کتے۔۔۔۔اقبال حسن

نوٹ: میری یہ مختصر کہانی سیاسی سمجھ کر نہ پڑھی جائے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کتا پھر بھونکا اور اجمل نے پھر بے چینی سے انگڑائی لی ۔ شام سے اُسے بخار تھا ۔ بیوی نے بخار اور نیند کی گولیاں ایک ساتھ ہی کھلا کر اُسے سُلا دیا تھا ۔ وہ خواب گاہ میں اکیلا ہوگیا تھا جب اُس کی بیوی بیٹے کو سکول کے کام میں مدد دینے لاؤنج میں چلی گئی تھی ۔ پھر وہ سوگیا تھا کہکہیں کتا بھونکنے لگا ۔ اُس کی آنکھ کھلی اُس نے دائیں جانب دیکھا جہاں بستر پر اُس کی بیوی سویا کرتی تھی ۔ جگہ خالی تھی ۔ اس کے دو ہی مطلب ہو سکتے تھے ۔ یا تو رات ابھی زیادہ نہیں ہوئی تھی یا پھر اُس کی بیوی اُس کے بیٹے کے کمرے میں سو گئی تھی ۔ اُس نے دائیں جانب پڑی گھڑی اُٹھا کر دیکھی ۔ پونے دو بج رہے تھے ۔ اس کا مطلب تھا کہ اُس کی بیوی اُس کے بیٹے کے کمرے میں سو گئی تھی ۔ اُس نے کروٹ لی اور ایک بار پھر سونے کی کوشش کرنے لگا ۔ غنودگی ذرا ہی گہری ہوئی تھی کہ کتاپھر بھونکنے لگا ۔ اُسے اس وقت اس کتے کی آواز زہر لگ رہی تھی ۔ پھر خاموشی کا ایک طویل وقفہ آیا ۔ شاید کتا کسی اور طرف نکل گیا تھا ۔ اُسے خوشی ہوئی ۔ اُس کا منہ پھیکا ہو رہا تھا ۔ اُس کا جی چاہا کہ اُٹھ کر دو چار کلیاں کر لے لیکن کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے ہی نیند کا جھونکا آیا اور اُس نے ارادہ تبدیل کر دیا ۔ آنکھیں بند کرتے ہی اُس کی پلکوں تلے نیند کا میٹھا احساس جاگا لیکن اُسی لمحے کتا پھر بھونکا ۔ اس مرتبہ وہ عین اُس کی کھڑکی کے نیچے بھونک رہا تھا اور مسلسل بھونک رہا تھا ۔ وہ کچھ دیر برداشت کرتا رہا ۔ پھر اُسے اپنی بیوی پر غصہ آنے لگا ۔ کیسی عورت ہے یہ ۔ اچھی طرح جانتی ہے کہ میں بیمار ہوں ۔ مجھے آرام کی ضرورت ہے لیکن ٹس سے مس نہیں ہوتی ۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ کتا اس قدر شدت سے بھونک رہا ہوتا اور وہ اُس کی آواز نہ سنتی ۔ وہ برابر والے کمرے میں تھی ۔ اُس کمرے کی کھڑکی بھی اُسی گلی میں کھلتی تھی جہاں اس وقت وہ کمبخت کتا آسمان سر پہ اُٹھائے ہوئے تھا ۔ اُس نے چند لمحوں تک برداشت کیا ۔ کتا بھی کچھ لحظوں کو خاموش ہو گیا ۔ شاید وہ پھر سے بھونکنے کے لئے خود کو تازہ دم کر رہا تھا ۔ اُس نے دعا مانگی کہ اس وقفے کے دوران وہ گہری نیند سوجائے پھر کتا پڑا بھونکتا رہے ۔ نیند نے ایک بار پھر اپنا غلبہ کیا اور اُسی لمحے کتا پھر بھونکنے لگا ۔ اب یہ سب نا قابل برداشت تھا ۔ اُسے بستر سے اُٹھنا ہی پڑا ۔ وہ اس گرم بستر سے نکلا تو اُسے ٹھنڈ کا شدید احساس ہوا ۔ اُس نے جھر جھری لی ۔ کوٹ پہنا اور ٹوپی بھی ۔ پھر سٹور میں جا کر اپنے مرحوم باپ کی وہ چھڑی اُٹھائی جو مدتوں سے کونے میں کھڑی تھی ۔ چھڑی پر گرد کی ہلکی سی گرد جمی ہوئی تھی ۔ سٹور بھی شاید بہت دنوں سے نہیں کھولا گیا تھا ۔ اُسے کھانسی کا دھسکا لگا جسے اُس نے منہ بنا کر برداشت کیا ۔ وہ صحن سے گزرا اور اُس نے چھڑی کو ہاتھ میں تولا اور اس انداز سے تھاما کہ جیسے باہر نکلتے ہی کتے کی طبیعت صاف کر دے گا ۔ اُس نے دروازہ انہتائی خاموشی سے کھولا اور حملہ کرنے والے انداز میں جلدی سے باہر نکلا ۔ اُس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اُسے گلی ایک سرے سے دوسرے سرے تک خالی دکھائی دی ۔ ہوا البتہ چل رہی تھی جس کی وجہ سے دو چار خالی شاپنگ بیگز گلی میں اِدھر سے اُدھر چکر لگا رہے تھے ۔ کسی کا جاندار کا دُور دُور تک نشان نہ تھا ۔ شاید کتا اُس کے آنے سے پہلے ہی کہیں دفعان ہو گیا تھا ۔ اُس نے اطمینان سے سوچا اور گھر میں واپس ہونے کے لئے دروازے پر ہاتھ رکھا مگر اُسی لمحے کتا پھر بھونکنے لگا ۔ وہ گھوما اور اُس نے ایک مرتبہ پھر گلی میں آرپار دیکھا ۔ گلی بدستور سنسان پڑی ہوئی تھی ۔ تو پھر وہ کتا کہاں بھونک رہا تھا ۔ یقناً وہ کتا کہیں چھپا ہوا تھا ۔ مگر کہاں ۔ اُس نے تھڑے کے نیچے بہتی گندی نالی کو جھک کر دیکھا ۔ بدبو کا بھپکا اُس کی ناک میں گھسا اور وہ جلدی سے سیدھا کھڑا ہو گیا ۔ گلی خوب روشن تھی ۔ وہ گلی کے سرے تک دیکھ سکتا تھا ۔ پھر گلی کے دوسرے سرے سے ایک آدمی گلی میں داخل ہوا ۔ اُس نے شب خوابی کا لباس پہن رکھا تھا اور اُس کے ہاتھ میں بھی ایک چھڑی تھی ۔ وہ اُسے دیکھنے لگا ۔ آدمی اُس کے قریب آیا ۔ وہ اس گلی کا نہیں لگتا تھا ۔ وہ اپنی گلی کے سبھی لوگوں کو پہچانتا تھا ۔ آدمی اُس کے قریب رکا اور چند لمحوں تک اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔
“کتے کو ڈھونڈ رہے ہو؟” اُس نے اثبات میں سر ہلا ۔
آدمی ہنسا ۔۔
“میںبھی اُسی کو ڈھونڈ رہا ہوں ۔ میرے پیچھے ایک ہجوم لاٹھیاں لئے آرہا ہے ۔ ہم سبھی اُس کتے کو ڈھونڈ رہے ہیں جس نے ہماری نیندیں برباد کر دی ہیں ۔ مگر وہ ہمیں کبھی نہیں ملے گا۔”
اُس نے حیرت سے پوچھا۔
“کیوںنہیں ملے گا؟”
آدمی ہنسا اور بولا۔
کیونکہ وہ ہمارے اندر سے بھونکتا ہے۔
آدمی تیزی سے ہاتھ میں پکڑی چھڑی لہراتا چلا گیا ۔ اُس نے گھوم کر دیکھا ۔ آدمیوں کا ایک ہجوم ہاتھوں میں چھڑیاں پکڑے اور شور مچاتا گلی میں داخل ہوا ۔ وہ ڈر گیا اور فوراً ہی گھر میں گھس کر دروازہ بند کر لیا ۔ پھر وہ دروازے کے ساتھ ہی پشت لگا کر بیٹھ گیا ۔ شاید اُنہوں نے اُس کتے کو ڈھونڈ لیا تھا ۔ شاید مار دیا تھا کیونکہ گلی میں اب بالکل سناٹا تھا ۔ وہ کھڑا ہوا۔ اُس نے دو ہی قدم لئے ہوں گے کہ کتا پھر بھونکنے لگا ۔ اُس نے غصے سے چھڑی پھینکی جو کسی چیز سے ایسے ٹکرائی کہ گھر کا چھوٹا سا آنگن گونج اُٹھا ۔ اُسی لمحے اُس کی بیوی کمرے سے نکلی اور حیرت سے بولی۔
یہ کیسا شور تھا اور تم اس وقت یہاں کیا کر رہے ہو؟
وہ پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔
میں وہ کتا ڈھونڈ رہا ہوں جو میرے اندر سے بھونکتا ہے مگر میں اُس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ میں ہی نہیں سارا شہر اُسی کتے کو ڈھونڈ رہا ہے اور ہم سب اُس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔جانتی ہو کیوں؟ ہم نے پال پوس کر اُسے اتنا بڑا کر دیا ہے کہ اب ہمیں اُس سے خوف آنے لگا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کتے۔۔۔۔اقبال حسن

  1. اقبال حسن خان کا کمال یہ ہے کہ وہ حقیقت پسندی پر یقین رکھتے ہیں ۔جب بھی لکھتے ہیں گویا لفظوں کو نئی زندگی عطا کردیتے ہیں

Leave a Reply