسنین چوہدری/فلم ریویو

Advertisements
julia rana solicitors

فلم دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ  اچھی فلم بنانے کے لیے  قطعی ضروری نہیں کہ  آپ کے پاس کروڑوں کا بجٹ ہو بلکہ بارش کے گانوں ، ننگے بچھے آئٹم سانگز ، بلڈنگز اور گاڑیوں کی تباہی ، مشہور اور مہنگے اداکاروں اور گلیمر کے بغیر بھی اچھی فلم بنائی جا سکتی ہے ۔ یہ فلم احساس اجاگر کرتی ہے ، تکالیف بتاتی ہے سرحد کے دونوں طرف موجود ان سینکڑوں حامدوں کی جن کے پیارے سالوں سے غائب ہیں ۔ فلم دیکھیں اور سوچیں کہ  کل حامد کی جگہ  میرا اور آپکا بیٹا اور اسکی ماں کی جگہ ہماری ماں بھی ہو سکتی ہے ۔ ویسے ایسی فلم بنانا بہت ہمت اور حوصلے کا کام ہے اور شاید ہمیں ابھی بہت وقت چاہیے   اس طرح کے تخلیقی کام کے لیے ۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply