• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • یہ کام خدا کے کاموں میں مداخلت نہیں ہے۔۔۔۔اسد مفتی

یہ کام خدا کے کاموں میں مداخلت نہیں ہے۔۔۔۔اسد مفتی

ہالینڈ کے ایک ممتاز سائنسدان ہنس لونت نے کہا ہے کہ بنی نوح انسان کی اصلاح کیلئے ضروری ہےکہ اب اس ’’علم‘‘ کا ازسرنو جائزہ لیا جائے۔ ’’انسانی نوع کی اصلاح کا علم‘‘ کا مطلب ہے کہ جین (JENE)کے استعمال سے نسل انسانی کو بہتر بنایا جائے۔ سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس علم سے فائدہ اٹھا کر بہتر سے بہتر انسانی تخلیق کرنے میں کوئی ہرج نہیں اور مستقبل میں لوگ ایسا کرنا چاہیں گے۔ اکیسویں صدی میں اس خیال کو گزشتہ صدی سے زیادہ قبولیت عام حاصل ہوئی ہے کہ جینیات کے ذریعے انسانی نسل کو بہتر بنایا جاسکتا ہے اور یہ کوئی پیچیدہ معاملہ یا خدا کے کاموں میں مداخلت نہیں تاہم 1930کی دہائی میں ’’نسل انسانی کی اصلاح‘‘ کا آئیڈیا کچھ زیادہ کامیاب نہ ہو سکا اور اس کا ذمہ دار نازی جرمنی کو ٹھہرایا گیا۔ ہٹلر اور اس کی نازی پارٹی نے یہ اعلان کر دیا کہ وہ اس علم کے ذریعے ایک اعلیٰ ترین انسانی نسل پیدا کرے گی اور انہیں اپنے ’’مقاصد‘‘ کیلئے استعمال کریں گے مگر آج برطانیہ کے نفسیات کے پروفیسر رچرڈلن نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ نسل انسانی کی اصلاح کے نظرئیے کو پھر سے دیکھنے اور ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے اس نے کہا ہےکہ طبیعاتی ٹیکنالوجی میں آج بھی بے حد ترقیاتی ہو چکی ہے اور بچے کی پیدائش سے قبل کسی بھی خرابی کی تشخیص اور اس کا مکمل علاج اس بات کی علامت ہے کہ انسانی اصلاح کے علم سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ رچرڈلن کا کہنا ہے کہ مذکورہ علم کی ٹیکنالوجی ضرور مقبول ہوگی کہ یہ نہ صرف انسانی ضروریات کو پورا کرتی ہے بلکہ والدین کیلئے بھی اطمینان بخش ہے۔ والدین کے اطمینان، خوشی اور تسلی سے اولاد کی پرورش اور نشوونما پر بھی مثبت اثر پڑے گا اور نصف سےزیادہ بیماریوں یا خامیوں کا پیدائش سے قبل ہی سدباب کر لیا جائے گا کہ کوئی بھی والدین یہ نہیں چاہتے کہ ان کی ہونے والی اولاد امراض کا شکار ہو اب یقیناً مستقبل میں ان کی یہ خواہش حرف بہ حرف پوری ہو جائے گی۔ والدین یہ بھی چاہیں گے کہ ان کے بچے نہ صرف صحت مند اور ذہین و فطین ہوں بلکہ جسمانی طور پر مضبوط اور طاقتور بھی ہوں لہٰذا یہ علم ان کی تمام خواہشات بخوبی پوری کرسکتا ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر رچرڈ کا خیال ہے کہ اگر آپ کسی فرد کی جیناتی وضع میں تبدیلی لاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہےکہ آپ اس کی ہیت ترکیب بدل رہے ہیں اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کا غلط استعمال ہوگا۔ دراصل وہ مایوسی کا شکار ہیں۔ روز بروز ترقی کرتی ہوئی ٹیکنالوجی کو دیکھا جائے تو مایوسی کیلئے انسانی زندگی میں کوئی جگہ یا مقام نہیں ہے کہ اب تو درازی عمر کا سبب بھی دریافت کر لیا گیا ہے۔ امریکی سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے جین کے ایک ایسے گروپ کا پتہ لگا لیا ہے جو کہ طویل عمر کا سبب ہے۔ نیشنل اکیڈیمی آف سائنس کے مجلہ کے تازہ شمارے میں اس کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ میگزین لکھتا ہے کہ درازی عمر کا سبب وہ چند جین ہیں جو کہ کروموم کے اردگرد ہوتے ہیں ان کی تعداد چار یا صرف ایک ہو سکتی ہے جبکہ پہلے سمجھا جاتا تھاکہ یہ سینکڑوں کی تعداد میں ہو سکتے ہیں۔ ماہرین کو امید ہےکہ انسانی خلیوں کےضعیف ہونے کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہونے کے بعد ایسی دوائیں ایجاد ہوسکتی ہیں جو وہی کام کرسکتی ہیں جو درازی عمر کا سبب بننے والی جین کرتی ہے۔ امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کے سائنس دانوں نے ایسے 137بھائیوں اور بہنوں کے خلیوں کا تقابلی مطالعہ کیا ہے جنہوں نے غیرمعمولی طور پر طویل عمر پائی تھی ان میں سے (ہر معامے میں) بھائیوں اور بہنوں میں سے ایک ایک نے 98یا اس سے زیادہ سال عمر پائی تھی ان میں سے بھائی کی عمر کم از کم 93اور بہن کی عمر کم از کم 97سال تھی۔ درازی عمر کے ساتھ ساتھ کلون شدہ انسانی جنس کی تیاری بھی زوروں پر ہے۔ سائنس دانوں کے خیال کے مطابق 2020کے آخر یا 2021کے آغاز میںکلون شدہ انسان تیار کر لیا جائے گا۔کلون شدہ انسان یا دیگر سائنسی ایجادات انسانی ذہن کے طاقتور ہونے کی دلیل ہیں اور ظاہر ہے کہ انسانی ذہن خدا نے تخلیق کیا ہے اور اُس کی تخلیق کردہ کوئی بھی چیز بے ضرورت نہیں ہو سکتی۔ دنیا میں وہی اقوام طاقتور اور باشعور کہلاتی ہیںجو اپنے ذہن کا صحیح استعمال کرنا جانتی ہیں۔ کلوننگ یا مشابہہ بنانا، خصوصاً انسان کی کلوننگ مستحدث(نئے) مسائل میں سے ہے۔ اسی لئے اس کا حکم آیات اور روایات میں بیان نہیں ہوا ہے لیکن کچھ علماء اور فقہاء نے آیات اور روایات میں اجتہاد کے طریقے سے اس مسئلہ کے بارے میں اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے۔ واضح رہے یا یاد رہے کہ اس سے پیشتر اٹلی کے ایک سائنسدان نے گزشتہ سال جنوری میں اعلان کیا تھا کہ وہ بھی اس منصوبے پر کام کررہا ہے مگر اس کے اس منصوبے پر دنیا میں اچھی رائے قائم نہیں کی گئی تھی لیکن جیسا کہ میں نے اوپر کہا ہےکہ روز بروز ترقی کرتی ہوئی ٹیکنالوجی کو دیکھتے ہوئے انسان ہاتھ پر ہاتھ دھر کر تو نہیں بیٹھ سکتا۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ 1425میں کیمرج یونیورسٹی کی لائبریری میں کل 122کتابیں تھیں جبکہ آج یہاں ایمسٹرڈیم میں میری ذاتی لائبریری میں 1836کتابیں ہیں

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply