دوسرا رُخ۔۔۔سرفراز قمر

دس ماہ پہلے اختر مینگل صاحب نے حکومت سے اتحاد کرتے ہوئے چھ  نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ دیا تھا۔جس میں بلوچ مسنگ پرسنز کو منظر عام پر لانے سے لے کر بلوچوں کے حقوق وغیرہ شامل تھے۔مزے کی بات ان چھ میں سے ایک نکتہ پر بھی صحیح معنی میں عملدرآمد نہیں ہوا اور مینگل صاحب پورے دس ماہ سے مسنگ پرسن اور بلوچوں کے حقوق فلانا ڈھمکانا۔۔۔۔لگے ہوئے تھے۔اپنی ہی اتحادی حکومت پر تنقید کرتے تھے۔اتحاد سے الگ ہونے کی دھمکیاں اور بجٹ میں ساتھ نہ دینے کی باتیں سامنے آ رہی تھیں۔

اب جبکہ بجٹ منظوری کے وقت ان کا اہم کردار تھا۔یہی وقت تھا جب وہ مقتدر حلقوں سے اپنی قوم کے لیے بہت کچھ منوا سکتے تھے ۔موصوف ایک بار پھر لم  لیٹ ہو چکے ہیں۔وہ بلوچ مسنگ پرسنز وغیرہ وغیرہ سب پس منظر  میں چلا گیا ہے۔دو ماہ بعد پھر یہی مینگل صاحب ہوں گے اور وہی پرانا بے سرا مسنگ پرسنز وغیرہ والا راگ الاپ رہے ہوں گے۔۔

اس سارے منظر نامہ میں ایک چیز جو سمجھ آتی ہے وہ ان  مبینہ نیشنلسٹ لیڈرز کا دہرا رویہ ہے۔ان کی زبان پر کچھ اور ہوتا ہے اور گراؤنڈ پر یہ الگ انداز میں سیاست کرتے ہیں۔یہ ڈکٹیٹرز کی گود میں بیٹھ کر مفاد بھی حاصل کرنا جانتے ہیں اور جمہوری حکومتوں میں بھی اپنا حصہ اچھے سے وصولتے ہیں۔پنجاب اور پنجابیوں کو الگ سے طعنے دیتے ہیں ۔پیچھے وہی پسا ہوا طبقہ رہ جاتا ہے۔جن کو جب کچھ ہوتا نظر نہیں آتا تو وہ اللہ نذر،مہران مری اور منظور پشتین والا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ریاست سے بغاوت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔پھر ریاست ان سے نالاں نظر آتی ہے اور وہ ریاست کی ناک میں دم کر دیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر یہ قوم پرست لیڈر اپنی قوم کے لیے کچھ حاصل نہیں کر سکتے تو پھر ان کو سیاست کا بھی کوئی حق حاصل نہیں ہے۔اس ٹائم مینگل صاحب بہت کچھ منوا سکتے تھے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ قوم پرست لیڈر اپنی قوم کے حقوق کی بات بھی محض اپنی سیاست چمکانے اور طاقتور حلقوں میں جگہ بنانے کے لیے کرتے ہیں۔ان کو قوم کا کوئی خاص درد ورد نہیں ہے۔ان فیوڈل لارڈز کو  طاقت  چاہیے جو انہیں مل جاتی ہے۔رہی عام عوام تو وہ پچھلے ستر سال سے فریب کا شکار ہیں۔کوئی فوجی حکومت کے نام پر ، کوئی جمہوریت کے نام پر فریب دکھائی دیتا ہے تو کوئی قوم پرستی کے نام پر۔۔

Facebook Comments

سرفراز قمر
زندگی تو ہی بتا کتنا سفر باقی ہے.............

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply