بجٹ، حکومتی دعوے اور حقائق۔۔۔ طاہر یاسین طاہر

حکومتوں کے اپنے مسائل، اہداف اور اقدامات ہوتے ہیں، جن پر اپوزیشن جماعتیں ہمیشہ واویلا کرتی ہیں۔ بالخصوص جب بھی کوئی حکومت بجٹ پیش کرتی ہے تو اپوزیشن بجٹ کی کاپیاں اسمبلی میں پھاڑتی ہے، سپیکر کے ڈائس کا گھیرائو کیا جاتا ہے، حکومت مخالف نعرے بازی ہوتی ہے، بجٹ کو عوام دشمن قرار دیا ہے۔ یہ ہماری پارلیمانی سیاست کی روایت ہے۔ اس ساری گہما گہمی میں بجٹ پاس بھی ہو جاتا ہے اور پھر سے کوئی نیا ایشو آن ٹپکتا ہے۔ پاکستان کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ڈالر کی اڑان، کمزور اور معدوم ہوتی معیشت اور سیاسی عدم استحکام ہے۔ خارجہ و داخلہ کے محاذ پر جو مسائل ہیں، وہ اس کے سوا ہیں۔ احتساب اور پکڑ دھکڑ کا جو سلسلہ حکومت نے شروع کیا ہے، اس پر علیحدہ سے سنجیدہ حلقے بحث کر رہے ہیں کہ یہ احتساب کے نام پر ٹارگٹڈ سیاسی انتقام ہو رہا ہے۔ اگر حکومت واقعی احتساب کرنے میں سنجیدہ ہے اور ملک سے کرپشن و لوٹ مار کے کلچر کو ختم کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنے گھر سے پہلے بسم اللہ کرنی چاہیئے۔ کیونکہ اس وقت پی ٹی آئی میں ان لوگوں کی اکثریت ہے، جو نون لیگ اور پیپلز پارٹی سے اڑان بھر کر اپنی سیاسی و معاشی بقا کے لیے پاکستان تحریک انصاف کا حصہ بنے ہیں۔

کیا پرویز خٹک پر اس وقت سے الزامات نہیں ہیں، جب وہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا تھے؟ کیا علیمہ خان اور علیم خان سمیت پی ٹی آئی کے درجن بھر افراد پر نیب کی نگاہیں جمی ہوئی نہیں ہیں؟ کیا وزیر موسمیات نے اپنی حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے بہن کے لیے نیکٹا میں سفارش نہیں کی تھی؟ کیا یہ کرپشن نہیں؟ اگرچہ سوشل میڈیا کے دبائو کے بعد وزیر موسمیات نے اپنا سفارشی خط تو واپس لے لیا، لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی؟ کچھ مثالیں مزید بھی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان جب اپوزیشن میں ہوا کرتے تھے تو پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو جواز بنا کر بھی حکومت کو خوب آڑے ہاتھوں لیتے تھے، مگر اب جب پیٹرول کی قیمت فی لیٹر 114 روپے ہے تو حکومت کے وہ سارے دانشور خاموش ہیں، جنھیں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے پیچھے کرپشن اور لوٹ مار نظر آ رہی تھی۔ بجٹ کیسا آیا اور اس کے اثرات عام آدمی پر کیا پڑیں گے، یہ کوئی راز کی بات نہیں۔ ملکی تاریخ کا یہ ایسا بجٹ ہے جس میں، جتنے فی صد سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھائی گئیں، اتنے ہی فی صد ان کی تنخواہوں پر مزید ٹیکس بھی لگا دیا گیا ہے۔ مثلاً جن کی تنخواہ دس فی صد بڑھی، ان کی تنخواہ پر دس فی صد انکم ٹیکس لگا دیا گیا۔

ریونیو بڑھانا وقت کی ضرورت ہے، مگر اسے یوں نہ بڑھایا جائے کہ غریب آدمی کی زندگی اجیرن کر دی جائے۔ موجودہ حکومت نے آتے ہی گذشتہ حکومت کے پیش کردہ بجٹ پر بھی منی بجٹ پیش کیے تھے۔ یوں اس حکومت کا اولین ہدف ٹیکس اکٹھا کرنا نظر آتا ہے۔ اس کے لیے ایک بار پھر عام آدمی ہی مشقِ ستم بنایا جا رہا ہے۔ موجودہ بجٹ کے حوالے سے اعداد و شمار کے ساتھ اس کے ثمرات و مضمرات پر ماہرین اقتصادیات ہی بات کریں گے۔ اس حوالے سے تین طرح کے ماہرین سامنے آئیں گے۔ ایک وہ جو حکومتی ماہرین معاشیات کی چھوٹی سی ٹیم ہے، دوسرے وہ جو اپوزیشن کے معاشی ماہرین ہیں اور تیسرے وہ ہیں، جو آزادنہ تجزیہ کار ہیں یا مختلف بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ کام کرتے ہیں یا یونیورسٹیز میں معاشیات کی تعلیم دیتے ہیں۔ اگلے چند دن اس حوالے سے خوب بحث و مباحثہ ہوگا۔ میرا مگر سادہ سوال یہ ہے کہ کیا ان تین اقسام کے معاشی ماہرین میں سے کوئی ایک بھی ایسا ہے جو 17500 روپے میں چار سے پانچ افراد پر مشتمل کنبے کا بجٹ بنا سکے۔؟ کوئی ایک بھی ایسا نہیں۔

غریب دیہاڑی دار کے ساتھ اس سے زیادہ بھونڈا مذاق اور کیا ہوگا؟ اور یہ کیا گارنٹی ہے کہ مزدور کو کم از کم اجرت کسی فیکٹری سے 17500 روپے ہی ملے گی؟ کیا حکومت نے اس ایک معاملے کو دیکھنے کے لیے کوئی لائحہ عمل ترتیب دیا ہوا ہے؟ یا پرائیویٹ سیکٹر میں بالخصوص کام کرنے والے مزدوروں کے لیے صنعتی مالکان کو ایک لیٹر جاری کر دیا جائے گا؟ ہوا میں چلنے والے سارے تیز خطا ہی جاتے ہیں، بے شک کوئی ماہر نشانہ باز ہی خلا میں تیز کیوں نہ پھینک رہا ہو۔ موجودہ حکومت بھی گزشتگان کی طرح اس بجٹ کو مثالی بجٹ کہے گی، لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔ ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر معاملے سلجھانا اور تنقید کرنا بڑا سہل ہے۔ عملی طور پر عنان حکومت سنبھالنا پڑ جائے تو حال وہی ہوتا ہے، جو اس وقت موجودہ حکومت کا ہے۔

عام آدمی کے لیے بجٹ کس قدر تکلیف اور پریشانی کا باعث ہے، اس کا اندازہ مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے، جس میں انہوں نے کہا کہ “بجٹ عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتا ہے اور وزیراعظم نے اس بجٹ میں جو ترجیحات طے کی ہیں، وہ آنے والی نسل اور ملک کو آگے لے جانے کے لیے ہیں، تاہم اس میں کچھ کڑوی گولیاں ضروری ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ان کڑوی گولیوں کو “شوگر کوٹڈ” کرکے آپ نگلیں، تاکہ کڑواہٹ محسوس نہ ہو اور آرام ضرور آئے، مجھے امید ہے کہ یہ بجٹ بالآخر آپ کو درد اور تکلیف سے آرام دلانے میں ایسی دوائی کا کام کرے گا، جس کو نگلتے ہوئے کڑواہٹ محسوس ہوگی لیکن بعد میں ہر قسم کی تکلیف سے نجات مل جائے گی۔ فردوس عاشق اعوان کا مزید کہنا تھا کہ یہ گولیاں معیشت کے ساتھ جڑی تکلیفوں کے لیے ہیں۔”

Advertisements
julia rana solicitors

جب حکومتی وزراء بھی یہ تسلیم کرنے لگ جائیں کہ بجٹ کی گولی کڑوی ہے تو پھر یہ تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ بجٹ مہنگائی کا طوفان لائے گا، بیروزگاری بڑھے گی اور سماجی سطح پر ہیجان اور نفسیاتی انتشار عام ہوگا۔ اگرچہ سماج پہلے ہی ان بیماریوں کا شکار ہے، لیکن اس بجٹ کے بعد ہیجان اور فرسٹریشن میں شدت آئے گی۔ عام آدمی کو اس سے سروکار نہیں کہ اگلے چار سال بعد حالات کتنے ٹھیک ہوں گے اور کس قدر دودھ اور شہد کی نہریں جاری ہوں گی۔ عام آدمی کا مسئلہ حال کا ہے کہ وہ اتنی مہنگائی کے ساتھ اپنی زندگی کا رشتہ کیسے استوار رکھ سکتا ہے۔ یہ نہ سکھانے کی کوشش کی جائے کہ اگلے دو سال بعد معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہو جائے گی۔ آپ سے ڈالر تو سنبھل نہیں رہا، معیشت کو کیسے کنٹرول کیا جائے گا؟ زمینی حقائق اس قدر تکلیف دہ اور تلخ ہیں کہ انہیں احاطہ تحریر میں لانا قارئین کو رنجیدہ کرنے کے مترادف ہے۔ حکومت غریبوں پر ٹیکس لگانے کے بجائے امیروں کی طرف رخ کرے۔ کرپشن اور نیب زدگان کو سزا دینی ہے تو پھر ٹارگٹڈ سزا دینے کے بجائے بلا امتیاز و بلا تفریق سب کا احتساب کیا جائے۔ ان کا بھی ہے جن کی فائلیں نیب میں بند ہیں اور وہ خود وزارتوں کے مزے لے رہے ہیں۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply