• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ایک ایم این اے اس قوم کو کتنے میں پڑتا ہے؟۔۔۔۔آصف محمود

ایک ایم این اے اس قوم کو کتنے میں پڑتا ہے؟۔۔۔۔آصف محمود

قومی اسمبلی میں بیٹھے یہ اکابرین، نہ بکنے والے والے ، نہ جھکنے والے ، کردار کے غازی ، بے داغ ماضی ، آپ کے قیمتی ووٹ کے جائز حقدار، کیا آپ کو کچھ خبر ہے ان یہ عظیم فرزندانِ جمہوریت اپنی آنیوں جانیوں سمیت اس غریب قوم کو کتنے میں پڑتے ہیں؟ کیا آپ کو کچھ خبر ہے کہ شوروہنگامے کے بعد جب اجلاس ملتوی کر دیا جاتاہے اور اکابرین اپنی پوشاکیں سہلاتے پارلیمانی لاجز چلے جاتے ہیں تاکہ تازہ دم ہو کر آئندہ اجلاس میں ایک بار پھر داد شجاعت دے سکیں تو اس سارے لایعنی عمل میں قرض کے بوجھ تلے دبی اس قوم کے کتنے سو لاکھ بربادہو چکے ہوتے ہیں؟ دو سال قبل یعنی 2017 میں اسمبلی بجٹ کے مطابق قومی اسمبلی کے ایک دن کے اجلاس کا خرچ 257 لاکھ روپے تھا۔ تب سے اب تک مہنگائی جس شرح سے بڑھی ہے یہ خرچ غالبا 400 لاکھ تک پہنچ چکا ہو گا۔ اس قوم کا کیا قصور ہے کہ اس کے چار سو لاکھ روپے چند گھنٹوں میں برباد کر کے جناب سپیکر ایک شان بے نیازی سے اعلان فرما دیں ’’ اجلاس ملتوی کیا جاتا ہے‘‘۔تدبر کا عالم یہ ہے کہ ایک جانب وزیر اعظم ہائوس کی بھینسیں چند لاکھ میں بیچ کر ملک بھر میں ڈھول بجایا گیا کہ آئیے دیکھیے ہم سادگی کے لیے کس قدر کوشاں ہیں اور دوسری جانب اراکین اسمبلی کو ہدایت دی جاتی ہے ’’ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے‘‘۔ اجلاس ملتوی ہوتا ہے تو ہوتا رہے۔400 لاکھ روپے یومیہ کون سا عمران خان ، نواز شریف یا آصف زرداری کی جیب سے جا رہے ہیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے ایک رکن قومی اسمبلی اس قوم کو کتنے میںپڑ رہا ہے؟ آج ہی پارلیمان سے تفصیلات منگوائی ہیں ، آپ بھی پڑھ لیجیے۔ بنیادی تنخواہ کی مد میں ایک لاکھ پچاس ہزار روپے، اعزازیہ کی شکل میں بارہ ہزار سات سو روپے، سمپچوری الائونس کی مد میں پانچ ہزار روپے ، آفس مینٹیننس الائونس کی شکل میں آٹھ ہزار روپے ، ٹیلی فون الائونس کے طور پر دس ہزار روپے اور ایڈ ہاک ریلیف کی صورت میں پندرہ ہزار روپے یعنی دو لاکھ ستر ہزار روپے ماہانہ ہر ایم این کو دیا جاتا ہے۔ فری ٹریول یعنی مفت سفر کی مد میں تین لاکھ روپے کے سفری وائوچرز یا نوے ہزار روپے کیش بھی ہر سال انہیں دیا جاتا ہے۔بزنس کلاس کے پچیس ریٹرن ٹکٹ ان کے حلقہ انتخاب سے نزدیک ترین ائر پورٹ سے اسلام آباد تک دیے جاتے ہیں۔ پہلے یہ سہولت صرف پی آئی اے تک محدود تھی۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے شاید سوچا ہو کہ شاہد خاقان عباسی کی ائر بلو اس بہتی گنگا میں اشنان کرنے سے کیوں محروم رہے اس نے جاتے جاتے یہ سہولت تمام ایر لائنز تک پھیلا دی۔ کنوینس الائونس ، ڈیلی الایونس اور ہاوسنگ الائونس کی مد میں بھی انہیں رقم فراہم کی جاتی ہے۔ کنوینس الائونس کے دو ہزار ، ڈیلی الائونس کے چار ہزار آٹھ سو اور ہائوسسنگ الائونس کے دو ہزار۔ یہ تینوں الائونس مل کر 8 ہزار 8 سو روپے یومیہ بنتے ہیں۔ تماشا دیکھیے ،پارلیمانی لاجز میں انتہائی قیمتی رہائش گاہ کے باوجود ہائوسنگ الائونس لیا جا رہا ہے۔ اب ان آٹھ ہزار آٹھ سو روپے یومیہ کی تقسیم کار کا فارمولا بھی جان لیجیے تا کہ آپ کو معلوم ہو جائے اس قوم کے ساتھ کیا واردات کی جا رہی ہے۔ فرض کریں قومی اسمبلی کا اجلاس جمعہ کو طلب کیا جاتا ہے اور دو گھنٹے کے بعد غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا جاتا ہے۔ایسے میں ہر رکن اسمبلی کو کنوینس الائونس ، ڈیلی الائونس اور ہائوسنگ الائونس کی مد میں ایک دن کے حساب سے آٹھ ہزار آٹھ سو نہیں ملیں گے۔بلکہ قانون یہ بنایا گیا ہے انہیں اجلاس سے تین دن پہلے اور تین دن بعد بھی یہ رقم دی جائے گی۔گویا معزز رکن اسمبلی ایک دن اجلاس میں شریک ہو ں تو انہیں سات دن کے حساب سے الائونس دیا جائے گا۔ یعنی ایک رکن اسمبلی دو گھنٹے اجلا س میں شریک ہو کر گھر چلا جائے تو اسے سات دنوں کے حساب سے 61 ہزار 6 روپے ملتے ہیں۔قومی اسمبلی کے معزز اراکین کی تعداد 342 ہے۔ یعنی صرف ایک دن اجلاس ہو تو صرف ان تین الائونسز کی مد میں اراکین اسمبلی کو دو کروڑ دس لاکھ روپے مل جاتے ہیں۔ یہی نہیں جب کبھی یہ قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس میں تشریف لائیں تو یہی تین الائونس انہیں ایک بار پھر مل جاتے ہیں۔ کمیٹی کا اجلاس ایک دن ہو تو انہیں اجلاس سے دو دن پہلے اور دو دن بعد تک یہ الائونس ملتا رہتا ہے۔مہینے میں قائمہ کمیٹیوں کے کتنے اجلاس ہوتے ہیں اور کتنا خرچ آتا ہے کبھی خود حساب کتاب کر کے دیکھ لیجیے۔ فضائی سفر ، ریل کے سفر ، یا سڑک پر سفر ہر صورت میں ان کے لیے الائونس تو ہیں ہی۔ یہ جب اسلام آباد قومی اسمبلی کے اجلاس یا قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہوتے ہیں تو کنوینس الائونس بھی لیتے ہیں ۔جس کا فارمولا اوپر بیان کر دیاگیا ہے۔لیکن تماشا یہ ہے کہ کنوینس الائونس کے ساتھ ساتھ انہیں آفیشل ٹرانسپورٹ بھی دی جاتی ہے۔ 1300 سی سی کار مہیا کی جاتی ہے اور تین سو ساٹھ لٹر پٹرول بھی فراہم کیا ہے۔ واردات یہیں ختم نہیں ہوتی، مسلم لیگ کی حکومت نے گذشتہ سال اقتدار کی مدت ختم ہونے سے چند گھنٹے قبل ان مراعات میں مزید اضافہ کر دیا۔انہوں نے تمام سابق ممبران اور ان کے اہل خانہ کے لیے تاحیات گریڈ بائیس کے افسران کے برابر میڈیکل کی سہولت کا اعلان کر دیا۔تمام سابق اراکین پارلیمان اور اس کی اہلیہ یا شوہر کو تاحیات بلیو پاسپورٹ رکھنے کی اجازت بھی دے دی گئی۔اب وہ ہمارے خرچ پر دنیا بھر میں وی آئی پی بنے پھرتے ہیں۔چیئر مین سینیٹ ، سپیکر ، اور قائمہ کمیٹیوں کے چیر مینوں کی مراعات میں بھی حیران کن اضافہ ہو گیا۔ صادق سنجرانی صاحب نے بطور قائم مقام صدر اس کی منظوری بھی دے دی۔ سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply