الجھی تانڑیں۔۔۔رانا اورنگزیب

عید سے پہلے رمضان میں جب میں بازار گیا تو دیکھا دو چھوٹے چھوٹے بچے جوکہ کاغذ سرکنڈے اور مٹی سے بنے کھلونے بیچ رہے تھے۔ان سے پوچھا بیٹا سکول کیوں نہیں جاتے؟
جواب ملا ہمارے پاپا فوت ہوگئے ہیں گھر میں امی یہ کھلونے بناتی ہیں ہم بیچتے ہیں کبھی کبھار کوئی  سستی سبزی گھر لے جاتے ہیں۔اب رمضان ہے عید کیلئے چھوٹے کے جوتے لینے ہیں میرے پاس تو یہ ہیں جو شیخ صاحب کے گھر سے کوڑے میں پھینکے گئے تھے۔آپ کو پتا شیخ صاحب سارے روزے مدینہ شریف میں رکھتے ہیں۔

چند دن قبل ایک سرکاری دفتر جانا ہوا۔ایک تیس بتیس سال کا نوجوان افسر جوکہ ائیرکنڈیشنڈ آفس  میں گھومنے والی کرسی پر بیٹھا اپنے موبائل سے ٹک ٹاک میں مگن تھا  جبکہ اسی کلومیٹر کا سفر کرکے ایک اسی سالہ بوڑھا جوکہ ریٹائرڈ ٹیچر تھا اپنی پینشن بک لے کے اپنے  زندہ ہونے کا ثبوت دینے اس  آفیسر کے آفس کے عین باہر کڑکتی دھوپ میں  ٹھیک گیارہ بجے سے ایک بجے تک کھڑا رہا۔پھر اس کو مژدہ سنایا گیا کہ بزرگو! ابھی بریک کا وقت ہوگیا آپ ڈھائی  بجے کے بعد تشریف لائیں۔یہ سن کے اس بوڑھے سکول ماسٹر کی شکل پر ڈھائی  بجتے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔

وزیراعظم سیٹیزن پورٹل میں ایک ایس ایچ او کے خلاف اختیارات کے غلط استعمال کی درخواست دی تو اسی ایس ایچ او کے ایس پی کے پاس ہمیں بھیج دیا گیا۔جس نے ہمیں گیارہ بجے بلا کے چار بجے تک بٹھانا اور پھر اگلی تاریخ دے  کر بھیجنا معمول بنا رکھا تھا۔آخر کار مجھے پورٹل میں میری درخواست نمٹائے جانے کی خوشخبری سنائی  گئی جس کے مطابق ایس ایچ او فرشتہ صفت اور درخواست گذار شیطان کا چیلا ثابت ہوا۔۔ہیں جی۔

ایک اے سی صاحب جن کی ڈیوٹی عام دنوں میں صبح نو بجے شروع ہوتی ہے وہ تین بجے تشریف لاتے ہیں ایک ڈیڑھ گھنٹہ  عوام کی تشریف لال کرکے پانچ بجے سے نکل جاتے ہیں۔
پنجاب کے کسی ایک تھانے  میں ایس ایچ اوز صاحبان دن کسی سائل کو میسر نہیں آتے۔عمومی طور  پر تھانہ انچارجوں کی آمد شام چار بجے شروع ہوتی ہے اور تھانے کے باہر ٹاوٹوں سفارشیوں اور مک مکا کرنے والوں کی بھیڑ بڑھتی جاتی ہے۔اور ایس ایچ او صاحب زبان حال سے فرماتے نظر آتے ہیں ؎
اب جس جیب میں پیسے ہوں وہی کرائے  گلوخلاصی
ہم نے تو ریٹ لگا کے خود کو سر عام رکھ دیا۔

رمضان سے صرف دو دن پہلے ایرانی کھجور جوکہ میں نے پرچون میں 180روپے کلو کے حساب سے وہی کھجور تیسرے روزے چارسو روپے کلو ہوگئی۔کیونکہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان سود اور حرام نہیں کھاتا۔جبکہ کاروبار تو خالص حلال پاک اور طیب ہوتا ہے۔ہیں جی!

میرے پڑوسی بہت غلط لوگ ہیں دین سے دور بھی ہیں اور دینی احکام سے نابلد بھی۔پورے گھر میں ایک بھی فرد روزہ نہیں رکھتا۔بلکہ گھر کے سارے افراد بمعہ بچے گندم کی کٹائی  کرتے پھرتے ہیں تھریشر پر دیہاڑی لگاتے ہیں۔کہتے ہیں اس سال بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے ہیں ، اپنے گھر کی ہوجائے توہم بھی اپنے فرض سے فارغ ہوں ۔بندہ پوچھے کہ اللہ کے بندوں  یہ رمضان گزر گیا تو پتا نہیں دوبارہ رمضان نصیب ہوگا کہ نہیں۔جبکہ ہم سب روزہ رکھتے ہیں سحری کھا کے اےسی چلا کے سوجاتے ہیں اور بس افطاری کے وقت ہی باہر نکلتے ہیں۔الحمدللہ اس سال بھی اعتکاف مدینہ میں کریں گے۔ہیں جی!

مولانا صاحب نے اس جمعہ بہت ہی اچھا خطاب فرمایا۔کیونکہ رمضان کا پہلا جمعہ تھا۔اس لیے لوگوں کو اللہ سے ڈرنے اور اللہ کے بندوں کے ساتھ معاملات بہتر کرنے پر زور دیا۔تقریر کرتے رو پڑے کہ لوگ مزدور کی مزدوری وقت پر نہیں دیتے جبکہ حکم ہے مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کرو۔

شام کو ہمارے گاؤں کا ایک عیسائی  مولانا صاحب کے پاؤں میں گر کے رو پڑا کیونکہ اس کی بیٹی بہت بیمار تھی۔اور وہ مولانا صاحب کو بتا رہا تھا کہ جناب تین ماہ ہوگئے ہیں مدرسے کے گٹر صاف کیے  تھے جن کی مزدوری فقط دوہزار ہے۔مجھے بس آپ پانچ سو ابھی دے دیں تاکہ میں اپنی  دوائی  لا سکوں۔ہیں جی!

Advertisements
julia rana solicitors

چھ مئی کو جب میں گھر سے گاڑی لے کے نکلا تو ایک دوست نے ہاتھ دے کر  مجھے روکا اور پوچھنے لگا کدھر نوں؟
میں نے بتایا کہ شہر تک جارہا ہوں تو ساتھ بیٹھتے ہوئے  بولا مجھے بھی لے چل۔میں نے پوچھا خیریت ہے۔
کہنے لگا پنجاب کالج جانا ہے بچی کی رولنمبر سلپ  لینی ہے کل سے پیپر شروع ہیں اور کالج والوں نے مکمل فیس وغیرہ وصول کرنے کے بعد تین ہزار روپیہ پیٹرول کی مد میں نکال لیا ہے۔اب کہتے ہیں اگر امتحان میں بچی کو بٹھانا ہے تو تین ہزار دو ورنہ بچی کی رولنمبر سلپ نہیں ملے گی۔کیونکہ ہمیں صرف دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہوتا ہے اس لیے اگر اپنے نہ بھی پڑھے تو کوئی  بات نہیں۔ہیں جی

Facebook Comments

رانا اورنگزیب
اک عام آدمی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply