عُرس اور تصوف۔۔۔۔۔محمد جاویدخان

ضلع پونچھ کشمیر کاایک بڑا ضلع ہے۔1947 ء کے بعد کشمیرکی طرح پونچھ بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔بڑا حصہ مقبوضہ کشمیر میں اور کچھ حصہ آزادکشمیر میں آگیا۔سون ٹوپہ آزاد کشمیر والے پونچھ کا گاؤں ہے۔ ٹو پہ گاؤں کابالائی اور سرد حصہ ہے۔جب کہ سون زیریں اور قدرے گرم علاقہ ہے۔بالائی حصہ سیاحتی نقطہ نظرسے ابھی تک توجہ کا منتظر ہے۔تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے ایک نامور شخصیت اورآزاد کشمیر کے اولین بیرسٹر،سردار محمد ابراہیم خان اسی گاؤں کی سرحد پر،اپنے مزار میں آسودہ خاک ہیں۔ٹوپہ بلند جگہ ہے اور اس بلندی کی مزید بلندچوٹی پر کشمیر کے بزرگ رہنما کا مزار ہے۔ٹوپہ اور سون کے وسط میں ایک اور مزار ہے۔یہ گاؤں کا سب سے قدیمی مزار ہے۔پتھروں کو تراش کر اس کی دیواریں تعمیر کی گئی ہیں۔ایک سبز گنبد  اس کی چھت پر کھڑا ہے۔بیاڑ،چیڑ اور کاککڑا کے بزرگ ترین درخت اس کے احاطے میں آج بھی کھڑے ہیں۔چند پرانی،خستہ قبریں جو نہ جانے کب کی ہیں؟مزار کے پیچھے ہیں۔ یہاں شام کو مغرب میں ڈوبتے سورج کی گاڑھی لالی کا منظر دیدنی ہوتا ہے۔آزادکشمیر کا اولین دارلحکومت جونجال ہل،یہاں سے نظروں کے سامنے ہے۔

تصوف اور اردو شاعری 1947 کے بعد۔۔۔چودھری امتیاز احمد

ہمارے بچپن میں اس مزار پر بڑے بڑے عرس ہوتے تھے۔کھڑک،متیالمیرہ اور رہاڑہ سون ٹوپہ کے پڑوسی گاؤں ہیں۔جون کے تپتے اور گرم دنوں،عرس کے ایام میں،یہ سارے گاؤں یہاں اُمڈ آتے۔جون میں بھی یہاں ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں۔یہ گر میوں میں بھی یہاں ڈیرہ ڈالے رہتی ہیں۔یہ جگہ گاؤں کے وسط میں ہونے کے باوجود،بلندی پر واقع ہے۔لوگ چیڑ کی چھاؤں اور  نرم گھاس کے فرش پر پہروں بیٹھ کر علماء کے واعظ سنتے۔یہ واعظ اگرچہ بہت عالمانہ نہ بھی ہوتے مگر احاطہ مزار میں بیٹھے لوگوں کے لیے یہی سب کچھ ہوتے۔ایک تو احاطہ مزار،پھر صاحب مزار کا نام بھی پیر نور علی شاہ صاحب تھا۔دور،دور سے آئے علماء کرام سیرت کے گوشے،اولیا اللہ کی کرامات  کی لَے میں جھوم جھوم کر بیان کرتے تو جون میں،ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھے لوگ بھی جھومنے لگتے۔ اوپر درختوں کی ڈالیاں ہوا میں جھومتیں  تو نیچے سامعین جھومتے۔ خواتین آنسوبہانے لگتیں۔صوفیا ء کی زندگیوں سے زہد و تقویٰ کی  مثالیں،کرامات اور تعلیمات بیان کی جاتیں۔سیف الملوک اوربابا بھلے شاہ ؒ کا کلام پڑھا جاتا تو مجمع وجد میں آ جاتا۔وعظ سے زیادہ صوفیا ء کا شاعرانہ کلام اثر کرتا۔ماضی میں وہ علماء زیادہ پسند کیے جاتے تھے تو جو لے میں واعظ کرتے تھے۔پیر نور علی شاہ ؒ کے بارے میں کوئی تاریخی شہادت نہیں ملتی۔ کہتے ہیں ایک بزرگ یہاں چلہ کش ہوئے تو انھوں نے انکشاف کیا کہ صاحب مزار کا نام پیر نور علی شاہ ؒ ہے۔گاؤں والوں نے نشان دہی پر مزار تعمیر کر دیا۔برصغیر میں نوگزی قبریں اور زندہ پیر کے مزارات یا بیٹھکیں عام ہیں۔نور علی شاہ ؒ نامی بزرگ، زندہ پیر سلسلے سے ہیں یا کسی سلسلے سے بھی پرانے بزرگ۔اس بحث سے ہمارا تعلق نہیں۔

عرس اسلامی تصوف کا حصہ ہے۔اور یہ ایک ثقافت بن گیا ہے۔عرس شریعت میں جائز ہے یا نہیں مگر حضرت جامی ؒ،مولاناروم، ؒمعین الدین چشتی ؒ،شیخ غزالی ؒ،حضرت بہاؤالدین نقشبند ؒ اور حضرت ہودعلیہ اسلام کے عرس منائے جاتے ہیں۔

تصوف وصوفی ازم دفاع اسلام کا ذریعہ۔۔علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ سلسلہ وہاں وہاں موجود ہے،جہاں جہاں تک مسلم صوفیاء کی رسائی ہوئی۔عرس شریعی عمل ہے یا نہیں مگر بہت سے صاحب شریعت نے عرس منائے اور ان کے بھی منائے جارہے ہیں۔اس پروگرام نے ایک وقت لوگوں (مسلم اور غیر مسلم) کی تربیت میں وسیع حصہ ڈالا ہے۔جیسے ہر اچھی چیز کی نقل مارکیٹ میں آجاتی ہے اور نقص پیدا کرتی ہے۔ایسے ہی تصوف اور اس سے جڑی بے شمار چیزوں کی نقل نے اس پر بے شمار اعتراضات اٹھائے ہیں۔ان اعتراضات میں آج بھی اضافہ ہو رہا ہے۔جہالت،لالچ،شہرت پسندی اور کم علمی نے تصوف کے عالم گیر عمل کو سخت دھچکا پہنچایا ہے۔اعتراضات کے جواب میں عرس کی مجالس جو تبلیغ اور تقویٰ کی تحریک کا پروگرام تھا۔یہ تربیتی پروگرام جوابی اور دفاعی حملوں میں بدل کر رہ گیا۔سطحی علم اور تفرقہ بازی کی کھاد نے اس میں اور جھاڑ جھنکاڑ اگا کر رکھ دیے۔چنانچہ ساری مسلم دنیا کے مزارات خود کش دھماکوں  کی زد میں ہیں۔یہاں تک کہ  حضرت امام حسین ؓکا مزار بھی اس سے نہ بچ سکا۔حسین ؓ اک عالمی سچائی ہے۔یہ سچائی اب ایک استعارہ ہے۔حق کا عالمی استعارہ۔سون ٹوپہ کے وسط میں ایک ٹیکری پر،پیر نورعلی شاہ ؒکا عرس تین دنوں (۱۲،۲۲،۳۲ جون) کے بعد اختتام پذیر ہو گیا۔بیاڑ،چیڑ اور کاککڑا کے چھتناور درخت آج بھی موجود ہیں۔تیس سال قبل اس عرس کے جو منتظمین تھے وہ آج نہیں ہیں۔وہ مجمع بھی اس سال نہیں تھا جو چالیس سال پہلے تھا۔اس سال کا پروگرام بھی دفاعی اور کچھ کچھ جوابی رنگ لیے ہوئے تھا۔تصوف کی تحریک،خاموش اور عالم گیر تحریک ہے۔یہ اپنے اندر پورا ترقی پسندانہ مزاج رکھتی ہے۔صوفیا نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے تربیت کے انداز میں تبدیلی لائی ہے۔تصوف کے بے شمار سلسلے اسی مزاج کی کڑی ہیں۔ایک رجڈ پسندانہ مزاج لمبی زندگی نہیں جی پاتا۔تصوف کے اس پروگرام (عرس)کو نئے حالات کو نئے حالا ت کے مطابق ڈھالنا ہو گا۔رجڈ پسندانہ مزاج،رجڈ مطالعہ،رجڈ تعلیمات اور رجڈ واعظ زیادہ عرصہ جی نہیں پاتے۔تصوف محبت کی تحریک ہے سو نفرت کے بجائے سلسلہ محبت کو واپس جگہ دینی ہوگی۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply