اے فراز،اے فراز۔۔۔۔رفعت علوی/قسط2

گھنٹی بہت دیر تک بجتی رہی۔۔۔۔۔۔ کسی نے  بھی فون اٹینڈ نہیں کیا۔میں نے مایوس ہو کر ریسیور واپس رکھ دیا۔
آپ “بھابھی” کو فون لگائیں نا۔۔۔۔ہماری ایک بےتکلف مہمان دوست نے مشورہ دیا!
کون سی بھابھی میں نے مشورہ دینے والی دوست سے پوچھا۔۔
ارے وہی جنہوں نے ائرپورٹ پہ ہی فراز صاحب کو “گود” لے لیا تھا۔
دوسری خاتون نے بھابھی یعنی “مسز جعلی”سے اپنی کسی پرانی بات کا بدلہ نکالا، محفل میں ہنسی کا اک فوارہ سا چھوٹا۔
ان کو کیسے پتا ہوگا، میں نے پوچھا۔۔
صرف اور صرف انہی کو معلوم ہوگا۔۔ فراز صاحب کا موجودہ جغرافیہ، وہ  ذرا شوخی سے بولیں۔
اور یہ حقیقت ہے بقیہ آنے والے دنوں میں “ان بھابھی” نے بڑی تندہی اور سرگرمی سے ہر ہر موقع پہ ہمارے مقابلے میں فراز صاحب کو ڈیفنڈ کیا۔
اے فراز اے فراز۔۔۔رفعت علوی/قسط 1
پچھلے برس کی بات تھی ۔۔گئی رات میرے اک دوست کا فون آیا۔۔۔رفعت بھائی کل شام ہمارے پاس ہی آجائیں۔
کون رفیع؟۔۔۔۔۔۔اچھا ضرور آ جائیں گے مگر تقریب ملاقات کیا ہے،ہم نے جواب دیا
طلعت بھابھی کی فرمائش پہ چچا، فراز صاحب کو لے کر آ رہے ہیں۔ دوسری طرف سے رفیع نے جواب دیا
اور رفیع کے یہ چچا جناب مجروح سلطان پوری تھے۔۔
طلعت بھابی نہایت شائستہ پڑھی لکھی، ترقی پسند اور مہذب خاتون تھیں۔ ان کا تعلق لکھنؤ سے تھا۔ گو کہ وہ ہندوستانی نیشنل تھیں مگر پڑھاتی تھیں پاکستانی اسکول شارجہ میں ، اور ان کے حلقہ احباب میں ہر  طرح کے مکتبہ فکر کے لوگ شامل تھے ۔لہذا محفل بڑی رنگ برنگی تھی حاضرین میں خواتین کی تعداد  زیادہ تھی، جن میں اسکول کی نوجوان اور شوخ و شنگ لیڈی ٹیچرز بڑی بیباکی سے جملے اچھالنے میں پیش پیش تھیں۔

لیجئے، میں پھر اپنے موضوع سے بھٹک گیا مگر فراز کے سلسلے میں یہ واقعہ بیان کرنا ضروری تھا۔ مجروح صاحب بڑے وضعدار اور دماغ دار شاعر تھے مگر اس دن انہوں  نے فراز کے سلسلے میں اپنے آپ کو کافی ڈھیل دی ہوئی تھی اور مسلسل ہلکے پھلکے ہنسی مذاق کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ فراز کو سامعین کے سامنے پیش کرتے ہوئے  بولے “ہوٹل سے چلتے وقت فراز نے مجھ سے پوچھا تھا کہ محفل میں “کچھ پینے” کو ملے گا۔ میں انہیں یہاں جھوٹ بول کر لایا ہوں”
فراز صاحب حسینوں کے جھرمٹ میں بڑے مگن تھے۔ اپنا کلام سناتے جائیں اور سب کی فرمائشیں بھی پوری کرتے جائیں اور وقتا ً فوقتاً  پیاس کی شکایت بھی کرتے جائیں۔ آخر ایک شوخ و شنگ خاتون نے آگے بڑھ کے انھیں لمکا کی اک بوتل پیش کی، فراز نے چشمہ اتار کے بوتل کا جائزہ لیا، ایک گھونٹ لیا مسکرائے اور بولے “حسین چہروں سے  تو ہم پہلے بھی دھوکا کھا تے رہے ہیں اک اور سہی”
پوری محفل کشت زعفران بن گئی۔۔

شہزی آپا۔۔۔۔رفعت علوی/قسط 1

بےتکلف دوستوں کی محفل تھی، باتوں باتوں میں فراز صاحب نے مجروح سلطان پوری کی اعلیٰ  ظرفی کی تعریف کرتے ہوئےکہا کہ برسوں سے مجروح کا ایک مشہور شعر لوگوں کی غلط فہمی کی وجہ سے مجھ سے یعنی احمد فراز سے منسوب ہو گیا ہے  ۔مجروح صاحب نے آج تک اشارے کنائے میں بھی مجھ سے اس کی تردید کرنے کو نہیں کہا۔ پھر انھوں نے یہ شعر پڑھا
“ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک بھی ستم کی سیاہ رات چلے ”

شعر انہوں  نے دوبار پڑھا۔۔۔۔ گویا اس کا مزہ لے رہے  ہوں اور بولے”میں آج آپ سب پڑھے لکھے لوگوں کو گواہ بنا کر یہ شعر ان کو واپس کر رہا ہوں ایسا خوبصورت اور جاندار شعر ہندوستان میں صرف مجروح صاحب ہی کہہ سکتے ہیں۔
واہ فراز کا یہ رنگ ڈھنگ

یادوں اور باتوں کا سلسلہ وہی سے جوڑتا ہوں جہاں سے ٹوٹا تھا یعنی مسز جعلی کے تذکرے سے ،جنہوں نے بقول شخصے ” دوبئی ائیرپورٹ سے ہی فراز صاحب کو گود” لے لیا تھا۔۔۔ جی ہاں ائرپورٹ پہ ہی!!
مسز جعلی مردوں اور عورتوں دونوں حلقوں میں یکساں طور میں غیر مقبول تھیں۔ انکا عورتوں میں پاپولر نہ ہونا تو سمجھ میں آتا تھا مگر مرد حضرات ان کو کیوں نا پسند کرتے تھے یہ آج معلوم ہوا، خیر بھابھی کو فون کیا۔۔
حسب توقع جواب حاضر تھا۔۔
آپ کو نہیں پتا علوی بھائی؟ آج تو فراز صاحب دوبئی گئے ہوئے ہیں! پاکستان بزنس کونسل کے مجیدی صاحب کے گھر انکا عشائیہ ہے۔
پتا ہوتا تو آپ کو فون کیوں کرتے، میں نے جل کے کہا اور فون بند کردیا۔
میں نے ادھر ادھر دیکھا، فراز کے نہ آنے کی اطلاع پر خواتین کے چہرے اتر سے گئے تھے ، منتظمین کے چہروں پہ پہلے ہی فراز کے لئے بیزاری اور خفگی تھی ہاں دیگر شعراء اس نیوز پر بہت مسرور نظر آئے۔ ایک دو نے تو اظہار مسرت کے طور پہ جلدی جلدی سگرٹ کے لمبے لمبے کش لے کر ان کے نہ آنے کا جشن منایا

سیاہ حاشیہ ۔۔رفعت علوی
جن حضرات نے فراز کو مشاعروں میں پڑھتے دیکھا اور سنا ہوگا وہ ان کے جادو سے بھی واقف ہوں گے۔ یہ حقیقت ہے ان کے پڑھنے کے بعد چراغوں میں روشنی نہیں رہتی تھی۔
ایسے ہی تذکرہ ایک ابو ظہبی کے مشاعرے کا، سن تو لیں۔۔۔
میریڈین ہوٹل ابوظہبی کا مشاعرہ، ہال کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ فرش اور کرسیوں پہ تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ لوگ دیواروں کا سہارا لے کے کھڑے تھے۔ ذرا دیر پہلے ایک ایسے مزاحیہ شاعر اپنا کلام پیش کر کے گئے تھے جنھوں نے پورے مشاعرے کا مزاج ہی بدل دیا تھا اور پورا ہال تالیوں اور قہقہوں سے گونج رہا تھا ایسےماحول میں کوئی بھی سنجیدہ شاعر ڈائس پہ جانا اور اپنا کلام سنانا پسند نہیں  کرتا، خود منتظمین مشکل میں پڑ جاتے ہیں کہ کس شاعر کو داؤ   پہ لگائیں۔۔۔
اس صورتحال میں ناظم مشاعرہ ظہور السلام نے فراز صاحب کو دعوت کلام دی۔
پورے ہال میں پن ڈراپ سائلنس ہو گیا۔ فراز صاحب کے بال کچھ بکھرے ہوئے تھے آواز میں بھی کچھ لکنت سی تھی انھوں نے پڑھنا شروع کیا۔ ایک غزل پھر دوسری غزل، وہ پڑھ تو رہے تھے مگر بیچ میں مصرعے بھول رہے  تھے جسے سامعین لقمہ دے کر پورا کر رہے تھے۔
اور پھر سامعین کی طرف سے ” محاصرہ” کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ فراز صاحب نے بے بسی سے منتظمین کی طرف دیکھا اور بولے “معاف فرمائیں میں یہ نظم نہیں پڑھ سکتا”
یاد رہے کہ مملکت غیر میں مشاعروں کے منتظمین عام طور پہ شاعروں پر سیاسی کلام پیش کرنے پہ پابندی لگا دیتےہیں۔ سامعین کی طرف سے اصرار اور شور و غوغاں سے ہال میں ایک عجیب سی بے چینی پھیل گئی۔۔ ایسے میں صدر مشاعرہ جو یو اے ای میں سفیر پاکستان بھی تھے اپنی جگہ سے اٹھ کر مائیک پہ آئے اور فراز صاحب سے “محاصرہ” سنانے کی فرمائش کی۔۔۔۔ سرپرائز۔۔۔ سرپرائز۔۔۔

م . ح . م . د. کی باتیں۔۔رفعت علوی/قسط1

. پیچھے بیٹھے ہوئے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں  آگے آکر اسٹیج کے بالکل قریب فرش پر بیٹھ گئے، اب صورتحال یہ تھی کہ محاصرے کا ایک مصرع فراز صاحب پڑھتے اور شعر مکمل سامعین کرتے۔۔محاصرہ ایک طویل اور جذباتی نظم ہے  اس کا اپنا ایک پس منظر ہے  اور یہ نظم پروگریسو حلقے میں بے حد مقبول ہے ۔ فراز کی مقبولیت پہ آخری تبصرہ سفیر پاکستان کا تھا ” میں نے اور آپ سب نے ہزاروں حافظ قر آن دیکھے ہیں مگر یہاں اس مشاعرے میں “حافظ فراز” آج ہی دیکھے ہیں

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے!

Facebook Comments

رفعت علوی
لکھاری،افسانہ نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply