آج سیاست کو گالی بنا دیا گیا ہے سیاستدان جیلوں میں ڈالے جا رہے ہیں عوام کو اک بار پھر کرپشن کا لولی پاپ دے دیا گیا ہے اور بھولی عوام خوشی خوشی چوس بھی رہی ہے۔
اسی زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ کہا گیا کیس بنائے گئے جیل میں ڈالا گیا جوانی کے نو سال جیل میں بتانے والے زرداری کی زبان تک کاٹی گئی اور زرداری اور کرپشن دونوں کو لازم و ملزوم قرار دے دیا گیا۔
پھر کیا ہوا؟ کچھ ثابت نہیں ہوا۔ عدالتوں نے زرداری کو چھوڑ دیا۔ نواز شریف دوران جلا وطنی فرماتے رہے کہ مجھے اوپر سے حکم ملا تھا کہ زرداری پر کیس بناؤ۔
بے نظیر کی حکومت کو ختم کرایا گیا۔ سابق صدر فاروق لغاری مرحوم نے مالی بے ضابطگیوں کے الزام کے تحت اسمبلیاں توڑ دیں۔ ثابت کچھ نہیں ہوا۔ نواز شریف کو حکومت مل گئی اور پھر پتا چلا کہ یہ الزامات اور منصوبہ کہیں اور تیار ہوا تھا۔ نواز شریف کے والد میاں شریف نے مری والی رہائش گاہ پر فاروق لغاری کو آئندہ ٹرم میں صدر پاکستان بنانے کا وعدہ کیا۔ ‘دادا لوگ’ ضامن تھے۔
پھر مشرف نے نوز شریف کی حکومت کا دھڑن تختہ کیا۔ احتساب کا نعرہ بلند ہوا۔ نیب کا ادارہ بنا۔ ڈیل کے تحت کرپشن کنگ نواز شریف کو باہر بھیج دیا گیا اور احتساب والوں نے ہر اس کرپٹ سیاستدان کو گرین چٹ دینا شروع کر دی جو مشرف کی جھولی میں گرتا گیا۔
پھر این آر او کا دور آیا۔ جو کرپشن کیسز تھے جن کی بنا پر عوام سیاستدانوں کو کرپشن کے شہنشاہ سمجھتی تھی وہ اک جھٹکے میں ختم کر دیے گئے اور تمام کرپٹ سیاستدان حاجی نمازی قرار دے دیے گئے۔
زرداری کی حکومت آئی۔ ڈاکٹر عاصم کو فرنٹ میں قرار دے کر سینکڑوں ارب روپے کی کرپشن کا ڈول ڈالا گیا اور زرداری اینڈ کمپنی کو جی بھر کر کرپٹ کہا گیا۔ اس کے دور حکومت میں افتخار چوہدری نے سموسے تک پر سوموٹو لے کر اک وزیر اعظم کو گھر بھیجا۔ اک کو راجا رینٹل کا خطاب ملا۔ کبھی میمو گیٹ تو کبھی سوئس حکومت کے خط کو لے کر جی بھر کر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ اس دوران نواز شریف فرشتہ قرار دیے گئے اور عوام کو تاثر دیا گیا کہ نواز شریف جیسے تجربہ کار لیڈر کی تجربہ کار ٹیم ملک کو خوشحالی کے رستے پر ڈال سکتی ہے۔ نواز کو حکومت مل گئی۔
پھر اچانک عوام کو پتا چلا کہ نواز تو کرپٹ ہے۔ اسحاق ڈار ٹیکنیکل کرپشن کے وہ وہ طریقے جانتے ہیں کہ یہ کرپشن سکھانے کی اکیڈمی کھول سکتے ہیں۔ حکومت کی تشکیل کے ساتھ ہی عمران خان نے دھاندلی اور پینتیس پنکچر کا شور ڈال دیا۔ حکومت کو سال بھر ہوا تھا پانامہ کا شور ہوا اور آفشور کمپنیز جرم قرار دے کر دھرنا و کنٹینر سیاست کا آغاز ہوا۔ اس حکومت کو بھی سکون سے حکومت نہیں کرنے دی گئی۔
ادھر ہمسایہ بھارت میں رافیل طیارہ میں کک بیکس و کرپشن کیس کو عالمی شہرت ملی۔ کیس بھارت کی عدالت میں گیا تو عدالت نے پارلیمنٹ بھیج دیا کہ وہاں نپٹائیں۔ ہمارے ہاں پانامہ کیس عدالت میں گیا۔ انہوں نے ن لیگ کو سسلین مافیا اور نواز شریف کو گاڈ فادر قرار دے دیا۔
حالانکہ بعد میں عمران خان کی بھی آفشور کمپنیز نکل آئیں لیکن کیونکہ ڈائریکٹر خان کو آئیڈیل بنانا چاہ رہے تھے اس لیے نواز شریف کی آفشور کمپنیز کرپشن کا ثبوت ٹھہریں اور عمران خان کی آفشور کمپنیز عین قانون کے مطابق۔ مریم نواز کی “جائدادیں” کرپشن کی سند قرار دے دی گئیں جبکہ علیمہ خان کی جائداد سلائی مشین کے کاروبار کا منافع۔
پہلے نواز شریف اندر گئے اب زرداری صاحب بھی جیل پدھار چکے ہیں۔ کیس ہے رکشے اور فالودے والوں کے بے نامی اکاؤنٹس کی ٹرانزکشن کا۔ سندھ میں حکومت کرنے والے زرداری صاحب سیٹھ عابد کی طرح سمندر میں لانچوں کے ذریعے یہ کام کر سکتے تھے مگر ان کو پاگل کتے نے کاٹا اور ان کو پیسے کے ٹرانسفر کے لیے کبھی ایان علی کی ضرورت پڑی تو کبھی فالودے والے کے اکاونٹس کی۔ ہاں کے پی کے میں جو پچاس سے زائد بے نامی اکاؤنٹس ڈھونڈے گئے ان پر گرد پڑ گئی۔ ان اکاؤنٹس سے کون کالا دھن سفید کرتا تھا اس بات کی تحقیقات میں نہ وقت ضائع کیا گیا نہ ہی کوئی کیس بنا نہ ہی میڈیا نے ٹرائیل کرنے کی کوشش کی۔ معلوم نہیں کیوں۔
حفیظ شیخ، فردوس عاشق اعوان، شوکت بصرہ، فواد چودھری، ندیم چن جب پیپلز پارٹی کی حکومت میں تھے تب حکومت کرپٹ تھی۔ آج وہ انصاف لانڈری سروس سے دھل کر صاف شفاف ہو چکے ہیں۔ عمر ایوب خان، چودھری سرور، خسرو بختیار سمیت ن لیگی انصافی جب ن لیگ میں تھے تو حکومت کا ہر ایم پی اے ایم این اے کرپٹ تھا آج تحریک انصاف میں سب اچھا ہے۔
حج کرپشن کیس کے اعظم سواتی، شوگر کنگ جہانگیر ترین، قبضہ مافیا علیم خان، گدی نشین شاہ محمود قریشی، ٹوکہ کیس خسرو بختیار اور نوادرات کیس والے پرویز خٹک سمیت ہر انصافی پاک صاف ہے۔ مندرجہ بالا تمام سیاستدان جب اپنی پارٹیوں کو چھوڑ کر آئے تو نظریاتی کہلائے۔ تحریک انصاف کو چھوڑنے والے جاوید ہاشمی باغی سے داغی ہو گئے۔ عائشہ گلالئی اور ناز بلوچ کسی کام کی نہیں تھیں قرار پائیں۔
اک اور بات ساری کرپشن جمہوری دور میں ہوتی ہے۔ چالیس سال سے زیادہ آمریت زدہ دور میں کرپشن کا نام و نشان مٹ گیا تھا اور ملک میں دودھ اور شہر کی نہریں بہہ رہی تھیں۔
نوٹ : اعتراض احتساب سے نہیں سلیکٹڈ احتساب سے ہے۔ اگلے مرحلے میں صولت مرزا، غلام رسول چھوٹو، عزیر بلوچ، ڈاکٹر عاصم کے اعترافی بیانات کے حاصل وصول پہ بات ہو گی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں