ہیبت خان بمقابلہ نازو بیگم ۔۔۔۔ تنویر عارف

 ابھی گئے دنوں کی بات ہے ضلع خداداد میں ملک ہیبت خان کے نام سے ایک طاقتور جاگیردار ہوا کرتا تھا، جو خاصا اسم بامسمی بھی تھا۔ اس کی دہشت ضلع سے نکل کر کوسوں دور تک پھیلی ہوئی تھی اور دوسرے بڑے جاگیردار اور وڈیرے اس سے کنی کتراتے تھے کیونکہ مشہور تھا کہ ہیبت خان اپنے انتہائی تربیت یافتہ غنڈے بھیج کر دوسرے جاگیردار کے گاؤں میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کروادیتا اور پکڑا بھی نہیں جاتا۔ ملک ہیبت خان کا زیادہ تر وقت سیاست، غنڈہ گردی، کھانے پینے اور اپنی طاقت کو بڑھانے کے لئے اقدامات میں گزرتا تھا نیز اسے جاگیر کے انتظامی امور کا کوئی سلیقہ بھی نہیں تھا۔

ہیبت خان کا باپ ملک قوت خان، جو جاگیرداری سے ریٹائر ہوکر آرام و عیش کی زندگی گزار رہا تھا، نے ہیبت خان کی شادی ایک کاروباری گھرانے کی پڑھی لکھی سگھڑ اور عقلمند بیٹی نازو بیگم سے کروادی اور رسم و رواج اور جاگیر کے قانون کے مطابق حویلی کی چابیاں اور جاگیر کا انتظام اپنی اہلیہ سے لیکر بہو کے حوالے کردیا۔ ملک قوت خان نے منادی کرادی تھی کہ نازو بیگم ہی جاگیر کے انتظامی امور کی ذمہ دار ہے۔ بظاہر حویلی اور جاگیر کا انتظام نازو بیگم کے حوالے تھا مگر وہ ملک ہیبت کی مرضی کے بغیر حویلی کا فرنیچر بھی ادھر سے ادھر نہ کرسکتی تھی اور نہ ہی جاگیر کے کسی بڑے معاملے میں اسے مداخلت کی اجازت تھی۔ وہ ملک کی چوپال تک میں قدم نہیں رکھ سکتی تھی۔ تاھم وہ محدود اختیارات کے باوجود جاگیر اور حویلی کا نظام جیسے تیسے چلا رہی تھی۔

اور پھر جیسا ہوتا ہے، بڑی بڑی مونچھوں والے ہیبت خان کو، اپنی خود مختار طاقت میں نازو بیگم کی یہ نام نہاد اور دکھاوے کی معمولی سی شراکت بھی پسند نہیں آتی تھی، اس نے پہلے دن سے ہی بیوی کو جوتے کی نوک پر رکھا ہوا تھا۔ وہ نوکروں اور نوکرانیوں کی موجودگی میں اسے بلاوجہ ڈانٹتا، پھٹکارتا اور کبھی کبھی اپنے لاڈلے نوکروں کو بہانے سے بیڈ روم میں بلواکر، بیوی کو ایک آدھ تھپڑ بھی جڑدیتا۔ یہ وفادار نوکر دوڑے ہوئے گاؤں کی چوپال میں جاتے اور حویلی کی بہو بیگم کو پیٹنے کا واقعہ نمک مرچ لگا کر سناتے، نازو بیگم پڑھی لکھی تھی مگر یہ سب اس لئے برداشت کر رہی تھی کہ اسے اپنے میکے اور سسرال، دونوں کی رسوائی کا خیال تھا۔ پھر ملک ہیبت نے بیگم سے لڑ جھگڑ کر، کہ وہ حویلی کو انتظام ڈھنگ سے نہیں کر رہی، اس سے تجوریوں، باہر کے گیٹ اور دوسری اہم چابیاں بھی ہتھیالیں، اب بیگم کے پاس اختیارات نہ ہونے کے برابر تھے، مگر حویلی میں ہونے والی ہر بد انتظامی کی ذمہ داری بیگم کے منڈھ دی جاتی۔

مگر ملک ہیبت خان کو برادری اور سماج اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے تھے اور یہ بات اسے بہت کھٹکتی تھی، انکا کسی بھی پڑوسی زمیندار یا جاگیردار سے جھگڑا ہوتا اور بھلے قصور ملک لوگوں کا نہ بھی ہوتا، پر ان ہی پر انگلیاں اٹھتی تھیں، نتیجتا وہ ضلع کونسل اور یونین کونسلوں کے الیکشن ہارتے جارہے تھے اور جاگیردار برادری بھی انکو تقریبات میں نہ بلا کر انکی تذلیل کئے جارہی تھی، اسی طرح انکے گاؤں کے بیشتر پڑھے لکھے لوگ ان سے ڈرتے ضرور تھے مگر ان سے نفرت کرتے تھے۔

نازو بیگم نے یہ بات ملک ہیبت کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ملک کا خاندان سماج میں الگ تھلگ ہوتا جارہا ہے، لہذا ملک کو اپنے طرز و عمل کے ذریعے حالات کو سدھارنا چاہیے اور پاس پڑوس کے جاگیرداروں اور سرداروں کا اعتماد جیتنا چاہیے۔ وہ اسے سمجھاتی کہ لوگ اسے محض ایک غنڈہ ہی سمجھتے ہیں، اسی وجہ سے وہ متواتر الیکشن بھی ہار رہے ہیں اور اسکو سینیٹ کی سیٹ بھی نہیں مل پائی۔

ان ناکامیوں سے ملک ہیبت اکثر چڑچڑا رہنے لگ گیا تھا اور ہر ناگوار بات پر بیگم پر برستا رہتا تھا۔ دریں اثنا آس پڑوس کے زمینداروں، جاگیرداروں اور سرداروں نے ملک ہیبت کی غنڈہ گردی کے خلاف ایک عوامی رابطے کا محاذ کھو ل لیا اور پریس کانفرنسوں کے ذریعے عوام کو آگاہ کرنا شروع کردیا کہ ملک ہیبت نے خطرناک کرائے کے غنڈے پالے ہوئے ہیں جو دوسرے گاؤں میں جاکر قتل و غارت گری کرتے ہیں۔ انہوں نے ان غنڈوں کی تصاویر بھی جاری کر دیں جن کے مطابق یہ خطرناک غنڈے ملک ہیبت کے چوپال پر بیٹھے اسکے ہمراہ دودھ، لسی وغیرہ پیتے، اور مونچھوں کو تاؤ دیتے دکھائی دیتے تھے۔ اب ہر طرف ملک کے سماجی بائیکاٹ کرنے پر اتفاق رائے بڑھتا جارہا تھا۔

ضلع کے معززین کی ان شکایتوں پر ڈی سی او نے ان غنڈوں کہ سر پر بھاری انعام مقرر کیا اور ملک ہیبت کو پیغام بھجوایا کہ وہ ان غنڈوں کو قانون کے حوالے کردے یا کم از کم ان کی آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی لگائے مگر ملک نے حقارت سے ڈی سی کے اس پیغام کو ٹھکرادیا اور اپنی روش پہ چلتا ریا۔ آہستہ آہستہ ملک کے حمایتیوں کی تعداد میں کمی اورمخالفین میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔

ان حالات سے گاؤں والے بھی تنگ تھے کیونکہ اب ان کے گاؤں میں کوئی بھی تجارت کے لئے آنے کو تیار نہ تھا۔ دوسرے ضلعوں کے اساتذہ، داکٹروں اور افسران نے وہاں پوسٹنگ سے انکار کردیا تھا اور لوگوں میں ملک کے خلاف شورش اور چہ مگوئیاں شروع ہوچکی تھیں۔ لوگ سمجھ رہے تھے کہ ملک کا متکبرانہ رویہ ہی اس سماجی بائیکاٹ کا ذمہ دار ہے اور بظاہر نازو بیگم کو ناکام کرنے کے لئے اس طرح کا رویہ اپنایا ہوا ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ ملک ہیبت کو نازو بیگم سے کوئی ڈر تھا یا وہ اسے طلاق دیکر انتظامی امور سے بذریعہ طاقت ہٹا نہیں سکتا تھا، مگر اسے بخوبی اندازہ تھا کہ اس طرح نہ صرف جاگیردار برادری مین اسکی ناک کٹ جانی ہے، بلکہ وہ اپنے ہی عوام اور سماج کی نطروں میں گر جاتا اور پھر اگلی بار اس کا وزیر یا سینٹر بننا مشکل ہوجاتا۔

جاگیر میں بد انتظامی عروج پر پہنچ گئی، ملک کے پالتو غنڈے جاگیر کے اندر غنڈہ گردی کرتے، لوگوں کو قتل کرتے اور انکی املاک لوٹ لیتے، شکایتیں، نازو بیگم تک پہنچتی ضرور تھیں مگر وہ ملک ہببت کی ہیبت سے کچھ نہیں کر پارہی تھی، اس نے چند غنڈوں کو پولیس کے حوالے کرنے کی خفیہ کوشش بھی کی مگر ملک ہیبت نے مداخلت کرکے انہیں چھڑوالیا۔

اس مسلے پر ایک مرتبہ پھر ہیبت خان لال پیلا ہوگیا اور اس نے نازو کو ڈانٹنے اور مارنے پیٹنے کے لیے اپنے بیڈ روم میں طلب کیا تاہم اس مرتبہ نازو نے ملک کی زیادتیوں کے خلاف ڈٹ جانے کا فیصلہ کرلیا اور زندگی میں پہلی بار اس نے ملک کو کھری کھری سنائیں کہ اس کی بدمعاشیوں کی وجہ سے جاگیر کے حالات انتہائی مخدوش ہیں اور وہ جاگیرداری کے انتظام و انصرام میں کلی طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ نازو بیگم کی اس دلیری پر ہیبت خان ہکا بکا رہ گیا اور اس کا اٹھا ہوا ہاتھ ہوا میں ہی جم کر رہ گیا۔ اسے یقین ہی نہیں ہورہا تھا کہ اس کی زوجہ نازو بیگم نے اس کے سامنے پہلی بار زبان کھولی ہے۔

شومئی قسمت سے کسی نوکر نے اس جھگڑے کو دیکھ لیا اور بازار میں جاکر لوگوں کو بتا دیا کہ حویلی میں کیا ہوا۔ اس کا عوام میں ملا جلا رد عمل دیکھنے میں آیا۔ کافی لوگ نازو بیگم کی جرات سے خوش تھے، مگر ہیبت خان اس بات کے حویلی سے باہر جانے پر غضب ناک ہوگیا اور اسنے اس نوکر کو تلاش کرکے اسے بھیانک سزا دینے کا فیصلہ۔

کہانی کی تہیں ابھی کھل رہی ہیں، ملک ہیبت خان کو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا احساس بلکل نہیں تھا اور وہ نازو اور اس نوکر کو نشان عبرت بنادینا چاہتا ہے، ملک کے حواری بغلیں بجاتے پھر رہے ہیں کہ نازو کو اب طلاق ہوئی کہ اب ہوئی اور سنا ہے ملک نے اپنے غنڈوں کو حویلی کا گھیراؤ کرنے کا خفیہ حکم دیا ہوا ہے تاکہ اس بہانے وہ نازو بیگم کو طلاق دیکر ٹھکانے لگا سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(اس کہانی کے سارے کردار اور واقعات فرضی ہیں اور یہ ایک کہانی ہے، کسی قسم کی مماثلت قاری کے اپنے ذہن کی پیداوار ہوگی اور ادارہ اسکا ذمہ دار نہیں ہوگا)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ہیبت خان بمقابلہ نازو بیگم ۔۔۔۔ تنویر عارف

  1. اس کہانی کا کوئی کردار فرضی نہیں ہے، دوسرے یہ کہ ذمہ داری بحر حال ادارے کی ہے، جہاں تک نازو بیگم کا تعلق ہے تو یہ خیال رہے کہ نازو بیگم بهی کوئی رضیہ نہیں ہے جو خود کو غنڈوں میں پهنسا محسوس کرے، نازو بیگم وہ نازو بیگم ہے جو اس سے پہلے کئی ہیبت خان بهگتا چکی ہے، (آپ کے قہقہے کی آواز یہاں تک آ رہی ) لہذا یہ بات طے ہے کہ ایک مرتبہ پهر سہی جب ہیبت خان نے اپنی ہیبت کو خاک میں ملانے کا خود ہی فیصلہ کر لیا ہه تو ہم آپ کیا کر سکتے ہیں.
    لیکن یاد رہے کہ نازو بیگم کو بهی ساری جاگیر یا پنڈ کی عوام کی خدمت دل و جان سے کرنی ہے تاکہ اپنے سے ملتی جلتی برادر اسلامی جاگیر میں کچهہ دنوں پہلے ہیبت خان سے ملتے جلتے خان اوف اس کے حواریوں کی ہونے والی پٹائی یہاں بهی ہو سکے نہیں تو پنڈ دوبارہ مٹهائی بانٹے گا……..

Leave a Reply to Mahmood Anjum Cancel reply