داستانِ زیست۔۔۔محمد خان چوہدری/قسط12

تعارف:

محمد خان چوہدری کا تعلق چکوال کے ، بجنگ آمد کے  مصنف کرنل محمدخان کے قبیلہ سے ہے، جن کی چھاپ تحریر پر نمایاں ہے، میجر ضمیر جعفری بھی اسی علاقے سے ہیں انکی شفقت بھی میسر رہی، فوج میں تو بھرتی نہ ہو سکے لیکن کامرس میں پوسٹ گریجوایشن کر کے پہلی ملازمت فوج کے رفاعی ادارے میں کی، پھر اِنکم ٹیکس کی وکالت کی، لیکن داستان نویسی میں چکوال کی ثقافت حاوی ہے، مکالمہ  پر  ان کی دو درجن کہانیاں چھپ چکیں ہیں  ، آج کل داستان زیست قسط وار بیان کر رہے ہیں۔جس کے  دوسرے باب کی پہلی قسط  آپ کے  ذوقِ مطالعہ کے لیے حاضر ہے۔

گزشتہ قسط:

آج مجبوری بن گئی ، وہاں اعجاز صاحب ڈائریکٹر ہیں ، وہ آپکو جانتے ہیں، اب پلیز انکا فون اگر آئے تو بات کر لیں۔
فرحی نے اتنے تسلسل سے بات کی اور اچانک ملاقات کی حیرانی سے مجھے صورت حال سمجھنے میں دیر لگی۔
میں نے پوچھا اب کہاں جاؤ گی، وہ بھی نارمل ہو گئی، ہلکا سا ہنس لے کے، بولی ۔۔۔جہاں لے جاؤ۔۔
سڑک پر نہ ہوتے تو اس محبت کا جواب بوسہ تھا پر ۔۔۔۔ اسے کہا مارکیٹ میں دس منٹ ونڈو شاپنگ کرو۔۔
دفتر سنبھال کے اور کار لے کے یہیں آتا ہوں، اس نے نچلا ہونٹ دانتوں میں کاٹتے کہا ۔۔ جلدی آنا !

قسط 12:

پتہ نہیں اس کی وجہ کیا ہے ؟ سارا دن آفس میں بیٹھے رہو ۔ کہیں کوئی  چڑیا بھی نہیں پھڑپھڑائے گی۔۔تھوڑی دیر کے لئے ادھر اُدھر ہو جاؤ تو کوئی  نا کوئی  ایمرجنسی ضرور ہو گی۔
سراج کورڈ مارکیٹ چانسری کے سامنے چھوٹے سے پارک سے آگے تھی، وہاں سے واپس گیٹ پر پہنچے تو خان بابا گارڈ کی جگہ شیرین خان ڈیوٹی پر تھا، دور سے چلّا کے بولا ، صاحب جلدی آؤ سفیر صاحب بلا رہے ہیں، ریسپشن پہ  میزبان بی بی بدبدائی  ، کدھر ہیں آپ ؟ انٹر کام نہیں  اٹھا رہے۔۔ سفیر صاحب یاد کر رہے ہیں !

سوال جواب کے بغیر ہم سیڑھیاں پھلانگتے تیسری منزل کی گیلری میں پھولی سانس سے پہنچے تو سیکرٹری صاحبہ ، نگہبان کی طرح سامنے کھڑی تھیں ، رعب سے بولیں ، کس کے ساتھ گھومنے گئے تھے، !

ہمارے دل میں چور جاگ اٹھا، کہ ہو نہ ہو سفیر صاحب نے ریسپشن پہ لگے کیمرہ جس سے گیٹ اور سڑک تک نظر آتا ہے ، اور ایک مانیٹر ان کے آفس میں بھی تھا ، اس پر  مجھے فرحی کے ساتھ جاتے دیکھ لیا تھا۔۔
ایک اور وہم نے سر ابھارا کہ ہو سکتا ہے، خان بابا نے رپورٹ کر دی  ہو، سفارت خانہ تو بہت حساس مقام ہوتا ہے۔

آبپارہ مارکیٹ

میڈیم نگہبان ہماری شکل دیکھ کے انجوائے کر رہی تھیں ، خیر ہم نے ساتھ کچن سے پانی کا گلاس پیا، ماتھے کا پسینہ خشک کیا، اور سفیر صاحب کے دفتر میں داخل ہوئے، فوجی طرز کا سیلوٹ مارا، وہ مسکرائے اور ارشاد فرمایا۔۔۔
When you finish with your cate girl, come to the Residence as the big girl has asked the fate girl to arrange the evening party for ladies , you need to supervise.
سفارت کاری کے لئے چنیدہ افراد کی دانش اور افکار مخصوص اور انتہائی  لطیف ہوتے ہیں۔۔۔۔

شام کو سفیر صاحب کی رہائش گاہ پر انکی بیگم صاحبہ ، سفارت کاروں کی فیملیز کو پارٹی دیں گی ، انہوں نے لیڈی سیکرٹری سے بات کر لی، ہوٹل سے کھانا بھجوانا اور بندوبست مجھے چیک کرنا ہے۔
کیٹ گرل والی بات ہم سمجھ گئے ، ویسے بھی دو ہفتوں میں سفیر صاحب سے بے تکلفی ہو گئی تھی، وہ بہت ہی نفیس طبع انسان اور شفیق افسر تھے، اور لوکل ملازمین میں دفتر و رہائش گاہ کے ہر کام کی ذمہ داری میری ہوتی یا سب مجھ پہ  ڈال دیتے۔

سفیر صاحب نے انٹر کام پر سیکرٹری سے بات کی، ہم نے نظر بچا کے مانیٹر کو دیکھا جس پر گیٹ کے سامنے سڑک کی دوسری طرف فٹ پاتھ کے ساتھ لگے درخت کے سایہ میں فرحی کھڑی صاف نظر آ رہی تھی۔
سفیر صاحب نے کرسی سے اٹھتے حکم دیا۔۔ ابھی اسلام آباد ہوٹل جاؤ، شام کا انتظام چیک کرو، اب تم دفتر سے چھٹی کر لو، ہم نے اپنے گاؤں کے بزرگوں کو آداب کرنے کے طریقے کے عین مطابق جھک کے سلام کیا۔۔
مسکرا کے مجھے تھپکی دیتے گُڈ لک کہا اور آفس سے باہر  نکل گئے ۔۔۔۔۔

انکے دفتر میں آنے سے پہلے چند لمحوں میں میزبان، نگہبان اور چوکیدار نے جو میری حالت اس مجنوں جیسی کر دی تھی۔۔جسے اس کی لیلی ملنے آئے اور گھر والے مجنوں کو رسیوں سے باندھ دیں، وہ کیفیت سفیر صاحب کی شفقت نے ختم کر دی، ہم  ہشاش بشاش چہرے کے ساتھ سیکرٹری کو منہ چڑاتے، سیڑھیاں اترے، اپنا دفتر لاک کیا، ریسپشن والی کو آنکھ ماری، اور چانسری سے نکل آئے۔

فرحی بہت پریشان تھی، ہم نے کار کا دروازہ کھول کے اسے بٹھایا، کار دیکھ کے حیران ہوئی ، کار سٹارٹ کی۔۔۔
اس نے پوچھا۔۔ یہ کس کی کار ہے ؟ فوکسی کدھر ہے ؟ آفس میں میری وجہ سے مسئلہ تو نہیں   بنا کوئی ؟
ہم نے مداخلت کرتے کہا۔۔ سب تفصیل بتاتا ہوں، یہاں سے تو نکلنے دو۔۔
سیدھے ہوٹل پہنچ کے کار پارک کی اور فرحی، حیران، کنفیوز ، پریشان ہمارے ساتھ کافی کارنر میں بیٹھ گئی۔
بیرے کو کلب سینڈوچز  اور کافی کا آرڈر دیا اور مارکیٹنگ والے حسن صاحب کو بلوایا۔۔۔نکٹائی  اور ویسٹ بیلٹ ڈھیلی کی، کرسی پر ریلیکس ہو کے بیٹھے، اور میڈیم فرحی سے ان کی صحت بارے  استفسار کرنے لگے۔۔
ہوٹل میں آتے جو وہم اور وسوسے اس کے چہرے بشرے پر ہویدا تھے وہ کافی حال آنے سے دب گئے وہ بھی پرسکون تھی، اس نے جواب دیا۔۔۔ جی اب میں بالکل نارمل ہوں ۔ دوبارہ لالکرتی لیڈی ڈاکٹر سے چیک کرایا تھا۔
اس نے بھی تسلی دی کہ سب کچھ ٹھیک ہے بس اگلے پیریڈ کی تاریخ سے دو دن پہلے دو گولیاں کھانی ہیں۔ میں آپکو انفارم کرنا چاہتی تھی، فون پہ  آپ ملتے نہیں ۔۔
بیرا آرڈر لے آیا اور حسن صاحب بھی آ گئے، فرحی کو دیکھ کے پوچھا ، یہ بھی ایمبیسی میں ہوتی ہیں ؟
بے تکلفی پیدا کرنا مارکیٹنگ کے بندوں کی مجبوری ہے اور ہماری تو یہ عادت ہے۔۔
ہم نے جلدی سے کہا، جی یہ ہماری نئی سفیر ہیں ! حسن نے قہقہہ لگایا ، اور کہا آپ کے ہوتے سب ممکن ہے
بھوک تھی شپڑ شپڑ سینڈوچز ختم کیے ، کافی حسن نے بنا کے دی اور ساتھ گلہ کر دیا کہ  ۔۔آپ کے پاس چار بار حاضری دی لیکن آج کا آرڈر تو لیڈی سیکرٹری صاحبہ نے دلوایا !
اسلام آباد میں پہلا فائیو سٹار ہوٹل شہر زاد شاہراہ دستور پر بنا جسے فارن آفس میں تبدیل کیا گیا، ہالیڈے ان بننا تھا۔۔ایمر جنسی میں مین سوک سنٹر میں تین کمرشل بلڈنگز  میں ترمیم و تزئین کر کے شاپنگ سنٹر کی جگہ یہ ہوٹل بنایا گیا تھا۔

اسلام آباد ہوٹل
سید پور گاؤں

اس کے عقب میں ہوٹل کا مخصوص پلاٹ جو ہمارے گرائیں ملک صاحبان کے  پاس تھا اس کی تعمیر ہوتی نہیں  لگتی تھی۔۔وہ تاحال زیر تعمیر ہے۔
شہر میں لے دے کے اب دو ہوٹل تھے، جن کے لئے نیشنل ڈے کے ہر ایمبیسی کے فنکشن مارکیٹ کے لئے اہم ہوتے،اگلے ماہ ہمارا نیشنل ڈے تھا، حسن کی سرتوڑ کوشش کہ اسکے ہوٹل میں ہو، ہم ہالیڈے ان کی فیور میں تھے۔
شام کے چار بج رہے تھے ، حسن کے ساتھ ایک گھنٹہ بعد سفیر صاحب کی رہائش گاہ پر ملاقات طے ہوئی ۔۔اتنی دیر میں بیرا دو گفٹ پیک لے آیا ، شاید کیک اور بسکٹ تھے، یہ ہماری پہلی رشوت ہو سکتی ہے۔

حسن کچن میں چلے گئے، فرحی نے اپنا گھر کا ایڈریس، فون نمبر اور اعجاز صاحب کا آفس کا فون نمبر ہمیں  نوٹ کر وادیا ۔
اسے بوریت اور تھکن تو ہونی تھی، کہنے لگی، میں شکریہ ادا نہیں  کر سکتی، اگر جاب مل گئی تو کوشش کروں گی کہ اگر موقع  میسر ہو تو آپکی خدمت کروں، ہم نے بات پلٹی، اعجاز صاحب سے کیا بات ہوئی  ؟

سانس لے کے ، رُک کے بولی،انٹر ویو میں مارکیٹنگ بارے آپ والی گیس کمپنی کی مثال دی، انہوں نے پوچھا مجھے کیسے پتا ہے ۔ میں نے آپ کا ریفرنس دیا کہ میرے عزیز اس میں کام کرتے ہیں، نام سن کے بولے وہ تو اکاؤنٹس میں ہے، میں چُپ رہی، تو انہوں نے بتایا کہ وہ جانتے ہیں۔  دوسرا ریفرنس فلیش مین ہوٹل کے جی ایم کا ہے، ویسے یہ ہوٹل بھی اس ٹورازم کے محکمے کے انڈر ہے،آپ اعجاز صاحب سے بات کریں، تین لڑکیاں امیدوار ہیں تجربہ صرف میرا ہے ۔۔
ہم نے اوکے کہا،اور پھر پوچھا اب کیا پروگرام ؟
بولی آپ بہت مصروف ہیں ، ویسے گھر تو شام لیٹ آنے کا فون کر دیا تھا، میں ویگن پہ  گھر چلی جاتی ہوں۔۔
کار میں بیٹھے تو میں نے کہا، چلو سید پور تک ڈرائیو کرتے ہیں، پرانا گاؤں دیکھتے ہیں، اعصاب پر بوجھ کم ہو جائے گا۔
مجھے ہمیشہ کچے کوٹھے مٹلے دیکھ کے بچپن کی یاد تازہ کرتے سکون ملتا ہے،سید پور کی ایک گلی میں ایسے ہی چلتے اس نے کہا، تم یہاں گھر لے لو، ایک گائے رکھ لیں گے، مطلب میں بھی ساتھ رہ لوں گی ،
سامنے ایک پتھر تھا اس پہ  کندھے ملا کے چُپ بیٹھ گئے، کتنی دیر ؟ پتہ نہیں ۔۔۔۔
اسے آبپارہ ویگن سٹاپ سے ویگن پر بٹھایا، ہوٹل کے کیک بسکٹ ساتھ دیئے،منیر نیازی کا دیر کرنا یاد کرتے  ہوئے خدا حافظ کہا ، اس کی آنکھیں بھیگی تھیں، میں بھی شاید رویا تھا۔
یہ وقتی جذبات کا الاؤ، سفیر صاحب کی رہائش گاہ پر پہنچتے سرد ہو گیا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری  ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply