کالا شاہ۔۔۔۔روبینہ شاہین

علی زین انڈونیشیا میں پیدا ہوا اور زندگی کے ابتدائی چار سال وہیں گزارے۔ جکارتہ میں زیادہ تر انڈونیشینز، چائینیز اور انڈینز رہائش پذیر ہیں۔ انڈونیشینز اور چائنیز بچوں سے بہت محبت کرنے والے لوگ ہیں، پھر ان کو تیکھے اور کھڑے نقوش کے انڈینز اور پاکستانی بہت حسین لگتے ہیں۔ علی زین نے پیدائش سے لے کر چار سال کی عمر تک ہر لحظہ اپنے اردگرد ستائش کرنے والوں کا جھرمٹ پایا۔ ابتدائی تعلیم کا ڈیڑھ سال بھی کلاسیکل مونٹیسوری میں گزارا، اور یوں علی کے لئے زندگی بہت خاص ہونے کا نام رہا۔

چار سال کی عمر میں پاکستان واپسی ہوئی، اور علی زین نے سکول جانا شروع کیا۔ چند دن میں ہی علی کو معلوم پڑ گیا کہ وہ کوئی بہت خاص بچہ نہیں۔ سکول کے بچے اسکی رنگت کی وجہ سے اس کا مذاق اڑاتے تھے، اور بات فقط اتنی تھی بھی نہیں۔ ہمارے اکثر عزیز رشتہ دار ہم سے ملتے اور انتہائی حیرت سے مجھ سے پوچھتے، “روبینہ یہ بچہ کس پر گیا ہے، تمہارا تو بالکل نہیں لگتا، اسکا رنگ کس پر گیا ہے؟” لوگوں کے الفاظ شاید علی کو زیادہ سمجھ نہ آتے ہوں، لیکن انکے دیکھنے کا انداز اور لہجہ وہ سمجھنے لگا تھا۔ وہ سردیوں کی ایک شام تھی، میں اسکے ہاتھ دھلا رہی تھی، ہلکا سا ٹھنڈا پانی اسکے ہاتھوں کو لگا، اور علی نے کہا، “اف ماما کتنا کالا شاہ پانی ہے۔” میں حیران رہ گئی، کہ یہ لفظ اس نے کہاں سے سنا۔ علی لفظ کا مطلب نہ جانتا تھا، لیکن اسے اتنا معلوم تھا کہ ناگوار شے کو ہی کالا شاہ کہا جاتا ہے۔ میں اگلے دن اسکے سکول چلی گئی، سکول مینجمنٹ اور ٹیچرز سے کافی لمبی بحث اور انکی بہت سی یقین دہانیوں کے بعد میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ ہم سکول والوں کو سمجھا سکتے ہیں، لیکن جو بچے اسکی کلاس میں پڑھتے ہیں، ان کی جو عادات انکے گھر والے بنا چکے، اب ان کو فوراً سے سدھار دینا سکول والوں کے بس میں بھی نہیں۔ میں نے اس معاملے میں علی کو احساس کمتری سے باہر نکالنے کے لئے اس کی ذہنی تربیت شروع کر دی۔ گو وہ میری بہت سی باتیں سمجھتا تھا، لیکن عمر بہت کم ہونے کی وجہ سے وہ اپنے احساسات کو بیلنس کرنے میں کبھی کامیاب ہوتا، کبھی ناکام ہو جاتا۔ پانچ سال کی عمر میں، اسکا بھائی حسن گھر میں آیا، اور شومئ قسمت کہ حسن کا رنگ انتہائی سفید تھا۔ لوگوں کے انداز مزید احمقانہ ہونے لگے، اور میری محنت مزید بڑھ گئی۔ وقت یونہی گزرتا رہا، اور مجھے علی کو اس احساس کمتری سے نکالنے اور اسے اس سے بچائے رکھنے میں مزید پانچ سال لگے۔ ان پانچ سالوں میں ایک چھوٹے سے بچے نے جو مشکلات دیکھیں، وہ شاید بیان بھی نہ ہو سکیں۔ آج علی یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ رنگ انسان کی ذاتی خصوصیت نہیں، اور انسان کی قدر اسکی ذاتی خصوصیات سے ہی ہے۔ اسکا میتھس بہت اچھا ہے، وہ بہت ذہین اور لاجیکل ہے، اور اب بہت پر اعتماد بھی۔ 12 سال کی عمر میں اسکی تجزیاتی صلاحتیں بائیس سال والوں سے بہتر ہیں۔ اب وہ رنگ کالا ہونے کی بات کرنے والے کو بے وقوف سمجھتا ہے۔ اسکے احساسات کو پرکھنے کے لئے میں گاہے بگاہے اس سے لوگوں کے اور اسکے رنگ کے بارے میں بات کرتی رہتی ہوں۔ کبھی کبھار اسے چھیڑتی بھی ہوں۔ وہ کبھی مجھے سمجھاتا ہے، اور کبھی مذاق میں شریک ہو کر انجوائے کر لیتا ہے۔ یہ سب باتیں میرے لئے بہت خوش آئند ہیں، اور میں اکثر سوچتی ہوں کتنے والدین اپنے بچوں کو جسمانی خصوصیات کی بنا پر احساس کمتری سے بچا پاتے ہونگے؟

کرکٹ ورلڈ کپ میں سب نے اپنی اپنی فیورٹ ٹیمز منتخب کیں، علی نے ویسٹ انڈیز کا انتخاب کیا۔ ہم سب زور و شور سے اپنی ٹیمز کو سپورٹ کرتے رہے۔ تین دن پہلے میں نے شرارتاً علی کو کہا، یار تم نے تو نالائق ٹیم چن لی ہے! اس انتخاب کی واحد وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ انکا رنگ تمہارے رنگ سے ملتا جلتا ہے۔ علی مسکرا دیا اور کہنے لگا، ماما آپ کو ہر بات کیسے پتا چل جاتی ہے؟ میں پھر حیران رہ گئی، کہ اتنا سمجھدار ہونے کے باوجود، دل کے نہاں خانوں میں کہیں یہ احساس موجود ہے کہ اسکا رنگ صاف نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہماری پسند ناپسند ہماری عقل کے تابع نہیں، اگر ہمیں سفید لوگ اچھے لگتے ہیں، تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ لیکن ہم اسکا اظہار کس موقع پر کیسے کرتے ہیں، یہ اہم ہے۔ اپنے بچوں کو یہ شعور دیں، کہ جسمانی خصوصیات کی بنا پر کسی کو حقیر نہ سمجھیں اور اگر کسی میں کوئی کمی بھی ہو تو اسکا مذاق اڑانا انتہائی قبیح فعل ہے۔ سب سے پہلے اس تربیت کے لئے خود احتسابی کیجئے، اور لوگوں کی جسمانی خصوصیات کا مذاق اڑانا چھوڑ دیجیے۔ میں نے بہت پڑھے لکھے لوگوں کو سرفراز کی تھتھلاہٹ کا مذاق اڑاتے دیکھا۔ خدارا، آنے والی نسلوں کا خیال کیجئے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply