یہ چھپے چھپے ارادے ۔۔۔۔ قاسم سید

سیاست کے نام پر مفادات کی گھیرابندی اعتماد کا بحران پیدا کرتی ہے اور جب مزاجوں میں سفاکیت کی حد کو پہنچی شدت ہو تو یہ بحران اپنا دائرہ وسیع کرلیتا ہے۔ حب الوطنی کے بارے میں عام خیال ہے کہ یہ فسطائیت کا پہلا جامہ ہے، کیونکہ حب الوطنی ایسا ہاتھی ہے جو اندھوں کی بستی میں اپنی ہیئت کے بارے میں نئے نئے انکشافات سے دوچار ہے۔ اس کا دائرہ لامحدود ہوتا جارہا ہے اور کوئی بھی شخص پل بھر میں غدار وطن یا باغی قرار دے دیا جاتا ہے۔

بی جے پی سرکار کے برسراقتدار آنے کے بعد اس حکمت عملی پر جنگی پیمانے پر کام کیا جارہا ہے۔ بالکل جارج ڈبلیو بش کی طرز پر کہ جو ہمارے ساتھ نہیں وہ ہمارا دشمن ہے۔ نائن الیون کے بعد اپنائی جانے والی سیاست نے نئے دشمن اور دوست تخلیق کئے، اس میں ہاں یا نا کے علاوہ جواب دینے کا تیسرا آپشن نہیں ہوتا۔ جس طرح آج ہمارے ٹی وی اینکر اپنے مہمانوں سے سوال پوچھتے وقت صرف ہاں سننے کے عادی ہیں، مثلاً سرجیکل اسٹرائیک کو آپ ٹھیک مانتے ہیں؟ اگر ہاں کہا تو آپ کو حب الوطن ہونے کا سرٹیفکیٹ فوراً مل جائے گا اور تردد کرنے یا وضاحت کی خواہش رکھنے پر آپ کی حب الوطنی کا ڈی این اے مشکوک۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر راہل گاندھی کی ہندوستانیت اور اروند کیجریوال کی ولدیت پر سوالیہ نشان لگانے سے پہلے اس پر سوچا جاتا۔ یہ طرز عمل سیاست دانوں اور ان کے حامیوں کو بہت سوٹ کرتا ہے۔

آج کل سرجیکل اسٹرائیک کی حمایت حب الوطنی کا پیمانہ بن گئی ہے۔ معروف صحافی پریہ درشن کے بقول فوج کے پیشہ ورانہ رویہ اور حب الوطنی کی تعریف کے نام پر ملٹری ازم کی حوصلہ افزائی ہمارے سیاسی فیصلوں کے اندر دخل اندازی کرتی نظر آئے تو یہ بہت خطرناک رجحان ہے۔ اس سے سیاسی پارٹیوں کی ناقدری اور فوج سپریم ہوگئی ہے۔ ایک فوجی افسر کو سیاسی اعلان کی کمان سونپ کر اس کا آغاز کردیا گیا ہے۔ جمہوریت کو ملٹری ازم کی طرف لے جانے والی سیاست ان پارٹیوں کو زیادہ راس آئی ہے جو اپنے ساتھ ایک فاشسٹ ایجنڈہ لے کر چلتے ہیں، یعنی اب مقدس گایوں کی فہرست میں فوج بھی شامل ہوگئی ہے، جس کی کارکردگی پر انگلی اٹھانا اس پر تنقید ، اس کے رویہ پر سوال اور غیرقانونی سرگرمیوں پر نکتہ چینی کے ڈانڈے حب الوطنی سے جاکر مل جاتے ہیں۔

اسے ہم بی جے پی قیادت کی ذہانت کہہ سکتے ہیں کہ جب بھی وہ مسائل سے گھری نظر آتی ہے تو خود کو کسی مقدس چادر میں لپیٹ لیتی ہے تاکہ داغ ڈھونڈتے رہ جائیں۔ پہلے اس نے رام کا سہارا لیا، ظاہر ہے مریادا پرشوتم رام پر کچھ کہنے کی جسارت کون کرسکتا ہے اور اب اپنی ناکامیاں فوج کی آڑ لے کر چھپالی گئی ہیں۔ ایسے یودھا کے خلاف مورچہ لگانا جس نے دیرینہ دشمن سے لوہا لیا اسے سرحد میں گھس کر مارا، دہشت گردی کے ٹھکانے تباہ کردیے اور وہ کام کردکھایا جو 60 برسوں میں کسی نے نہیں کیا، اس پر سوالیہ نشان لگانے کا مطلب آپ کی حب الوطنی معیار مطلوب تک نہیں پہنچی اور ڈی این اے میں کوئی کھوٹ ہے۔ یعنی اب بی جے پی کی مخالفت کا مطلب فوج کی مخالفت اور فوج کی مخالفت کا مطلب آپ غدار وطن ہیں اور آپ کے اندر ملک سے بغاوت کے وائرس پائے جاتے ہیں۔

کھلے عام کہا جارہا ہے کہ سرجیکل اسٹرائیک پر سوال اٹھانا غداری کے مترادف ہے۔ اب کوئی افسپا کی معقولیت پر سوال نہیں اٹھا سکتا۔ کوئی ایلاشیروم افسپا کے خلاف دھرنے پر دسیوں سال نہیں بیٹھ سکتی۔ اس کے انکائونٹروں کی طویل فہرست جواب طلب نہیں۔ ابھی سپریم کورٹ کو بخش دیا گیا ہے جس نے گزشتہ جون میں ہی فوج کی طرف سے کئے گئے ایک ہزار سے زائد انکائونٹروں کی تحقیقات کا حکم دیا ہے، حالانکہ اس کو زنجیر بھی پہنانے کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔ ججوں کے انتخاب میں کالجیم کی جگہ دوسرا طریقۂ کار نافذ کیا گیا جسے سپریم کورٹ نے مسترد کردیا۔

محاذ آرائی جاری ہے، سرد جنگ شباب پر ہے، آئینی اداروں کو کمزور کرنے کی حکمت عملی پر کہیں جارحانہ تو کہیں حکیمانہ طریقہ استعمال کرنے کے اشارے ہلکان کرنے کے لئے کافی ہیں۔ جمہوریت کا دائرہ سکڑتا جارہا ہے، جارحانہ قوم پرستی کا آخری پڑائو فاشزم ہوتا ہے۔ 1925 سے جن مقاصد اور عزائم کے تحت مختلف محاذوں پر سرگرمیاں خاموشی کے ساتھ اثر و نفوذ میں اضافہ کررہی تھیں اب وہ زمین کے اوپر دکھائی دینے لگی ہیں۔ انھیں قانونی حیثیت دی جارہی ہے۔

2025میں سنگھ کا جشن صد سالہ منایا جائے گا۔ بی جے پی بھی عوام سے 2025 تک کا وقت مانگ رہی ہے، اس کا روڈ میپ تیار ہے۔ ہم کتنی بھی خوش فہمی میں رہیں، بھارت کے آئین کی بنیاد بہت مضبوط ہے۔ اسے بدلا نہیں جاسکتا، وہ ناقابل دست اندازی سیاست ہے۔ سیکولرازم کی جڑیں بہت گہری ہیں، ہندوستانی عوام کی اکثریت انصاف پسند جمہوریت نواز ہے، اس کے مزاج میں فسطائیت نہیں بلکہ رواداری ہے، وہ مل جل کر رہنا پسند کرتی ہے، ہزاروں سال پرانی گنگا جمنی تہذیب کا دھارا موڑا نہیں جاسکتا۔ اس کے خمیر میں سیکولر روح شامل ہے۔ یہ جملے ذہنی تلذذ میں اضافہ کرتے ہیں، افیم کا سا نشہ پیدا کردیتے ہیں اور سرشاری کی کیفیت میں ڈھال دیتے ہیں، مگر ہم یہ سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ ملک بدل رہا ہے، اس کی قدروں میں تبدیلی آرہی ہے۔ غیرمحسوس طریقہ سے اکثریت کو بزدلی کا طعنہ دے کر اسے ’بہادر‘ بننے کی ترغیب دی جارہی ہے۔ یہ ٹی وی چینلوں پر ہندو یودھائوں کے طویل سیریل بچوں کے ذہن کی کن خطوط پر نشوونما کررہے ہیں، یہ رامائن اور مہابھارت کے پاٹھ کس سمت میں لے جارہے ہیں، یہ شیواجی، مہارانا پرتاپ سنگھ، ہنومان جی وغیرہ کے نام پر انتہائی مربوط انداز میں پیش کئے جانے والے ڈیلی سوپ کیا ہیں، یہ تہواروں کے موقع پر نیوز چینلوں پر باضابطہ تقاریب کے لائیو مناظر کس سمت کی طرف اشارہ کرتے ہیں، شاید کبھی سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی۔

یلغار صرف سیاسی نہیں ثقافتی و تہذیبی محاذ پر بھی ہے اور ہم پسپائی کے موڈ میں آگئے ہیں۔ یہ محاورہ اب پرانا ہوگیا ہے کہ ہر سر کے لئے ایک ٹوپی نہیں ہوسکتی۔ بی جے پی کا ساتھ صرف آر ایس ایس نہیں دیتی، ہر سیکولر پارٹی نے اس کے لئے میدان ہموار کیا ہے اور اسے سنگھاسن تک پہنچنے میں مدد کی ہے۔ یہ بڑے بڑے ہندو مہا رتھی اپدیشک جو قومی یکجہتی کانفرنسوں میں ہندو انتہاپسندوں کو برا بھلا کہتے ہیں اور اسلام کے گیت گاکر ہمارے جذبات پر شبنم کی پھوار برساتے ہیں، ان کے ایک ایک ہفتہ تک چلنے والے جاگرن میں ہندو تاریخ و ثقافت کے دیوی دیوتائوں کی حقانیت و تعلیمات بیان ہوتی ہیں۔ یہ کس کو بے وقوف بنارہے ہیں بلکہ ہم بے وقوف بن رہے ہیں۔

آنے والے وقت کے لئے فوج کا کردار سیٹ کیا جارہا ہے۔ پوتر گائے کے طور پر پیش کئے جانے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، پھر اس پر تنقید حرام قرار دی جائے گی۔ سرجیکل اسٹرائیک کے بعد کی سیاست اس کا ثبوت ہے، پھر اس کی ہر کارروائی کو سند جواز بلکہ دیش بھکتی سمجھا جائے گا، خواہ شمالی مشرقی ریاستوں میں فوج کی زیادتیاں ہوں یا کشمیر میں عوام کے خلاف کارروائیاں، لوگ بولنے اور کہنے سے ڈریں گے بلکہ فوج پر انگلی اٹھانا غداری و بغاوت سے تعبیر کیا جائے گا، جیسا کہ سینئر لیڈروں کی طرف سے کہا بھی جانے لگا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ممکن ہے کہ آنے والے وقت میں سیاست کے اندر فوج کا کوئی کردار متعین کئے جانے پر غور ہو۔ اب ملک جس طرح سے چل رہا ہے، کچھ بھی ممکن ہے۔ اب تک ہندوستانی سیاسی قیادت فوج کو کنٹرول کرتی تھی، اب سیاسی قیادت فوج کی پناہ ڈھونڈتی پھررہی ہے۔ اگر فوج بھی سیاست زدہ کردی گئی یا اس کا سیاسی استعمال کیا جانے لگے تو اس کے سنگین اثرات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply