بدلتے وقت کی بدلتی سچائیاں۔۔۔نیّر نیاز خان

سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی اور اس کے نتیجے میں وجود میں آنے والے اوزاروں کی بدولت ہر لمحہ زندگی اور ارد گرد کے حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ خصوصی طور پر انٹرنیٹ کے پھیلاو کے ذریعے آپس میں جڑی ہوئی دنیا جسے گلوبل ویلج کہا جاتا ہے۔ اس گلوبل ویلج کے وجود میں آنے سے بہت ساری چیزیں جو ایک لمبے عرصے تک انسان کی روزمرہ معمولات کا حصہ تصور کی جاتی تھیں بڑی تیزی کے ساتھ ختم ہو گئیں اور ختم بھی ایسے ہوئیں کہ احساس زیاں بھی نہ ہوا۔ اور پچھلے بیس پچیس سال یعنی گلوبل ویلج کے دور میں پیدا ہونیوالی جنریشن کے لیے وہ روزمرہ استعمال کی اشیا شاید قرون وسطی کی نشانیاں ہوں گی۔ لیکن ترقی پذیر ممالک میں کتنی نسلیں گلوبلائزیشن سے پہلے ایک لمبے عرصے تک انہی سچائیوں کے ساتھ پلی بڑھیں۔ اور یہ سلسلہ 1995 میں انٹرنیٹ کے عالمی سطح پر متعارف ہونے کے بعد اطلاعات کی ترسیل کے خودکار نظام کے وجود میں آنے سے یکسر بدل گیا۔ نوے کی دہائی سے پہلے جنوبی ایشیا میں سکول جانیوالوں کے لیے پرائمری کلاسوں بلکہ سکول کے پہلے دن تختی۔ قلم اور دوات سے رشتہ استوار ہوتا تھا۔ سکول کا پہلا سال تو انہی تین چیزوں کے گرد گھومتا تھا۔ جو اگلے پانچ سال تک برقرار رہتا تھا۔ پھر دوسرے سال سلیٹ نامی ایک اور آلہ ہاتھ میں پکڑے بچے ریاضی دان بن جایا کرتے تھے۔ سلیٹ نامی بلیک بورڈ پر لکھنے کے لیے سلیٹی کی ضرورت ہوتی تھی۔ اور چھٹی کلاس میں تختی اور سلیٹ دونوں کی جگہ گلابی رنگ کے کاغذ والی رف کاپی لے لیتی تھی۔ جو اگلے پانچ سال تک ساتھ نبھاتی تھی۔ پہاڑے والا کتابچہ بھی آپ کو یاد ہو گا۔ اب گلوبل ویلج کے جنوبی ایشیا میں یہ چیزیں متروک ہو گئی ہیں اور ان کی جگہ عالمی سطح پر  کم و بیش ایک طرح کی چیزیں استعمال ہو رہی ہیں۔

ون بینڈ ریڈیو ستر کی دہائی تک الیکٹرانی آلات میں معلومات کی ترسیل کا بڑا ذریعہ ہوا کرتا تھا اور پھر تھری بینڈ ریڈیو نے پہلے والے کی جگہ لے لی۔ ستر کی دہائی کے اختتامی سالوں نے جنوبی ایشیا  کے لیے مشرق وسطی کے دروازے کھولے تو جاپانی ساخت کے بہتر ریڈیو اور کیسٹ پلئیرز نے بھی جنوبی ایشیا کا رخ کیا۔ گویا اسی کی دہائی میں مشرق وسطی میں مشقت کرنیوالے جنونی ایشیاوں کو ٹیکنالوجی کے استعمال میں ایڈوانس گھرانوں کا رتبہ حاصل تھا۔ لالٹین ایک طویل عرصے تک گھروں میں روشنی کا واحد ذریعہ ہوتی تھی۔ مشرق وسطی میں کام کرنے والوں نے اس کے متبادل کے طور پر منٹل فلامنٹ والے گیس لیمپ لائے اور نئی چکا چوند روشنی میں لالٹین کی لو مدہم پڑتے پڑتے غائب ہی ہو گئی۔ تانگے۔ فورڈ ویگن۔ اور فور بائی فور جیپیں بھی وقت کی سرعت کا مقابلہ نہ کر سکیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے مشرق وسطی کی اکانومی نے جنوبی ایشیا کے بیشتر گھروں میں بندھی بیلوں کی جوڑی اور کھیت میں چلنے والے ہل بھی غائب کر دئیے اور ٹریکٹر نے ان کی جگہ لے لی۔

چٹھی جو پردیسیوں کی اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ رابطے کا واحد ذریعہ ہوتی تھی۔ لینڈ لائن ٹیلی فون اور کمرشل پبلک کال آفس نے اس کی جگہ لے لی۔ وڈیو کیسٹ پلئیر کا سنگم رنگین ٹیلی ویژن کے ساتھ ہوا۔ چند سالوں میں وی سی ڈیز پھر ڈی وی ڈیز اور میموری کارڈ سے ہوتا ہوا زمانہ آج کلاوڈ کی دنیا میں داخل ہو گیا۔ 1997-98 میں ورلڈ وائیڈ ویب سے پہلے فیکس مشین نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈالا۔ جب مادی لفظ ہوا کے دوش پر تیرتے ہوئے ہزاروں میل کا سفر طے کرنے لگے۔ ورلڈ وائیڈ ویب نے دنیا کو جوڑا تو لینڈ لائن ٹیلی فون، پبلک کال آفس کے ساتھ ساتھ فیکس مشین بھی ماضی بن گئی۔ ای میلز کا دورانیہ بھی مختصر ثابت ہوا اور سوشل نیٹ ورکنگ نے ساری دنیا کو اپنے اندر سمو لیا۔ وائرلیس فون چند سالوں میں ہی سمارٹ ہو گئے تو اپنے سے چند سال قبل پیدا ہونے والے ڈیسک ٹاپ اور لیپ ٹاپ کمپیوٹرز کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ غرض ہماری دنیا آج مشرق و مغرب کی جغرافیائی اور معاشی تقسیم کے باوجود کسی مثلث کی تکون کی مانند سمارٹ فونز سے جڑی ہوئی ہے۔ سوشل نیٹ ورکنگ اَن دیکھی دنیا کو جاننے اور اَن دیکھے لوگوں کو دوست بنانے کا سب سے بڑا ذریعہ بن گیا۔ پھر کمال کی بات یہ ہے کہ رشتوں میں قربت کا تعین پوسٹ پر لائیک،کمنٹس اور شئیر سے ہونے لگا۔ ڈکشنریوں میں سیلفی،ٹویٹ، ہیش ٹیگ، ٹرینڈ، وائرل  اورسکائپ جیسے نئے الفاظ کا اضافہ کیے بغیر اس عہد کی سچائیاں گویا ادھوری سی لگتی ہیں۔

یہ سب کچھ سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کے باعث ممکن ہوا۔ لیکن پھر بھی ان اوزاروں کے بنانے سے لے کر پروگرامنگ اور آپریٹنگ تک انسانی دماغ ہی واحد اتھارٹی ہے جو اس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا منبع ہے۔ تو کیا یہ ممکن ہے کہ جس طرح آج وائرلیس سمارٹ فونز کو وائی فائی سے کنیکٹ کر کے ہم کسی بھی وائرلیس ڈیوائس سے ہزاروں میل کے فاصلے پر کمیونیکیٹ کر رہے ہیں۔ مستقبل قریب کا انسان اپنے دماغ کے پیچیدہ نظام اور خلیوں کا سمارٹ استعمال کرتے ہوئے بغیر کسی مشین اور ڈیوائس کے خودکار نظام کے ذریعے ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے کسی دوسرے انسان کے ساتھ ایک خاص فریکوینسی اور ویولنتھ پر براہ راست کمیونیکیٹ کر پائے گا؟

اگر کر پایا تو بہت ساری ٹیکنالوجیکل ڈیوائسز جو آج کے عہد کی سچائیاں ہیں ان کی موت ہو جائے گی۔ اس کے برعکس ایک اور خدشہ بھی موجود ہے کہ اگر آرٹیفیشل انٹیلیجنس ترقی کرتے ہوئے ہیومین انٹیلیجنس پر سبقت لیتے ہوئے خودکار نظام تک پہنچ گئی تو نئے عہد کی سچائی کا فیصلہ اور اس کا ظہور بہت مختلف ہو گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر ہم پچھلی چند دہائیوں میں قلم،تختی،دوات،سلیٹ، کیسٹ،ریڈیو، چٹھی۔۔ کی گمشدگیوں کا تصور کریں تو آنیوالے وقت کی سچائیاں ہماری آنکھوں کے سامنے پوری شکل و صورت لیے کھڑی ہیں۔ ہم تسلیم کریں یا نہ کریں۔ ارتقاء ایک مسلسل عمل ہے اور ہر عہد اپنی سچائیاں خود تخلیق کرتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ لوگ اس کا ادراک جلد کر کے اپنے عہد میں زندہ رہنے کا حق حاصل کر لیتے ہیں اور کچھ ان سچائیوں کو غلط ثابت کرنے میں توانائیاں ضائع کرتے ہوئے وقت اور عہد کی رفتار سے بچھڑ جاتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply