بے گھر لڑکی ۔۔۔۔رخشندہ بتول

جیسے ہی میری گاڑی گاؤں کے کچے راستے پر پہنچی تو ڈھلتا ہوا سورج بالکل گلاب جیسا تھا۔ بس ایک خوشبو تھی جس نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا۔ میرے ماتھے کی سلوٹیں اور ساری تھکن کہیں پکی سڑک تک ہی رہ گئی۔ میں سوچنے لگی کہ میرا گاؤں کتنا پرسکون ہے۔۔ اس کا مقابلہ تو کوئی جزیرہ کوئی ہِل سٹیشن نہیں کر سکتا۔ پھر یہ کیسے ہوگیا؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس گاؤں کو چھوڑنے کی مجھے اس قدر جلدی تھی۔۔ ہم لوگ اتنے بے وقوف کیسے ہوجاتے ہیں؟ اتنا گھاٹے کا سودا کیسے کرلیتے ہیں؟ یہ شہر ۔۔۔۔ یہاں دن رات ایک ان دیکھی جنگ لڑنے کے بعد بھی ہماری کیا پہچان ہے آخر؟

کتنے عام ہیں ہم لوگ یہاں۔ گاؤں داخل ہوتے ہی مجھے یوں لگا جیسے میں کسی قبیلے کی رانی ہوں جسے تمام درخت بھی سلامی دے رہے ہوں۔ اور وہاں کے لوگ۔۔۔ میرے اپنے لوگ ۔۔۔۔ ان کے چہرے اس مخصوص تراش خراش، بناوٹ سے پاک تھے۔۔۔ وہ اس مخصوص اجنبیت سے بھی پاک تھے۔۔ ان کی آنکھوں میں بس محبت تھی دعائیں تھیں۔۔

یہ شہر کسی کے نہیں ہوتے کبھی بھی نہیں۔ یہ چمکتی ہوئی سڑک کی مانند ہیں جس پہ آپ تھوڑی دیر چلنے پھرنے کی غرض سے نکلو لیکن رنگارنگ سڑک پہ اس قدر تماشے ہوں کہ پیچھے مڑ کر کوئی نہ دیکھے۔ بس چلتا جائے چلتا جائے۔۔۔ اور جب سانس پھول جائے پاؤں شل ہو جائیں تو آپ اپنے بالوں کی سفیدی اور چہرے کی جھریوں سے گھبرا جائیں۔ اس جادونگری میں اتنا عرصہ اتنا تیز بھاگنے کے بعد کیا ملا اپنی ذات بھی کھو گئی۔ وہاں کسی کو کہیں جانے کی کوئی جلدی نہیں تھی، ایک ناختم ہونے والا سکون تھا بس۔ اور واپسی پر میری حالت ایسی تھی جیسے آدم کی جنت سے نکالے جانے کے بعد ہوئی ہوگی۔ میں نے آدم کے دکھ کو محسوس کیا۔ مگر اس سکون کے باوجود میں وہاں سے بھاگ آئی مجھے بھاگنے کی جلدی تھی۔

کیونکہ ایک خوف تھا جو اس سکون پہ حاوی تھا۔ مجھے ڈر تھا کہ ان سب رشتوں سے ملتے ہوئے اپنی حویلی کے درودیوار کو محسوس کرتے ہوئے میری ملاقات کہیں اس لڑکی سے نہ ہو جائے جو بہت عرصہ پہلے اسی حویلی میں یہاں سے نکلنے کی، شہر چلے جانے کی دعائیں مانگتی تھی۔ جسے رات کو اپنے گھر کے آنگن میں تاروں سے بھرے ہوئے آسمان میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔جسے بارش سے مہکنے والی مٹی کی انمول خوشبو سے زیادہ صحن میں کیچڑ سے پھیلنے والے گند کی پرواہ تھی۔ جسے جب بھی برتن دھونے پڑتے تو اپنے ناخنوں کے میلا ہونے کا افسوس رہتا۔ سوچتی ہوں ترقی کی کتنی بڑی قیمت ادا کی ہے میں نے۔ اب اگر میں اس لڑکی سے ملتی تو کیا وہ مجھے پہچان پاتی۔ شاید نہیں۔۔۔ ہم دونوں اپنے وجود میں ایک دوسرے کے حصے سے انکاری ہوتے۔ اسی لیے میں جلد وہاں سے بھاگ آئی۔ میرے چمکتے ناخنوں اور قیمتی لباس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ میں اس لڑکی کا سامنا کر پاتی۔

وہ ہنستی مجھ پر، میرے بدلے ہوئے بھیس پر۔۔۔ میری میک اپ میں چھپی ہوئی آنکھوں کی اداسی پر۔۔۔ اس کے قہقہے میری ذات کو ریزہ ریزہ کر دیتے۔ اسی لئے میں بھاگ آئی۔۔”

“نجانے کیوں میری انکھیں نم ہیں؟ “عجیب کشمکش میں ہوں۔ نہ اُدھر کی رہی ہوں نہ  اِدھر کی ہو پائی ہوں۔ وہاں سے بھاگ آئی ہوں مگر یہاں سے بھی بھاگ جانا چاہتی ہوں ”

“کہاں؟”

Advertisements
julia rana solicitors

“معلوم نہیں ۔۔۔۔”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply