بابربہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔۔۔۔۔ امتیاز خان

خبر ہے کہ ہزاروں لوگ پاکستان کی شہریت سے محروم کردیےگئے ہیں۔اب ان کے شناختی کارڈ معطل ہیں۔پاسپورٹ ردی ہوچکے-بینک اکائونٹ منجمد ہیں اور ان میں پڑے ہوئے پیسے ریت۔
جائیدادیں بلاملکیت ہو چکی ہیں اور خون مباح۔کوئی قبضہ کرلے تو بیچارے کیس نہیں کرسکیں گے اور مار ڈالے تو ایف آئی آر نہیں کٹے گی۔اخبار میں خبر لگی تو اس مضمون کی ہوگی”نامعلوم افراد کے ہاتھوں نامعلوم فرد کا قتل”انکے بچوں کے تعلیمی اداروں میں داخلے نہیں ہوسکیں گے۔ ملازمت نہیں مل سکے گی اور کہیں بھی ڈاکومنٹس کی تصدیق نہ ہوپائے گی کیونکہ سربراہ “نامعلوم” ہوچکا ہے۔اور جن بچوں کے ابھی تک شناختی کارڈ بنے نہیں تھے اب کبھی بن ہی نہیں پائیں گے۔کتنی نااہل تھیں ہماری عدالتیں جو آج تک ان “مجرموں” کو سزا نہیں دے پائی تھیں۔کتنا ناقص تھا ہمارا آئین جو انکے لئے جزا کا تعین کرنے میں ناکام تھا۔
جس نابغہ نے بھی یہ تجویز دی اور جس جینئس نے اسے منظور کیا دونوں کیلئے “نوبیل” تو بنتا ہے بھلے سے آدھا آدھا توڑ کرہی دے دیا جائے۔
فیس بک پر احتجاج جاری ہے۔کئی لکھاریوں نے بڑی دردناک تحریریں اور المناک افسانے لکھے ہیں لیکن یہ سب صرف تصویر کا ایک رخ دیکھ کر روپیٹ رہے ہیں۔تصویر کا دوسرا رخ دیکھیئے تو آپکا دل ان خوش نصیبوں کو مبارکباد دینے کو چاہے گا جن پر یہ نوازش ہوگئی۔۔یہ لوگ اب کھلے دل سے کسی بھی ملک کی ایجنٹی قبول کرسکتے ہیں کیونکہ وہ پاکستان کے شہری نہیں رہے۔امریکا سے نوٹ لیں،انڈیا سے مال بنائیں، سعودیہ کے گن گائیں ترکی کے ترانے پڑھیں یا ایران کی چاکری کریں۔پہلے کرتے تھے تو حرام کرتے تھے اب بالکل حلال جان کر کریں۔اب انکا کسی بھی علیحدگی پسند تحریک کا حصہ بن جانا بالکل جائز عمل تصور ہوگا۔وہ اب پاکستانیوں کو دشمن ملک کا شہری تصور کرکے لوٹ بھی سکتے ہیں اور مار بھی۔۔وہ جھنڈے کا جانگیہ بنانا چاہیں تو ان پر کوئی قدغن نہیں کیونکہ یہ اب انکے ملک کا جھنڈا نہیں۔وہ آئین وقانون کے پابند نہیں رہے اسلئے مرضی سے اشارے توڑیں سر پھوڑیں اوور سپیڈنگ کا لطف اٹھائیں اور ون ویلنگ کا آنند لیں۔وہ پہلی بیوی کی رضامندی کے بغیر دوسری شادی کریں بلکہ تیسری اور چوتھی بھی کرلیں اب کون سے عائلی قوانین؟۔۔
اب وہ “پاکستان مردہ باد” پکاریں پاکستان کو ناسور کہیں یا دہشت گردی کی نرسری، انکی حب الوطنی پر سوال نہیں اٹھ سکتا کیونکہ یہ اب انکا وطن نہیں رہا۔اگر وہ اب تک یہ سب نہیں کررہے تو انکی مرضی ہے۔قدرت ایسے مواقع اور ایسے مواقع فراہم کرنے والے حکمران بار بار عطاء نہیں کرتی

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply