یہ طوطے قصر صدارت کے۔۔۔علی اختر

کہتے ہیں کہ سکندر اعظم کو ہندوستان کے ایک راجہ نے تحفتاً ایک پرندہ دیا تھا ۔ یونانی تو اس پرندہ کی حقیقت سے واقف نہ تھے سو شکریہ کے ساتھ قبول فرما لیا ۔ دراصل یہ ایک جاسوس طوطا تھا جس نے مخبری کرکے سکندر کو وہ زہریلا برچھا گھپوایا جو اسکی موت کا سبب بن گیا ۔ یونانی آخری وقت تک اس راز سے ناواقف رہے اور اس طوطے کو سکندر کی نشانی سمجھ کر مقدونیہ لے گئے جہاں وہ کم و بیش ڈیڑھ سو سال تک دربار میں شاہی طوطے کا پروٹوکول انجوائے کرتا رہا ۔ سنا ہے کہ وہ آخری عمر تک بھی روز کے بیس سیر سورج مکھی کے بیج کٹر کٹر کر کے کھاتا رہتا ۔ بہت سے لوگ یہاں کہیں گے کہ  میں بے پر کی اڑا رہا ہوں ۔ بھلا طوطا اس عالم بزرگی میں اتنا کچھ کیسے چبا جاتا ہوگا ۔ عام طور پر تو ستر کے بعد نقلی بتیسی لگا کر بھی مونگ پھلی توڑنا اخروٹ توڑنے کے برابر ہوتا ہے ۔ لیکن بھائی  لوگ یہاں بات طوطے کی ہو رہی ہے ۔ یہ بتیسی دانت وانت سب انسانوں کے چونچلے ہیں ۔ بھلا معلوم تاریخ سے آج تک کسی نے بڑھاپے کے سبب کسی طوطے کو چونچ گرنے پر ڈینٹسٹ کے پاس جاتے دیکھا ہے ؟ ۔۔ نہیں دیکھا نا ۔ ہاں موجودہ تاریخ کی بات اور ہے ۔

ویسے بات شاہی طوطوں کی ہو رہی ہے تو فراعنہ مصر کے ہاں بھی اس پرندہ کو خاص حیثیت حاصل تھی ۔ سنا ہے کہ  سب سے طاقتور فرعون “توتن خامن ” کا نام بھی اسکے ڈیڈی نے ایک درباری طوطے سے ہی متاثر ہو کر رکھا تھا ۔ فرعونوں کے دور میں یہ طوطا لوگ ہر ہر فیصلے اور حکومتی پالیسی پر اثرانداز ہوتے اور سلطنت کی ترقی و استحکام میں اہم کردار ادا کرتے ۔ یہ بھی سنا ہے کہ ” رامسیس ثانی ” نامی فرعون کو بھی بنی اسرائیل کے پیچھے دریا میں جانے کا کانفیڈینس انہی شاہی طوطوں نے ہی فراہم کیا تھا ۔ غرق ہوتے وقت جب اس نے بے بسی سے کنارے پر کھڑے طوطوں کی جانب دیکھا تو انہوں  نے نظریں دوسری جانب پھیر لیں ۔ کچھ لوگوں نے طوطوں کو نمک حرامی کا طعنہ دیا لیکن میں یہاں اس حرکت کو طوطوں کی دانائی سے تعبیر کرتا ہوں ۔ بھلا وہ کوئی آخری فرعون تو تھا نہیں ۔غرق ہوتا ہو سو ہو ۔ طوطوں کو تو اگلے فرعون کی بھی سلطنت چلانی تھی نا سو وہ پھرررر کر کے اگلے کے پاس چلے گئے ۔ خیر اب کہنے والے کچھ بھی کہیں لیکن اس بیوفائی کے باوجود آج تک فرعونوں اور طوطوں کا ساتھ ناصرف برقرار ہے بلکہ ایک فرعون کے غرق ہوتے ہی طوطوں کا دوسرے فرعون کی طرف نقل مکانی کر جانے  کی روایت بھی قائم و دائم ہے ۔

ویسے دیگر پالتو جانوروں کے مقابلےمیں  یہ طوطے کوئی  اتنے کار آمد تو نظر نہیں آتے ۔ مثال کے طور پر بھینس پالنے کی صورت میں آپ ناصرف دودھ، مکھن ، پنیر وغیرہ حاصل کرتے ہیں بلکہ دل بھر جانے یا قرض چڑھ جانے کی صورت میں بیچ کر خطیر رقم بھی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ سنا ہے اس جانور کی ہائی  ری سیل کے باعث ہنڈا موٹر سائیکل سے مشابہت کی بنا پر اب بھینس کا سلوگن “میں تے مجاں ہی لیساں” کر دیا گیا ہے۔ چلیں اگر بھینس بڑی ہے ۔ رکھنا ، کھلانا ،نہلانا مشکل ہے تو کتے کی مثال لے لیں ۔ کتنا وفادار ہوتا ہے ۔ باہری چوروں کو اندر نہیں آنے دیتا اور اندرونی چوروں اور چورنیوں کو نکال باہر کرتا ہے ۔ سب سے بڑھ  کر اسکا کوئی  بھی نام یعنی ٹائیگر، پینتھر ، شیرو وغیرہ رکھ کر اپنی نا آسودہ خواہشات کو بھی پورا کیا جا سکتا ہے ۔ اسکے برعکس طوطوں میں سوائے باتیں بنانے کے کوئی فاضل قابلیت نہیں ہوتی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ویسے ہمارے شہر کراچی میں لالو کھیت دس نمبر پر پرندوں کی خرید و فروخت کی ایک بڑی مارکیٹ ہر اتوار لگائی  جاتی ہے ۔ ابھی پچھلی اتوار کو میرا وہاں جانا ہوا تو ایک بوڑھے طوطا فروش کے پاس موجود آدھے گز کے رنگ برنگے طوطے پر نگاہ جم گئی ۔ میں قریب پہنچا تو طوطا و طوطا فروش دونوں نے ہی طوطا چشمی کا مظاہرہ کرتے آنکھیں پھیر لیں ۔ معلومات لینے پر طوطا فروش چاچا  بے اعتنائی سے بھرپور لہجے میں بولا “یہ شاہی نسل کا طوطا ہے” ۔ پھر بھی کوئی  نام تو ہوگا ” “اس نسل کا نام “مکا ؤ” ہے ۔ ” مکا ؤ ، یہ کیسا نام ہے ” ۔ میں نے حیرانی سے پوچھا تو وہ اکتا سا گیا ۔ ” اب کیا بتاؤں ۔ اکثر اسکی وجہ سے حکومتیں مک جاتی ہیں ۔ ” یہ سن کر میرا تجسس اور بڑھ  گیا ۔ “قیمت کتنی ہے اسکی ؟ ” ۔”اسکی قیمت ” طوطا فروش مسکرایا ۔ ” میاں تم پنجرہ اسکے شایان شان بنوادو ۔ طوطا ایسے ہی لے جاو” ۔ “اسکی کوئی  خاصیت جو اسے اور طوطوں سے ممتاز کرتی ہو ؟ ” ۔ “ہاں ہے نا ، یہ انتظامی امور چلانے کا ماہر ہے ۔ اسکی سرپرستی میں نوکر خود کو مالک سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ جب کھاتا ہے تو صاحبوں کی طرح کانٹے چھری سے لیس ہوکر ۔ کوئی  قریب نہیں پھٹک پاتا اور کھاکر ٹشو پیپر سے منہ صاف کرکے ٹشو ڈسٹ بن میں پھینکتا ہے ” ۔ پھر کچھ سوچ کر بولا ۔” ویسے استعمال کے بعد تو یہ ہر اک شے ٹشو پیپر کی طرح پھینکتا ہے ” ۔ “پر اتنا نایاب طوطا اب تک بکا کیوں نہیں ؟ ” میرے اس سوال پر طوطا فروش افسردہ ہو گیا ۔ “بک گیا تھا لیکن دو دن بعد پارٹی بیانہ واپس لے گئی۔ بولا کہ  ڈیل کینسل “۔۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply