ہاں مگر تیرے سوا۔۔۔محمد اشفاق

اس صدی کے ابتدائی برسوں کا قصہ ہے۔ ملک میں رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں اندھا دھند سرمایہ کاری ہو رہی تھی اور جڑواں شہر اس سرمایہ کاری کا سب سے بڑا مرکز تھے۔ آپ کے خادم اور چند دوستوں نے مل کر ایک پراپرٹی ڈیلنگ کا آفس بنا رکھا تھا۔ سوائے ایک کے، ہم سب کا اپنا اپنا کام دھندہ بھی چل رہا تھا، یوں ہماری روزی روٹی کا واحد ذریعہ یہ آفس نہ تھا۔ بڑے رقبوں کی خریدوفروخت میں جو گھپلے ہو رہے تھے اور جس طرح ملک کے دیگر شہروں خصوصاً کراچی سے آنے والے سرمایہ کاروں کو بیدردی سے لوٹا جا رہا تھا، اسے دیکھتے ہوئے ہم نے دانستہ خود کو صرف اپنے علاقے تک محدود رکھا۔ یوں بھی ہمارے لئے کاروبار سے زیادہ وہ مل بیٹھنے اور موج مستیاں کرنے کا ایک ٹھکانہ تھا۔

لیکن پھر یوں ہوا کہ ہم سب کے ہی حالات دگرگوں ہوتے چلے گئے۔ ذمہ داریاں اب زیادہ آمدنی کا تقاضا کر رہی تھیں۔ اور کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی تھی چنانچہ ایک میٹنگ میں بالآخر یہ فیصلہ ہوا کہ اپنے اصولوں قاعدوں پہ سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے بڑے سودوں میں قسمت آزمائی کی جائے۔ جو دیہی علاقے ہاٹ کیک کی طرح بک رہے تھے، وہاں کچھ جاننے والوں کی آبائی زمینیں تھیں، کچھ تعلقات تھے جو کام آ سکتے تھے۔ ہم میں سے ایک نے ڈیلنگ کی ذمہ داری اٹھائی اور اس کے پیچھے ہم سب میدان میں کود پڑے۔ یہ 2003-4 کی بات ہے جب رئیل اسٹیٹ کا بلبلہ بس پھوٹنے ہی والا تھا اور ساتھ ہمارے نصیب بھی۔

جہاں معاملہ سینکڑوں کنال کا ہو اور فی کنال کئی لاکھ کا نفع متوقع ہو تو محض جمع تفریق کر کے ہی آپ کو عجیب سی لذت ملتی ہے- آپ کا خیراندیش بھی روز اماں سے دو تین سو روپے مانگ کر گھر سے نکلتا تھا اور امید یہ ہوتی تھی کہ شام کو بڑے نوٹوں سے بھرا بیگ ماں کے قدموں میں لا کے رکھ دوں گا۔ دیگر احباب کا بھی یہی حال تھا، ایک کے کندھے پر تھپکی دے کر، اسے دشت کی سیاحی کو بھجوا کر باقی سب مل کر ہوائی قلعے تعمیر کیا کرتے تھے۔ کھلی آنکھوں سے سپنے دیکھتے دیکھتے جب ہوش آیا تو اپنی رہی سہی جمع پونجی جھونک کر بھی حاصل وصول صفر تھا۔

دفتر بند کیا اور سب نے اپنی اپنی راہ لی۔ آج پندرہ برس بعد الحمدللہ ہم سب دوست اپنی اپنی جگہ خوشحال اور مستحکم زندگیاں گزار رہے ہیں۔ کسی کو بھی اس وقت جو کروڑوں روپیہ ہم کما سکتے تھے، نہ کما سکنے کا ملال نہیں ہے- کیونکہ اس تجربے نے ہمیں جو سبق سکھایا وہ بہت سے لوگ کروڑوں گنوا کر بھی نہیں سیکھ پاتے۔

دن رات ایک کرنا پڑتے ہیں، عیش آرام تج دینا پڑتا ہے- ہڈیاں گلانا پڑتی ہیں، خون جلانا پڑتا ہے، دماغ تھکانا پڑتا ہے- بدن میں درد رہتا ہے، ہاتھوں میں چھالے پڑتے ہیں، پاؤں سوج جاتے ہیں، رنگ کالا پڑ جاتا ہے، بال سفید ہوجاتے ہیں۔ باتیں سننا پڑتی ہیں، طعنے سہنا پڑتے ہیں، لڑنا پڑتا ہے، انا کی بھینٹ دینا پڑتی ہے، جان مارنا پڑتی ہے، گرنا پڑتا ہے اور گر کے ہر بار اٹھنا پڑتا ہے- تب کہیں جا کر کامیابی آپ سے ہار مانتی ہے اور آپ کے قدموں میں سر رکھتی ہے۔ ہم اس لئے کامیاب رہے کہ ہم نے بروقت یہ سبق سیکھ لیا تھا کہ

کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔

بدقسمتی سے من حیث القوم ہم آج تک یہ سبق نہ سیکھ پائے۔ اسی عرصے میں انفرادی طور پر سینکڑوں لوگوں کو، بیسیوں شناساؤں کو، کسی پونزی سکیم، کسی ڈبل شاہ، کسی مفتی صاحب کے ہاتھوں لٹتے، برباد ہوتے دیکھا۔

اجتماعی سطح پر دیکھیں تو گوادر نے ہماری تقدیر بدلنا تھی، نہ بدلی۔ سینڈک کا تانبہ ہمیں مالامال کر سکتا تھا، نہیں کیا۔ ریکوڈک کا سونا ہمیں اوج ثریا تک لے جا سکتا تھا، ایسا بھی نہ ہو پایا۔ چنیوٹ کا سونا پہلے لوہا نکلا اور پھر وہ لوہا بھی ہمارا مقدر نہ ہوا۔ تھر کا کوئلہ پورے ملک کو جگمگ کر سکتا تھا، جب ہاتھ ڈالا تو صرف ہاتھ منہ کالے ہوئے۔ ہمیں اربوں ڈالر کی درآمدات سے نجات دلانے اور کھربوں ڈالر کی ٹیکنالوجی برآمد کرنے کے قابل بنانے کیلئے پانی سے چلنے والی گاڑی ہی کافی تھی، مگر وہ بھی “عالمی سازشوں” کی نذر ہوئی۔ دو سو ارب ڈالر ہی آ جاتے تو ہم نصف عالمی اقتصادی نظام کے منہ پر مار کر باقی نصف سے دودھ شہد کی نہریں بہا دیتے، ایسا بھی نہ ہو پایا۔ کیکڑا ون سے تیل نکل آتا تو آج محمد بن سلمان، خان صاحب کی گاڑی ڈرائیو کر رہا ہوتا، مگر افسوس۔ اب قوم کو ہمالیہ کے گلابی نمک میں امید کی کرن دکھائی دے رہی ہے، برا ہو نام نہاد حقیقت پسندوں کا وہ اس امید پہ بھی پانی پھیرنے پہ تلے ہوئے ہیں۔

پانی کی گاڑی یا گلابی نمک کو چھوڑ کر شاید باقی سب منصوبوں میں پوٹینشل تھا اور ہے۔ لیکن یہ پوٹینشل تقدیر بدلنے کا نہیں ہے، اضافی آمدنی کے ایک وسیلے کا ہے- ایک ملک و قوم کے ساتھ بہت مخلص دوست نے دعا کی کہ سمندر سے تیل نکل آئے تو قوم کی تقدیر بدل جائے گی۔ وہاں یہ عرض کر کے برا بھلا سنا کہ “آمین، مگر تیل سے تقدیر نہیں بدلا کرتی” تیل نکل بھی آتا تو سمندر میں اسٹیشن تعمیر کرنے اور 280 کلومیٹر کی پائپ لائن بچھانے میں پانچ سے چھ سال کا عرصہ درکار تھا، جب تک خان صاحب کی حکومت جا چکی ہوتی۔ اس لئے قوم کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا نہ انہوں نے ضروری سمجھا تھا، نہ ہی کسی نے خود آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن کیا پانچ چھ سال بعد بھی ہماری تقدیر بدل سکتی تھی؟

تیل پیدا کرنے والے نمایاں ممالک میں ایران، عراق اور وینزویلا بھی شامل ہیں، ان کی حالت سے آپ کو آگاہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ سونا سب سے زیادہ جنوبی افریقہ سے نکلتا ہے۔ مگر جنوبی افریقہ اور پاکستان کی معیشت میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ شمالی افریقہ کے کئی چھوٹے بڑے ممالک ہیرے کی پیداوار میں سب سے آگے ہیں۔ ان ملکوں کی حالت زار پہ اگر آپ نے کچھ پڑھ نہیں رکھا تو رونالڈو ڈی کیپریو کی بلڈ ڈائمنڈ تو دیکھ ہی رکھی ہوگی۔ ہم سے گوادر اب تک آپریشنل نہیں ہو پایا مگر سری لنکا اربوں ڈالر قرض لے کر اپنی بندرگاہ کب کا ڈویلپ کر چکا، وہاں کے موجودہ حالات سے آپ باخبر ہی ہوں گے۔

انفرادی اور اجتماعی طور پر جب آپ کو بدترین زوال، پستی اور رسوائی کا سامنا ہو تو آپ کے اندر کی امید کچھ آسان سہارے تراش لیتی ہے- یہ آسان مگر جھوٹے سہارے آپ کو ڈے ٹو ڈے سروائیو کرنے میں تو مدد دے سکتے ہیں، لیکن آپ کی تقدیر نہیں بدل سکتے۔

جس زوال اور بدترین قحط الرجال کا شکار ہم ہیں، اس میں قوموں کے پاس سب سے بڑا سہارا یا مدر آف آل شارٹ کٹس ایک مسیحا ہوتا ہے- نائیک کے انیل کپور کی طرح جو تین دن (یا سو دن؟) میں ملک کی سمت درست کر سکتا ہے- “اوپر لیڈر ایماندار ہو تو نیچے سب ٹھیک ہو جاتے ہیں”
اگر پانچ سال میں بھی قوم اس شارٹ کٹ کی حقیقت جان گئی تو پھر یہ سودا ابھی جتنا بھی مہنگا لگ رہا، حقیقت میں مہنگا نہیں ہوگا۔ لیکن ان پانچ سال میں ہم نے ایک نیا بت تراش کر اس کی پوجا شروع کر دی تو پھر ہمیشہ کی طرح اللہ ہی نگہبان ہے-

تیرے آزار کا چارہ نہیں نشتر کے سوا
اور یہ سفاک مسیحا میرے قبضے میں نہیں
اس جہاں کے کسی ذی روح کے قبضے میں نہیں
ہاں مگر تیرے سوا، ہاں مگر تیرے سوا!

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ:یہ تحریر اشفاق صاحب کی فیس بک وال سے شکریہ کے ساتھ کاپی کی گئی ہے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply