افریقی چے گویرا : تھامس سنکاراکی واپسی۔۔۔۔مشتاق علی شان

افریقی چے گویرا کہلانے والا برکینا فاسو کا جواں مرگ انقلابی کامریڈ تھامس سنکاراتین دہائیوں کے بعد ایک فاتحانہ شان سے اوگو ٹوگو میں داخل ہو رہا ہے ۔پریذیڈنٹ تھامس سنکارا جسے 29سال قبل 15اکتوبر 1987کو اس وقت فوج نے دھا۱ بول کر دیگر کامریڈز کے ہمراہ قتل کیاگیا تھا جب وہ ایک اجلاس میں مصروف تھے ۔آج وہی برکینا فاسو اپنے انقلابی ورثے کی طرف لوٹ رہا ہے۔ جس جگہ تھامس سنکارا کو قتل کیا گیا تھا وہاں گزشتہ دنو ں اس کی یادگار کا افتتاح کیا گیا ۔یہاں ایک میوزیم تعمیر کیا جائے گا اور تھامس سنکارا کی تاریخ ، اس کے افکار سے متعلقہ دستاویزات اور دیگر اشیاء رکھی جائیں گی۔اس مقصد کے لیے ایک ادارے کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے جس کے سربراہ گھانا کے سابق صدرJerry Rawlings ہیں ۔اس منصوبے کو نہ صرف برکینا فاسو بلکہ افریقہ بھر میں سراہا جا رہا ہے جس کے ذریعے نہ صرف ایک افریقی انقلابی ہیرو کا ورثہ جمع کیا جائے گا بلکہ یہ اس کے افکار کی تشہیر کا مرکز بھی بنے گا۔ کینیا کے ایک لکھاریNgugi Wa Thiongoکے بقول ’’تھامس سنکار ا کی یاد گارہمیں خود سے روشناس کرائے گی ۔‘‘

33سالہ تھامس سنکارا کا قتل سرد جنگ کی آخری دہائی کے بڑے سامراجی جرائم میں سے ایک تھا ۔لیکن اسے قتل ہونا ہی تھاکہ وہ معلوم انسانی تاریخ کے ا ن مجرموں میں سے تھا جو ذاتی ملکیت کو جملہ انسانی آلام کا باعث سمجھتے ہیں ،اس کے خاتمے کی جدوجہد کرتے ہیں اور تاریخ کے صفحات پر اپنے لہو کی روشنائی بکھیر جاتے ہیں ۔اس تاریخی جدوجہد اور اس راہ میں استادہ سولیوں سے بخوبی واقف تھامس سنکارا نے یہ راستہ 1976میں اس وقت چنا تھا جب وہ برکینابی فوج میں کیپٹن تھا اور اس نے اپنے دیگر ساتھیو ں ہنری زوانگو، جین بپٹسٹ، بُوکارے لینگانی ،بلیز کامپورے کے ساتھ مل کر فوج کے اندرجونیئر افسران کا ایک ’’ خفیہ کمیونسٹ گروپ‘‘ تشکیل دیا تھا ۔تھامس سنکارا کے نام پر قتل کی مہر اس وقت ہی لگ چکی تھی جب اس انقلابی گروپ نے 4اگست1983کومحنت کش عوام کی مدد سے فرانس کے پالتو فوجی آمر سایے زیربو کا تختہ اُلٹا تھا ۔اس موقع پر تھامس سنکارا کے اس اعلان نے سفید سامراج اورافریقہ کے حکمران کہلانے والے سیاہ پوست غلاموں کو ہذیان میں مبتلا کر دیا کہ ’’برکینا فاسو میں ہمارا برپا کردہ یہ انقلاب نوعِ انساں کی پہلی سانس سے لے کر آج تک کے تمام تر انسانی تجربے پر مبنی ہے ،ہم کرۂ ارض کے تمام انقلابات اور تیسری دنیا کے سارے عوام کی جدوجہدِ آزادی کا وارث بننا چاہتے ہیں ۔ہم نے انقلابِ امریکا سے درس حاصل کیا ہے اورانقلابِ فرانس سے انسانی حقوق سیکھے ہیں ، عظیم اکتوبر سوشلسٹ انقلاب نے پرولتاری طبقے کو فتح سے ہمکنار کیا اور پیرس کمیون کے انصاف کے خواب کو تعبیر کا جامہ پہنایا ۔‘‘

خود کو دھرتی کے خدا سمجھنے والوں کی طرف سے تھامس سنکارا کو اپنی طبعی عمر جینے کی سند جاری کر دی جاتی اگر وہ سوہارتو، پنوشے ، مبوتو ،بارین توس اور ضیاء الحق جیسا قصاب بننا قبول کر لیتا۔ تب ’’ جمہوریت ‘‘ کا راگ الاپنے والے کوئی ’’روشن خیال‘‘ سرمائے کی گلیوں میں سر بہ گریباں نہ ہوتا ، ’’انسانی حقوق‘‘ کے کسی چیمپئین کی پیشانی شکن آلود نہ ہوتی ۔اس پر وائٹ ہاؤس سمیت ہر وہ در وا ہو جاتا جس کے افق پر آج بھی ان پانچ کروڑو افریقی غلام روحو ں کا بین جاری ہے جنھیں جانورو ں کی طرح ہانک کرایشیا، جنوبی امریکا سے لے کر یورپ وامریکا تک کے بازاروں میں فروخت کیا گیا ۔اس بین میں وہ کروڑوںآوازیں بھی شامل ہیں جنھیں سرمائے کے تسلط کے لیے بلواسطہ اور بلاواسطہ جنگوں کا ایندھن بنایا گیا۔

لیکن یہ عجب وردی پوش تھاجس کی بندوق طبقے کی بندوق تھی ۔جس نے مارکس ،اینگلز ،لینن اور اسٹالین سے لے کرچے گویرا ، فرانز فینن ،کوامے نکرومہ، ایملکار کیبرال ،پیٹرس لوممبا ،سامورا میشل اور ڈاکٹر نیتو تک کے فکروعمل سے جلا پائی تھی ۔ تن پر عسکری وردی، سر پر چے گویرا جیسی سرخ ستارے والی ٹوپی اورہمہ وقت آستینیں چڑھائے سامراج اور خطے میں موجود اس کے گماشتوں کو دعوتِ مبارزات دیتے تھامس سنکاراکا خبط اور جنون بھی تو عجب تھا ۔

افریقی چے گویرا کہلانے والے تھامس سنکارا نے سامراجی عہد سے یادگار ملک کا نام ’’ بالائی والٹا ‘‘ سے تبدیل کرکے اسے ’’برکینا فاسو ‘‘ یعنی دیانت دار لوگوں کی سرزمین قرار دیا ۔ فرانسیسی اثرات کا قلع قمع کیاجس نے1960میں اسے آزادی دینے کے بعد اپنی جدید نوآبادی بنا دیا تھا ۔اس نےIMFاور ورلڈ بینک سے ناتا توڑتے ہوئے سامراجی قرضوں کی ادائیگی سے انکار کیا ، صنعتوں اور کانوں کو قومی تحویل میں لیا اور زرعی اصلاحات کرتے ہوئے زمینیں بے زمین کسانوں میں تقسیم کیں ،قبائلی سرداروں کی مراعات اور فرسودہ رسم ورواج کا خاتمہ کیا ۔اس کی پالیسیوں کی نتیجے میں زرعی پیداور دوگنی ہوگئیں اور ملک زرعی پیداور میں خود کفیل ہو گیا ۔ اس کے دور میں 2.5ملین بچوں کی ویکسین کا پروگرام پایہ تکمیل کو پہنچا ،ماحولیات کے تحفظ کے لیے ایک کروڑ درخت لگائے گئے تعلیم کو جدید انقلابی خطوط پر استوار کیا،انفراسٹرکچر کا جدید نظام تشکیل دیا گیا ،کرپشن کے خاتمے اور فوری انصاف کے لیے خصوصی انقلابی عدالتیں قائم کی گئیں ۔

پان افریقن ازم کے پرجوش مبلغ اور نظریہ دان تھامس سنکارا نے مغربی تجارت اور مالیاتی اداروں کے ذریعے افریقہ کو جدید نوآبادیات بنانے کے خلاف افریقی اتحاد کی تنظیم کو فعال کرنے اور سامراج مخالف افریقی ممالک کا متحدہ محاذ بنانے کے اقدامات کیے۔ وہ ایک ایسا مارکس وادی تھا ’’ عورتوں کی خاموشی کا شور‘‘ جسے بے قرار رکھتا تھا۔اس نے عورتوں کے خلاف رجعتی قوانین کا خاتمہ کیا،انھیں پہلی بار طلاق کا حق دیا زبردستی شادیوں اور اعضاء کاٹنے پر پابندی لگائی ۔وہ پہلے افریقی راہنما تھے جنھوں نے عورتوں کو گھر کے کام کاج سے نجات دلانے کے لیے مرودں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ گھر کا کام کریں ۔عورتوں کی کثیر تعداد کو کابینہ ،فوج اور دیگر اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز کیا ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ’’انقلاب اور عورتوں کی آزادی ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔عورتوں کی آزادی کوئی خیرات نہیں ہے بلکہ یہ انقلاب کی فتح کی بنیادی شرط ہے۔‘‘

اگر نظریے کی میزان سے تولا جائے تو تھامس سنکارا دنیا کا امیر ترین انقلابی اورغریب ترین صدر تھا ۔ اس کی تنخواہ محض 450ڈالر اور کل اثاثہ 4موٹر سائیکلیں ، تین گٹار ،ایک ٹوٹا ہوا پرانا فریزر اور کتابیں تھیں۔اس نے سرکاری اہلکاروں کی بھاری بھرکم تنخواہوں اور مراعات کا خاتمہ کیا ۔اس نے یہ کہہ کر اپنے دفتر میں ائیر کنڈیشن لگانے سے انکار کر دیا تھا کہ ابھی برکینا فاسو کے ہر شہری کو یہ سہولت حاصل نہیں ہے۔ اس نے فرسٹ کلاس ائیر ٹکٹ بھی ممنوع قرار دیا تھا اور متعددافریقی راہنماؤں کے برعکس عوامی مقامات پر اپنی تصاویر لگانے پر پاندی عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’’ برکینا فاسو میں 7ملین ( اس زمانے میں برکینا فاسوکی آبادی) تھامس سنکارا ہیں تم کس کس کی تصویر لگاؤ گے۔‘‘

اگست1983سے اکتوبر1987تک کے چار سال میں تھامس سنکارا کی انقلابی پالیسیوں نے برکینا فاسو کو ایک مثال بنا دیا ۔برکنیا فاسو اور تھامس سنکار ا افریقی خطے میں شہرت کی بلندیوں پر تھے ۔سنکارا ایک شعلہ بیان مقرر تھا لاکھوں کے مجمع میں اس کی تقریریں محنت کشوں ، کسانوں اور نوجوانوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کر دیتی ۔اس زمانے میں شاید ہی کوئی افریقی ملک ہو جہاں تھامس سنکارا کی بازگشت سنائی نہ دیتی ۔ اس کے دیگر افریقی ممالک میں انقلاب کی حمایت کے اعلانات سے سامراج کے سارے دستِ مرغ آموز لرزاں تھے اور انھوں نے اپنے ممالک میں تھامس سنکارا کی آمد پر پابندی لگا رکھی تھی ۔اگست 1987میں تھامس سنکارا نے سوشلسٹ ایتھوپیا کے دارالحکومت عدیس ابابا میں منعقدہ افریقی اتحاد کی تنظیم کے اجلاس میں دھواں دھار تقریر کرتے ہوئے تمام افریقی ممالک سے اپیل کی کہ وہ برکینا فاسو کی طرح IMFکا سارا سامراجی قرضہ ضبط کر لیں۔

تھامس سنکارا کی اس تقریر کے بعد امریکا ،فرانس اور آئیوری کوسٹ نے ایک سازش تیار کی ۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ تھامس سنکارا کے قتل کا قرعۂ فال اس کے ساتھی بلیز کامپورے کے نام نکلاجو سرد جنگ کی آزمودہ حکمت عملیوں میں سے ایک تھی ۔ اس بین الاقوامی سازش کے تحت تھامس سنکارا 13ساتھیوں سمیت قتل کر دیے گئے اور اس سازش پر طویل عرصے کے لیے ایک دبیز چادر ڈال دی گئی ۔تھامس سنکارا کا نام لینا جرم قرار دیا گیا ،اس کے حامیوں کو چن چن کا مارا گیا اور اس قتل کے ساتھ ساتھ تھامس سنکارا کا ہر نقش کھرچ دینے کی کوشش کی گئی ۔غداربلیز کامپورے اپنے مغربی آقاؤں کی تائید وایماء سے اگلے 27سال تک برکینا فاسو پر کسی قہرما ن کی طرح مسلط رہا اور اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو بندوق کے ذریعے خاموش کر دیا ۔اس مقصد کے لیے کامپورے کی ’’صدارتی حفاظتی رجمنٹ‘‘ (RSP) کو امریکا نے خصوصی تریت دی جس کا اعتراف ’’امریکی افریقی کمانڈ‘‘

(AFRICOM) کا ترجمان انتہائی بے شرمی سے کر چکا ہے ۔ برکینا فاسو ایک جدید نوآبادی اور افریقہ میں سامراج کے ایک اہم اڈے میں تبدیل ہو گیا جہاں پہلے فوجی اور بعد ازاں اپنے ہی تخلیق کردہ مذ ہبی جنونی گروہوں کے خلاف ڈرون اڈے تعمیر کیے گئے ۔ IMFسے بھاری قرضوں کی پالیسی کے نتیجے میں برکینا فاسو کی آدھی سے زیادہ آبادی انتہائی غربت کا شکار ہوگئی ۔بلیز کامپورے کی آمریت جتنی مستحکم ہوتی گئی اہلِ برکینا فاسو کے مصائب میں اتنا ہی اضافہ ہوتا گیا ۔لیکن تابہ کے تھامس سنکارا کے قتل 27سال بعد اکتوبر ہی کا مہینہ بلیز کامپورے کی آمریت کے لیے پیام مرگ لے کر آیا ۔31اکتوبر2014 کومحض دو دن میں برکینابی عوام نے کامپورے کو مستعفی ہو کر شریکِ جرم پڑوسی ملک آئیوری کوسٹ فرار ہونے پر مجبور کر دیا ۔

اگرچہ کامپورے آمریت کے خاتمے کے ایک سال بعد ہونے والے انتخابات میں تھامس سنکارا کے انقلابی ورثے کی حامل کہلانے والی ’’سنکارا ئسٹ ‘‘ جماعتیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکیں۔جس کی وجہ ان کا غیر منظم ہونا اور کامپورے کے 27سالہ جبر اور سیاسی منظر نامے پر حاوی رہنا بھی ہے ۔ فرانس اور امریکا برکینا فاسو پر اپنے کٹھ پتلیوں کو مسلط کرنے کے لیے پہلے دن سے سرگرم ہیں جب کہ فوج کی نظریں آج بھی اقتدار پر ہیں ۔

آج برکینا فاسو کے محنت کش عوام اور نئی نسل تھامس سنکارا کے افکار سے نئی توانائی حاصل کر رہی ہے۔ متعدد سنکار ائسٹ پارٹیاں ابھر رہی ہیں ان میں سے جو اپنے معروض کا درست فہم وادراک رکھتے ہوئے اورخود کوانقلابی بنیادوں پر منظم کرتے ہوئے انقلاب کی حکمت عملی ترتیب دے گی وہ فاتح ٹھہرے گی ۔یہ انقلاب افریقی انقلاب کی خاکستر میں ان چنگاریوں کو جنم دے گا جو پورے خطے میں فوجی اور ’’ منتخب جمہوری ‘‘ُ آمروں اور ان کے مغربی آقاؤں کو جلا کر بھسم کر دیں گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کامریڈ مشتاق علی شان مارکس کی ان تعلیمات کو بھولے نہیں جو آج بھی پسماندہ طبقات کیلیے باعث نجات ہیں۔ 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply