شعورِ سیاست ۔۔۔۔۔ محمود شفیع بھٹی

عمران خان کے رائیونڈ جلسے کے بعد پاکستان کی سیاست میں کئی موڑ آرہے ہیں۔ایک دوسرے کو بچانے،ایک دوسرے کی کرپشن کی پہرہ داری کرنے کے لیے اقدامات جاری ہیں۔مجھے آج ڈاکٹر شاہد مسعود کی وہ بات یاد آرہی ہے کہ انہوں نے کہا تھا کہ”پاکستانی سیاست سے اگر عمران خان کو نکال دیا جائے تو باقی مک مکا رہ جاتا ہے”۔ انکا یہ کہنا آج کے سیاسی منظر نامے کی عکاسی کر رہا ہے۔عمران کی کرپشن کے خلاف مہم نے زور کیا پکڑا اس ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کو خود زور پڑ گیا۔آج نواز شریف سے لیکر اسفند یار ولی تک اور سابق صدرزرداری سے لیکر  الطاف حسین تک سب ایک پیج پر ہیں کہ کسی طرح اس سونے کے انڈے دینے والی مرغی جمہوریت کو  دونمبر ہی رکھا جائے اور عمران خان کاراستہ روکا جائے۔
بلاول کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مہمانوں کی گیلری میں بیٹھنا اور پھر مختلف سیاسی قائدین سےرابطے کرنا دراصل یہ عمران کے اسلام آباد جلسے کو روکنا ہے۔بلاول کی پریس کانفرنس کیا مضحکہ خیز ہے کہ اگلے الیکشن میں نواز شریف جیل میں اور پی پی کا جیالہ وزیراعظم ہاؤس میں ہو گا۔اب بلاول سے کوئی پوچھے کہ آپ کو اتنا اندھا یقین مستحکم کس نے دلایا۔عوام کے نزدیک آپکی سیاست اور کرپشن میں کوئی فرق نہیں۔آپ نوازشریف کے احتساب کی بات کرتے ہیںپہلے آپ اپنے والد محترم کا احتساب تو کراؤ۔ڈاکٹر عاصم آپکی جماعت کا ہی ہے،شرجیل میمن بھی پیپلز پارٹی کا ہے۔آپ اپنے لیڈران سے احتساب کا عمل شروع کرو جس طرح عمران خان نے اپنے صوبائی وزیر کو کرپشن کی بناء پر گرفتار کروا دیا تھا۔
دوسری بات محترم بلاول صاحب کبھی غدار وطن انکل نہیں ہوتے،کبھی کرپٹ عناصر رشتہ دار نہیں ہوتے اور نہ ہی سیاسی اتحادی آپ پر دست شفقت رکھتے۔آپکا الطاف کو انکل کہنا،آپکا مولوی فضل الرحمن کو کہنا اور آخر میں نواز شریف کو بھی کہنا ،کونسی سیاست کاتعین کرتاہے۔یہ تو محض آپکی منافقت اور عمران خان کی سیاسیپذیرائی سے وحشت ہے۔کہیں آپ اسلام آباد مارچ کے چکر میں تیسرا اتحاد بنانے کی تیاری میںتو نہیں؟۔ کہیں آپ اس آڑ میں ڈاکٹر عاصم کو کلین چٹ اور زرداری صاحب کی ضمانتی واپسی کا سودا کرہے ہیں۔ یا پھر آپ انکلز کے ساتھ ملکر عمران کو  سیاسی تنہا کرنے کی پالیسی پرا عمل پیرا ہیں؟ لیکن آپ کو یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ پاکستان کے عوام اتنے بھولے نہیں کہ آپکے ظلم بھول جائیں۔
خان صاحب لیڈر وہی ہوتا ہے جس کے بارے میں چوکوں ،چوراہوں،ہوٹلوں اور حماموں پر بحث ہو اور آجکل آپکی ذات،آپکی خوبیوں اور خامیوں پر کافی بحث ہورہی ہے۔آپ نے تن تنہا جو کرپشن کے خلاف جنگ لڑنے کی تیاری کی ہے اس میں ضرور کامیاب ہوںگے۔لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ تیسری قوت کی مداخلت چاہتے ہو۔میرے نزدیک تیسری قوت عوام ہیں اور کوئی نہیں۔عمران کی سیاسی جدو جہد اب ایک تحریک میں ڈھل چکی ہے جس کے دیرپا اثرات ہوں گے۔ آج عمران کے ورکرز اسکی موجودہ سیاسی پوزیشن اور سٹینڈ سے خوش ہیں اور کافی جوش و جذبہ بھی ہے۔
عمران خان نے ۲۰۱۱ کے جلسہء لاہور کے بعد جو شہرت حاصل کی اور درمیان میں پارٹی کا گراف نیچے بھی گیا تھا لیکن رائیونڈ کے جلسے کے بعد عمران کی سیاسی پوزیشن اور شہرت بحال ہوچکی ہے اور ایک بار پھر عوام میں جوش ہے۔میرے خیال سے عمران حکومت کے خاتمے کی بجائے اگلے الیکشن کی تیاری میں ہیں اور اسکے نزدیک جتنا ممکن ہو عوام سے رابطہ ر ہے اور حالیہ جلسے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔
حکومت وقت کا اس وقت جو فوج کے ساتھ تناؤ ہے شائد اس بار حکومت نہ بچ پائے،کل رات جس طرح خورشید شاہ نے شہدا ریلی میں تقریر کی اس سے پیپلزپارٹی کی اعلی قیادت کی بوکھلاہٹ کھل کر سامنے آتی ہے۔شائد بلاول انکی امیدوں پر پورا نہیں اتر رہا یا پھر عوام انکو بھاؤ نہیں دے رہے۔سندھ میں پنجاب سے زیادہ جاگیرداروں کا اثر ہے جسکا نتیجہ ہم کل والی ریلی سے دیکھ رہے تھے۔لیکن پی پی اور اسکی اتحادی جماعتیں جتنا مرضی زور لگا لیں، عوام  انکو کبھی بھی پذیرائی نہیں دے گی۔کیونکہ عوام اب بخوبی انکو جان چکے ہیں۔اس وقت اس ملک پاکستان پر بائیس سو ارب سے زائد کے قرضہ جات ہیں  اور اوپر سے کرپشن عروج پر ہے۔ہر طرف کمیشن مافیا کاراج ہے،بے روزگاری عروج پر ہے ،پڑھا لکھا نوجوان اپنی ڈگریوں کو جلانے کا سوچ رہا ہے۔ان حالات میں موجودہ سیاسی اتحاد اس حکومت کی حفاظت نہیں کرپائیں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply