اصلاح مشکل ہو تی ہے۔۔۔۔ جاوید خان

کہتے ہیں کسی زمانے میں،کسی ملک پر ایک عادل بادشاہ حکومت کرتا تھا۔اس کے کئی بیٹے تھے۔یہ سب کے سب لائق او ر کسی نا کسی فن میں یکتا تھے۔بادشاہ کو اپنے چھوٹے بیٹے سے زیادہ پیار تھا۔اس میں بے شمار خوبیاں تھیں۔علاوہ وہ بہترین مصور تھا۔اک دن بادشاہ نے محسوس کیا کہ  وہ اداس اداس سارہتا ہے۔بادشاہ نے تخلیے میں بیٹے سے پوچھا جان پد ر!اس اداسی  کی کوئی وجہ۔؟شہزادے نے کہا اباحضور آپ جانتے ہیں مجھے مصوری کا شوق ہے۔میں نے ایک تصویر بڑی مشقت سے بنائی،میرے مطابق وہ اس وقت تک کی میری بہترین مصوری ہے۔میں نے اس کے نیچے یہ عبارت لکھی ”جہاں کہیں بھی غلطی ہو تو نشان دہی کر دیجیے“ اور تصویر بازار کے چوک میں لٹکا دی۔دوسرے دن میری وہ بہترین مصوری اتنی نشان زدہ تھی کہ اس کی اصل شکل ہی مٹ کر  رہ گئی۔جس تصویر کو میں اپنے حسن تخیل کا شاہکار سمجھا تھاوہ عوام نے بالکل مسترد کردی۔

بادشاہ مسکرایا صاحب زادے سے کہا یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں۔کیا آپ بالکل ویسی ہی تصویر بنا سکتے ہیں۔؟شہزادے نے کہا جی!بالکل ،کیوں نہیں۔

دوسرے دن شہزادے نے بالکل ویسی ہی تصویر بادشاہ کے سامنے پیش کردی۔بادشاہ نے تصویر کوغور سے دیکھا اور شہزادے سے تصویر کے نیچے لکھوایا ”جہاں کہیں بھی غلطی ہو اصلاح کر دیجیے۔“تصویر ٹھیک اسی جگہ لٹکا دی گئی۔

تیسرے دن شاہ زادے کی خوشی دیدنی تھی۔بادشاہ نے پوچھاآج مسرت کی کوئی خاص وجہ۔؟

شہزادے نے تصویر دکھلائی اور اپنی مسرت کوچھپاتے ہوئے کہاابا حضور!دیکھیے آج کوئی بھی نشان نہیں لگا۔عوام میں میری مصوری مقبول ہے۔آخر آپ نے کیا کیا۔؟

بادشاہ نے کہا شہزادے آ پ کی تصویر میں خامی نہیں تھی۔بلکہ  تصویر کے نیچے لکھی عبارت میں تھی۔پہلے دن آپ نے تصویر کے نیچے لکھا تھا ”جہاں کہیں غلطی ہو نشان دہی کیجیے۔“دوسرے دن اسی تصویر کے نیچے لکھی عبارت تھوڑی مختلف تھی۔”جہاں کہیں غلطی ہو اصلاح کر دیجیے۔“اب غلطی نکالنا آسان ہے مگر غلطی کی اصلاح کرنا مشکل کام ہے۔سو پہلا کام آسان تھا ہر ایک نے نشان لگا دیا۔دوسرا کام یعنی اصلاح کرنا مشکل تھا سو کسی نے بھی نشان نہیں لگایا۔بادشاہ کی رعایا سمجھ دار تھی۔اسے پتہ تھاکہ غلطی کی نشان دہی آسان ہے،مگر غلطی کی اصلاح کرنا ایک مشکل ترین کام ہے۔انقلاب پہلے سے بہتر تبدیلی کانام ہے۔ہر انقلاب کی آج تک یہی تعریف رہی ہے۔انقلاب بڑی خون ریزیوں کے بعد آئے  ہوں یا بغیر کسی قتل و غارت کے وہ یادگار نشان چھوڑ دیتے ہیں۔انقلاب کے عمل سے گزرنے والی تحریکیں،اپنے افراد کو اس بھٹی سے نکالتی ہیں۔کہ ہر کارکن انقلاب کی روح کو پوری طرح سمجھ رہا ہوتا ہے۔انقلابی اور نظریاتی تحریکوں کا کام بھگدڑ نہیں ہوتا۔جتھا بندی،ہجوم اور افراتفری جتنی زیادہ تخریب کرتی ہے۔تعمیر کا عمل اس کی نسبت بہت کم ہوتاہے۔سیاسی تنظیمیں ایسی اکیڈمیاں یا درس گاہیں ہوتی ہیں جہاں قیادت پیدا ہوتی ہے۔اگر یہ اکیڈمیاں بھی کسی وقت جمود کا شکار ہوجائیں یا پھر بانجھ ہو کر رہ جائیں تو یہ جمود کسی انتشار یا پھر بڑی افراتفری کامنظر ہوتا ہے۔ایسا وقت قوموں کی تاریخ میں خطرناک موڑ لے آتا ہے۔تبدیلی سے مراد پہلے دن کا سورج غروب ہو کر،دوسرا دن طلوع ہونا نہیں ہوتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تبدیلی ایک اصطلاح ہے۔یہ بحران،ہنگامی حالات،مسائل اور بے چینی جیسے انگڑائی لیتے لاوے  کو بڑے سلیقے سے ٹھنڈاکرنے کانام ہے۔ایک انقلابی یا ریفارمر،بحرانوں سے بڑے حوصلے سے لڑتا ہے۔وہ واقعی ریفارم کرتاہے۔وہ مزید بحرانوں کو پیدا نہیں ہونے دیتا۔وہ کمزور قوم کی کمزوریوں کی اصلاح کر کے دکھاتا ہے۔ورنہ کمزوریوں کی نشان دہی ہی کرنی ہو تو وہ ایک چائے والے کی دکان پر دن بھرہوتی رہتی ہے۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply