• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستان کے پہلے آئین کی تاریخ/خواجہ ناظم الدین۔۔۔۔۔داؤد ظفر ندیم/قسط7۔دوسرا،آخری حصہ

پاکستان کے پہلے آئین کی تاریخ/خواجہ ناظم الدین۔۔۔۔۔داؤد ظفر ندیم/قسط7۔دوسرا،آخری حصہ

آپ نے امریکہ اور مغرب کے ساتھ قریبی تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کی اس کی وجہ جموریت اور سیاسی نظام کی ہم آہنگی تھی انہوں نے ایران میں ڈاکٹر مصدق اور مصر کو نہر سویز میں کسی قسم کی حمایت دینے سے انکار کیا آپ عالم اسلام کے کسی اتحاد کا تصور نہیں رکھتے تھے بلکہ سیاسی اور جموری نظام کی بنیاد پر ممالک سے دوستی کے حامی تھے آپ کے عہد میں مسئلہ کشمیر پر نہایت سنجیدہ سفارتی کوششیں کی گئیں۔
جہاں تک ان کے دور میں پاکستان میں گندم کے بحران کا تعلق ہے تو یہ بات سامنے آچکی ہے کہ یہ بحران سازش کے تحت پیدا کیا   گیا تھا،ایک تو خواجہ صاحب کو صورتحال کا علم نہیں ہونے دیا اور دوسری طرف پنجاب اور سندھ کے وزرائے اعلی نے سندھ اور بہاولپور کے بارڈر سے گندم کی سمگلنگ کا نوٹس نہیں لیا ۔ پنجاب میں دولتانہ اور سندھ میں محمد ایوب کھوڑو صاحب پر الزام تھا کہ انہوں نے مرکزی حکومت کی مخالفت میں سماج دشمن عناصر کی پشت پناہی کی۔ لاہور میں آٹا ڈے منایا گیا۔ اور جن کو ناظم ملت کہا جاتا تھا مخالف قائد قلت کہنے لگے۔ اس وقت امریکہ سے ڈیڑھ کروڑ ڈالر کا قرض لینے کے لئے معاہدہ کیا جس کی گندم درآمد کرنی تھی لیکن گندم کی پہلی کھیپ محمد علی بوگرہ کے دور میں کراچی بندرگاہ پہنچی۔ دستور سازی کا مسئلہ یہ تھا کہ مقتدر حلقے قانون ساز مجلس میں مشرقی پاکستان کی سیاسی بالادستی برداشت نہیں کر رہے تھے وہ ایسا نظام چاہتے تھے جس میں مغربی پاکستان کے مخصوص سیاسی گروہوں کو بااختیار پوزیشن حاصل ہو اس لئے وہ برابر نمائندگی   حاصل کرنا چاہتے تھے خواجہ ناظم الدین کے دور میں پاکستان کے پانچ صوبوں کی بنیاد پر کئی تجاویز پیش کی گئیں مگر وہ تجاویز مقتدر حلقوں کی آشیر باد سے مغربی پاکستان کی مخصوص سیاسی قوتوں نے مسترد کر دیں جس کی وجہ سے آئین نہ بن سکا۔

آپ کے دور میں مشرقی پاکستان میں بنگالی کو قومی زبان بنانے پر طلبا کے خلاف کاروائی کی گئی فروری 1952ء میں لاٹھی چارج آنسو گیس اور فائرنگ کے واقعات ہوئے۔ اور لوگ مارے گئے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں ہڑتال کی گئی اور انتظامیہ نے یونیورسٹی کو بند کر دیا۔ طلبہ نے اپنے حقوق کے حصول کے لے جدوجہد کا آغاز کیا۔ ان پر بھی گولی چلی اور کئی طلباء اپنی جان سے گئے، مگر اس سلسلے میں خواجہ ناظم الدین کے کردار کو متنازعہ بنانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے مشرقی بنگال کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے وعدہ کیا تھا کہ بنگالی زبان کو بھی پاکستان کی سرکاری زبان ہونے کی حیثیت دلوائی جائے گی۔

” اس مسئلے پر خواجہ ناظم الدین نے قائد اعظم کی نا  صرف اعلانیہ مخالفت کی تھی جب قائداعظم نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے کانووکیشن کے بعد ریس کورس گراؤنڈ کے جلسہء عام میں اردو کے سرکاری زبان ہونے کا اعلان کیا تھا۔ بلکہ بعد میں قائد اعظم کو قائل کیا تھا جس کی وجہ سے اس کے بعد خود قائد اعظم نے بھی کبھی اس مسئلے پر اظہار خیال نہیں کیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین صرف یہ چاہتے تھے کہ بنگالی کو قومی زبان بنانے کا فیصلہ مغربی پاکستان کے سیاست دانوں اور سیاسی گروہوں کو اعتماد میں لے کر کیا جائے اس لئے انہوں نے بنگالیوں کو سمجھانے کی کوشش کی مگر پرسرار ہاتھوں نے بنگالی طلبا کو سخت اشتعال دلا دیا تھا ۔محلاتی سازش کرنے والوں کی مرضی تھی کہ بنگال میں آپ کی حمایت کو ختم کیا جائے ۔
ان کے دور میں کراچی میں طلباء نے فیسوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کیا تو پولیس کی جانب سے احتجاجی طلباء پر گولی چلائی گئی۔ “

معروف صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن حسین نقی کے مطابق:

“1952ءکے اواخر اور 1953ء کے شروع ہوتے ہی  طلبہ نے اپنے گوناگوں مسائل کے حل کے لیے مظاہرے کیے جس کی قیادت ڈی ایس ایف گرلز اسٹوڈنٹس کانگریس اور انٹر کالجٹ باڈی کر رہی تھیں۔ اس کا نقطہء عروج 8جنوری 1953ء کی صبح تھی جب کراچی کی انتظامیہ نے طالب علموں کے جلوس پر کئی بار فائرنگ کر کے کم از کم ایک درجن طالب علموں اور شہریوں کو ہلاک اور کافی تعداد میں افراد کو زخمی کر دیا۔
” اس میں یاد رکھنے والی بات یہ ہے خواجہ ناظم الدین کے دور میں نواب گورمانی وزیر داخلہ تھے۔ جن کے کردار کو نواب زادہ لیاقت علی خاں کے قتل کے سلسلے میں بھی مشکوک سمجھا جاتا ہے اور ان کے گورنر جنرل کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات تھے۔ حکومت نے انتظامیہ کی فائرنگ سے لاتعلقی اور طالب علموں کے مطالبات کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ اگرچہ یہ اس حادثہ سے پہلے بھی ممکن تھا، مگر پھر بھی برطانوی دورِ اقتدار کی انتظامیہ جس کی گرفت پاکستان پر اس وقت تک کافی مضبوط ہو چکی تھی، اس مسئلے کو امن و امان اور قانون کی خلاف ورزی کے تناظر میں ہی سمجھنا اور حل کرنا چاہتی تھی۔

اس معاملے میں خواجہ ناظم الدین کو اتنا بے بس کردیا گیا تھا کہ وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی کچھ نہ کرسکے۔

خواجہ ناظم الدین کی خوش خوراکی کے چرچے قیامِ پاکستان سے قبل بھی عام تھے، اور اس کے بعد بھی رہے لیکن عمومی طور پر اس بات کو ان کے خلاف پروپیگنڈہ سمجھا جاتا ہے ۔
نعیم احمد ، محمد ادریس اور عبدالستار کی مرتبہ کتاب ’’پاکستان کے پہلے وزرائے اعظم‘‘ میں خواجہ ناظم الدین کی خوراک کے حوالے سے رقم طراز ہیں کہ وہ بسیار خور نہ تھے لیکن کتاب میں ان کے کھانے کی جو فہرست فراہم کی گئی ہے اس کا فیصلہ آپ خود کرسکتے ہیں۔مرتبین کے مطابق:
آپ کے متعلق عوام میں عام طور پر یہ مشہور کیا گیا کہ خواجہ صاحب پیٹو قسم کے انسان ہیں اور بہت کھاتے ہیں لیکن وزیراعظم کی حیثیت میں انھیں زیادہ کھانے والا انسان نہیں پایا گیا۔ کھانے میں جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے اگرچہ کئی اشیاء یعنی مچھلی، گوشت، چاول، دال ضرور ہوتی تھیں لیکن خواجہ صاحب کی خوراک زیادہ نہیں تھی۔
مرتبین اس حوالے سے مزید لکھتے ہیں:
لنچ پر اکثر گوشت کے دو قسم کے سالن ہوتے تھے اس کے علاوہ مسور کی پتلی دال اور ابلے ہوئے موٹے چاول بھی دوپہر کے کھانے کی میز پر ضرور ہوتے تھے۔ مسور کی دال اور چاول خواجہ صاحب کی نہایت ہی مرغوب غذا تھی۔ مچھلی بھی پسند فرماتے تھے۔ سالن میں سرسوں کے تیل کا زیادہ استعمال ہوتا تھا۔ آپ کے اگرچہ تمام دانت نقلی تھے لیکن کمال یہ تھا کہ آپ ان دانتوں سے ہڈی بھی چبالیتے تھے۔ دوپہر اور شام کے کھانوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں تھا۔ مچھلی، چاول، دال، مرغی دونوں کھانوں میں ضرور شامل ہوتے تھے۔ علاوہ ازین آپ کو چنے کی دال اور گوشت کا سالن بھی بہت پسند تھا۔ آپ کبھی کبھی سوڈا واٹر کا استعمال بھی کرتے تھے۔ کبھی کبھار انگریزی کھانے بھی کھالیتے تھے۔ اس کے علاوہ پالک کا ساگ، فرانس بین، مٹر اور آلو جیسی سبزیاں بہت پسند تھیں۔
وہ تنہائی میں کھانا پسند نہیں فرماتے تھے، ہمیشہ کھانے کی میز پر ان کا پورا گھرانہ اور وہ مہمان جو اکثر ڈھاکہ سے آئے ہوتے تھے۔ علاوہ ازیں ان کی کوشش یہ ہوتی تھیں کہ دوسروں کو کھلائیں۔ وہ بذات خود کھانے کی پلیٹیں اٹھا اٹھا کر مہمانوں کے پاس لے جاتے اور اصرار کرتے کہ اور کھاؤ۔

مشہور ہے کہ آپ کو مرغیاں پالنے کا بہت شوق تھا۔ یہ بات کافی حد تک ٹھیک ہے۔ آپ نے ایک بار ایک مرغ انگلینڈ سے منگوایا۔ جس فلائٹ میں وہ مرغ آرہا تھا آپ اس کا بڑی بے چینی سے انتظار کر رہے تھے۔ جب فلائٹ کے آنے کی تصدیق ہوگئی توآپ بذات خود ڈاکٹر نور الاسلام کو ساتھ لے کر ہوائی اڈے پہنچ گئے اور مرغ کو اپنے ہمراہ لے کر آئے۔ ایک اندازے کے مطابق آپ کے پاس تقریباً نہایت اچھی قسم کی چار سو کے قریب مرغیاں ہوں گی۔ مرغی خانے کی دیکھ بھال کے لیے باقاعدہ ایک آدمی مقرر کیا ہوا تھا۔ اس سے اکثر مرغیوں کی صحت اور خوراک وغیرہ کے بارے میں تبادلہ خیال کرتے رہتے تھے جب بھی مرغی کا کوئی انڈا ڈربے میں پڑا دیکھتے تو اس کو اٹھا کر بہت خوش ہوتے تھے اور اس کے سائز کے بارے میں تبصرہ بھی کرتے تھے۔

پیر علی محمد راشدی اپنی کتاب’’ رودادِ چمن‘‘ کے صفحہ نمبر 52پر لکھتے ہیں:
میں جب سندھ کا ریونیو وزیر بنا تو وہ میرے پاس درخواست لے کر آئے کہ ان کو تھوڑا سا غیر آباد زمین کا ٹکرا سندھ میں دیا جائے، جہاں وہ مرغبانی کرکے فاقہ کشی سے بچنے کا بندوبست کرسکیں ۔ زمین تو میں نے دے دی مگر مرغی خانہ نہ بن سکا۔

آخرکار گورنر جنرل نے انہیں برطرف کردیا۔

خواجہ ناظم الدین کو جب وزارت عظمیٰ سے برطرف کیا گیا تو اس کا آنکھوں دیکھا حال نعیم احمد ، محمد ادریس اور عبدالستار کی مرتّبہ کتاب ’’پاکستان کے پہلے وزرائے اعظم ‘‘میں یوں بیان کیا گیا ہے:
جب غلام محمد نے آپ کو برطرف کیا اس دن آپ دورے پر جانے والے تھے۔ جب آپ کو برطرفی کا علم ہوا تو آپ نے بجائے کوئی سیاسی انتقامی کارروائی کے خاموشی سے سب کچھ برداشت کیا۔ اس زمانے میں عام طور پر یہ تاثر تھا کہ خواجہ صاحب سے دھوکہ کرنے والوں میں وہ لوگ شامل تھے جن پر آپ بھروسہ کرتے تھے یعنی چودھری محمد علی اور اسکندر مرزا، آپ نے اپنی برطرفی پر کوئی بیان تک نہ دیا۔آپ جب برطرفی کے بعد وزیراعظم ہاؤس سے رخصت ہونے لگے تو افسردہ نظر آرہے تھے اور آنسو آپ کی آنکھوں میں تیررہے تھے۔ البتہ آپ نے اتنا ضرور کہا کہ’’ یہ اچھا نہیں ہوا۔ یہ پاکستان پر ظلم کیا گیا ہے
خواجہ صاحب کی برطرفی کے حوالے سے ایوب خان اپنی کتاب ”فرینڈز ناٹ ماسٹرز“ جس کا اردو ترجمہ، اردو کے نام ور ادیب اور افسانہ نگار غلام عباس نے ”جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی” کے نام سے کیا ہے، کے صفحہ نمبر 84 پر لکھا ہے:
ایک بحران 1953 میں آیا جب گورنر جنرل غلام محمد نے اقتصادی بدحالی، قحط کی صورت اور پنجاب کے فسادات کو بہانہ بنا کر خواجہ ناظم الدین کی وزارت کو برطرف کر دیا۔ خواجہ صاحب نے اپنی بحالی کے لیے بہت ہاتھ پاؤں مارے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ دستور ساز مجلس میں مجھے اکثریت حاصل ہے اور بقول بعض کے ملکہء انگلستان سے بھی مدد کی التجاء کی مگر کچھ پیش نہ چلی۔ ادھر گورنر جنرل نے محمد علی بوگرا کو وزیر اعظم مقرر کردیا۔ خواجہ صاحب کی کابینہ کے متعدد ساتھیوں نے حرص و ہوس میں آکر نہ سہی مگر بغیر چوں و چراں نئی کابینہ میں عہدے قبول کر لیے۔”

پیر علی محمد راشدی اپنی کتاب ”رودادِ چمن“ کے صفحہ نمبر 52 پر لکھتے ہیں

“اس کو ایسے وقت خلافِ قانون اور خلافِ شرافت پرائم منسٹری سے ڈسمس کیا گیا، جب وہ ہنوز مسلم لیگ پارٹی کے سربراہ تھے اور پارٹی کا مکمل اعتماد ان کو حاصل تھا۔ ڈسمس ہو جانے کے بعد اس معصوم انسان کے پاس نہ رہنے کا گھر اور نہ معاش کا کوئی ذریعہ رہا۔ عارضی طور پر کراچی کے ایک مخیر شخص نے ان کی خستہ حالی پر رحم کھا کر ان کو سر چھپانے کے لیے ایک چھوٹا سا مکان کرائے پر لے کر دے دیا۔
لیکن اقتدار سے محروم ہونے کے بعد انہوں نے اپنی زندگی انتہائی کسمپرسی میں گزاری۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مجبوراً دربدرخاک بسر وہ اپنا یہ حال لے کر ڈھاکہ پہنچے اور وہاں پاکستان کے دوست یا دشمن قائداعظم کے اس قریبی ساتھی کا یہ حشر دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے۔ یہ متحدہ پاکستان کی تاریخ کا ایک دکھ بھرا لمحہ تھا کہ بنگال سے متحدہ پاکستان کے سب سے بڑے حمایتی کو، جس کو پاکستان کے بانیوں میں ہونے کی وجہ سے بھی عزت ملنی چاہیے  تھی مغربی پاکستان سے اس طرح ذلیل کرکے نکالا گیا
یہ کہنا کہ آپ بالکل گوشہ نشین ہوگئے غلط ہے آپ پاکستان میں جمہوریت کے سچے حمایتیوں میں سے تھے صدر ایوب خان نے اپنی کنونشن مسلم لیگ کی صدارت کی پیشکش کی مگر آپ نے کسی خلاف جمہوریت کام کے لئے حامی نہیں بھری۔ آپ نے مادر ملت کے ارشاد کی تکمیل کی اور کونسل مسلم لیگ کو ازسرنو منظم کرنے 16 دسمبر 1962ءکو لاہور تشریف لائے تو زندہ دلان لاہور نے فقیدالمثال استقبال کیا۔ 1964ءمادر ملت کے صدارتی انتخاب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اور مادر ملت کے ہمراہ مشرقی اور مغربی پاکستان کا اتخابی دورہ بھی کیا۔ آپ کی زندگی کا مقصد پاکستان کے آئین کی بحالی، پارلیمنٹری نظام حکومت کی بحالی اور پاکستان میں جمہوریت کی بحالی تھا مگر آپ اپنی زندگی میں ایسا ہوتا نہیں دیکھ سکے۔ مادر ملت کی صدارتی مہم کے دوران 22 اکتوبر 1964ءڈھاکہ میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔ آپ کے ساتھ شیر بنگال اور سید حسین شہید سہروردی بھی مدفون ہیں۔ گویا یہ متحدہ پاکستان کے حامیوں کی سب سے بڑی دفن گاہ تھی۔
یہ پاکستان سے محبت کرنے والے ایماندار اور تجربہ کار سیاست دان کی کہانی ہے جسے جمہوریت سے محبت جیسے جرم کی وجہ سے باعث عبرت بنا دیا گیا!

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
برداشت اور محبت میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply