• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • یوسفی کی پیش دستی اور سراپا نازوں کا دَھول دَھپـا ۔۔۔ حافظ صفوان محمد چوہان

یوسفی کی پیش دستی اور سراپا نازوں کا دَھول دَھپـا ۔۔۔ حافظ صفوان محمد چوہان

ابھی تک کوئی ایسی تکڑی ایجاد نہیں ہوئی جس کے تین پلڑے ہوں کہ اگر تین چیزوں کو برابر تولنا ہو تو انھیں بیک وقت ایک ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے۔ آج ایک ایسی صورتِ حال کا سامنا ہے کہ اردو کے تین بڑے مزاح نگاروں پطرس، ابنِ انشاء اور یوسفی کو برابر تولنا دوست داری کا نہ صرف تقاضہ ہے بلکہ سب سے بڑے مزاح نگار کو وزن میں ذرا سا اٹھتا دکھانا بھی منشائے غالب ہے۔ بڑی دیر اس بندر بانٹ میں سر مارا کہ رانجھگان بھی راضی رہیں اور مزاح کے فنکاروں کو بھی خفت کا سامنا نہ ہو لیکن یہ بانٹ چونٹ نہیں ہو پا رہی۔ اس لیے بامرِ مجبوری حق گوئی پر اتر رہا ہوں اور اس پر معافی چاہتا ہوں۔ دوستوں سے درخواست ہے کہ یہ تحریر نہ پڑھیں کہ ان کی دلآزاری نہیں دلآسائی مطلوب ہے۔ نیز رانا اظہر کمال اور سلمان سعد خاں کی الگ الگ عنایت کردہ “شامِ شعر یاراں” کے دو نسخے بھی کب کے آئے رکھے ہیں۔ سوچا کہ اسی موقع پر اس کتاب پر تبصرے کی واردات ڈال دوں کیونکہ بقول ابا جان عابد صدیق مرحوم، میں وارداتیا ہوں۔ چنانچہ ذیل کی سطور میں تینوں مزاح نگاروں کے موازنے اور کتاب پر تبصرے کو ہموزن کھرل کیا جا رہا ہے۔ گر قبول (نہ بھی) افتد (میں کیڑھا رک جاناں)۔۔۔ ح ص م

زمانی ترتیب کے اعتبار سے پطرس، ابنِ انشاء اور یوسفی اردو کے بڑے طنز و مزاح نگار ہیں جن میں سے یوسفی کا اسلوب نسبۃً چرپرے طنز والا ہے. یہ تینوں پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ ہاں، پطرس اور ابنِ انشاء صرف پڑھے لکھے ہیں، یوسفی کی طرح باقاعدہ ایک فنی شعبے (بینکاری) کے ماہر یعنی یک فنے (Master of one) نہیں ہیں. نیز یہ دونوں اگرچہ یوسفی کی طرح (گو مقدار میں بہت کم) انگریزی ادب کا مطالعہ رکھتے ہیں تاہم ان میں یوسفی جتنا اردو ادب کا رساؤ اور رچاؤ نہیں ہے اور نہ یوسفی جیسا اپنے علاقائی ثقافتی مناظر و مصادر کا ذکر مذکور. قدیم رومن ادب سے معاصر انگریزی ادب تک جیسی گیرائی یوسفی کو حاصل ہے اس کا پتہ بھی ہر دو حضرات میں نہیں ملتا۔ اسی مطالعے کا ثمر ہے کہ یوسفی کے ہاں موضوعات کی جتنی وسعت ہے وہ اردو کے کسی بھی مزاح نگار کے ہاں نہیں ملتی۔ تِس پر مستزاد یوسفی کا عملی زندگی کا وسیع تکنیکی و انتظامی تجربہ ہے. یہ تینوں مزاح نگار حیلہ معاش کے لیے سرکاری ملازم رہے تاہم عملی تجربے میں ابنِ انشاء نسبۃً سب سے کم درجے کی ملازمت میں رہے جب کہ پطرس شعبہ تدریس اور ریڈیو سے منسلک رہنے کے بعد ایک عالمی ادارے یعنی اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کے لیے گئے، اور یوسفی ایک ملکی بینک کے سربراہ رہے اور پھر ایک عالمی بینک میں گئے. پطرس اپنا مزاح عالمی ادارے میں جانے سے بہت پہلے لکھ چکے تھے۔ زود نویس ابنِ انشاء کو سرکاری طور پر چند ملکوں کا دورہ کرایا گیا اور وہ ساتھ ساتھ مزاح لکھتے رہے۔ یوسفی نے دنیا گھومتے پھرتے ہوئے دادِ فن دی مگر گنڈے دار؛ ان کی کتابیں سالہا کے وقفوں سے سامنے آئیں. چنانچہ ان تینوں لوگوں کے لکھے مزاح میں ان کا دو زبانی ادبی مطالعہ، دنیا کی بڑی ثقافتوں کا مشاہدہ اور عملی تجربہ، درجہ بدرجہ اور برتا بہ برتا، پڑھنے کو ملتا ہے. اور ان عوامل کے اشاریوں میں تفاوت اتنا زیادہ ہے کہ ان تینوں کا تو چھوڑیے، کسی دو لوگوں کا بھی باہم موازنہ کرنا نہیں بنتا۔

علاوہ ازیں، ان تینوں کا مطالعہ کرتے ہوئے ان کے مقاصد کو سامنے رکھنا ضروری ہے کیونکہ ان تینوں نے مزاح کے نام پر نری قلم گھسائی نہیں کی (بکسرِ اول). پطرس کے ظاہراً نسبۃً casual (سرسری) انداز میں لکھے مزاح میں مقصدیت ڈھونڈنا محض beating about the bush ہے، ابنِ انشاء میں اندلمانی ثقافت کے مظاہر کے ساتھ ساتھ البتہ ایک خاص انداز کی “کالمیت” ضرور پائی جاتی ہے جب کہ یوسفی کی آورد سے شدید بوجھل (laboured) نثر میں ہر تحریر میں پہلی سے آخری سطر تک تہہ دار مقاصد کی کئی وزنی اور رنگین تر پرتیں ملتی ہیں۔ چنانچہ ان تینوں مزاح نگاروں میں صرف ایک یوسفی ہیں جو مقصدیت سے لبریز ہیں. پطرس اور ابنِ انشاء کے ہاں مزاح نحوی سطح پر ہے جب کہ یوسفی کا فن صَرفی جڑوں میں اترا ہوا ہے، اور وہ بھی ذولسانی بلکہ کثیر لسانی کیونکہ ان کی نگاہ اردو اور انگریزی کے علاوہ فارسی اور عربی کے قدیم ادب پر بھی ہے؛ یہ گن ہمارے کسی اور مزاح نگار میں نہیں پایا جاتا۔

وطنیت، اردوئیت اور دنیا کی اقتدار دار ثقافتوں کی سخت چکاچاند میں کسی سے مرعوب ہوئے بغیر صرف اور محض اپنی مٹی اور اپنی ثقافت کے اپناپے کے علاوہ، میں ان تینوں مزاح نگاروں میں ایک ہی شے مشترک ڈھونڈ پایا ہوں، اور وہ ہے تحریر میں سے غیر ضروری چیزوں کا چھانٹنا۔ ادب پارہ فن پارہ بننے کی پہلی سیڑھی تب چڑھتا ہے جب اس میں سے زوائد چھانٹ دیے گئے ہوں۔ غالب اختیار و ترک کی اسی جنگ کو جیت کر غالب ہوا۔ وہی مائیکل اینجلو والی بات، کہ پتھر کے بھدے ٹکڑے میں خوبصورت مجسمہ پہلے سے موجود ہوتا ہے اور مجسہ ساز صرف زوائد ہی کو دور کرتا ہے۔ پطرس، ابنِ انشاء اور یوسفی، تینوں اپنی تحریروں سے زوائد نکالنے کا کام ایمانًا کرتے ہیں۔ یہی ان کی اصل جگر کاوی ہے اور قبولِ عوام و خواص کا اصل سبب۔ اسی بنیاد پر میں “شامِ شعر یاراں” کو یوسفی کی “اپنی” کتاب نہیں مانتا۔ کتاب چھاپنے والے جرگے نے یوسفی کو کارو کر دیا ہے، کاری یہ کتاب ہے۔ یوسفی جیتے جی بدستِ زندہ ہوگئے۔ آہ بے اثر دیکھی، نالہ نا رسا پایا۔ ہائے بے بسی! انسان تقدیر ہی کے آگے نہیں، پبلشر کے آگے بھی بے بس ہوتا ہے۔

البتہ ایک چیز ایسی ہے جو ان تینوں مزاح نگاروں میں سے صرف یوسفی میں پائی جاتی ہے اور وہ ہے ہنستوں کو رلا دینا۔ “شامِ شعر یاراں” کا پہلا مضمون “قائدِ اعظم فوجداری عدالت میں بحیثیتِ وکیلِ صفائی” اردو کا ایک ایسا درِ یتیم مرثیہ ہے جسے کہنے کے لیے صرف یوسفی کا راجپوتی جگر چاہیے تھا۔ میری اپنی حالت یہ ہے کہ اس مضمون کے اختتام پر پہنچا تو میرے روم روم میں سناٹا گونج اٹھا اور میں ہُک ہُک کر رویا، اور اب بھی جب پڑھتا ہوں تو آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی ہے۔ کیا معلوم اس مرثیے کی وجہ سے یوسفی آئندہ صرف نثری مرثیہ نگار کے طور پر یاد رکھے جائیں۔ (یہاں یہ بھی ذکر کردوں کہ مزاح کی مجلس میں ہنستوں کو رلا دینے کی نادر مہارت اردو مزاحیہ شاعروں میں صرف انکل انور مسعود کو حاصل ہے۔)

اگر ہم کہیں کہ یہ موضوعات کا تنوع، بیان کی چاشنی، ادب کا ذائقہ، لفظیات کا نیاؤ یا تراکیب کی چستی ہے کہ یوسفی کو پڑھا جائے یا پڑھنے کو دل چاہتا ہے، تو فی الحقیقت یہ آدھا سچ بھی نہیں ہے کیونکہ یہ ایک کتابی بات ہے۔ بلکہ اس سچ کو ہماری درسی کتابوں جیسا سچ ماننا چاہیے جن کے مطابق، بزبانِ یوسفی قبلہ، ہم میں سے آدھوں کے آبا و اجداد حجاز سے اور باقیوں کے خراسان سے آئے تھے اور اس لیے آئے تھے کہ حجاز میں ایک تنکہ نہ اگتا تھا اور خراسان میں پوست کے سوا کچھ نہ اگتا تھا، اور ہندوستان میں چونکہ انسانی آبادی تھی ہی نہیں بلکہ وسیع چراگاہوں میں صرف گائیں کلیلیں کیا کرتی تھیں اس لیے یہ مورثینِ اعلیٰ یہاں تشریف لاکر گاؤلی بنے اور افزائشِ نسل کا کام شروع فرما دیا۔ تفنن برطرف، مطالعہ یوسفی کے سلسلے میں پورا سچ یہ ہے کہ ان کے ہاں مواد کی بھرائی (stuffing) اتنی زیادہ اور ٹھوس ہے کہ کوئی بھی قاری علم میں اضافہ کیے بغیر نہیں اٹھتا۔ اور یہ علم ایسا دریاؤ ہے کہ ہر مطالعے میں اس کی تہہ سے نئے موتی نکلتے ہیں۔ اور یہ مطالعہ صرف زبان (language) کی اکہر کا نہیں ہے بلکہ اس میں ثقافت، تہذیب، تعلیم، تحفیظِ مراتب، معاشرت، معاش، امورِ انتظامی و گرہستی، تشریفات، اردو و انگریزی زباندانی، تاریخ حتیٰ کہ مذہب و سیاست پر بھی دقیق نکات مل جاتے ہیں۔ دور کیوں جائیے، ذاتی طور پر مجھے سود کے حرام ہونے کے جو نِکات قبلہ یوسفی اور جنابِ شان الحق حقی سے ملے ہیں اور میرے دل میں گڑ گئے ہیں وہ Islamization of Conventional Banking کے موجودہ دور میں بھوسے میں سوئی کی طرح گم ہو گئے ہوئے ہیں۔ مطالعہ یوسفی و حقی کا نتیجہ ہے کہ میں سود کو اور سود کو جائز کرنے کے ہر حیلے کو حرام سمجھتا اور خدا سے کھلی جنگ گردانتا ہوں۔ لسانی افادیت کی جانچ کے لیے کتابِ مذکور (شامِ شعر یاراں) کے صفحہ 23 پر سنسکرت کے لفط دِرِڑھ/ دِرِڑھتا کے معنی اگر محض مثالًا دیکھ لیے جائیں تو ان شاء اللہ کئی ماہ تک اس کا استعمال پورا نہ ہو پائے گا۔ یوسفی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اردو نے کیسی کیسی تہذیبی زبانوں کا پورا پورا لفظیاتی (Lexical) جوہر کھینچ لیا ہوا ہے۔ القصہ آج کے بقائے انفع یعنی کارآمدیت کو بنیادی قدر ماننے والے مادی دور میں یوسفی کی نثر کی کئی جہتی افادیت نہ صرف پطرس و ابنِ انشاء سے بلکہ ان کے تمام معاصرین کی تحریروں سے بڑھی ہوئی ہے۔ یہی افادیت ہے جس نے یوسفی کو پرانا نہیں ہونے دیا، اور نہ بھلانے دیا ہے۔

یہ ضرور ہے کہ عام لوگ مزاح سے مراد صرف ہلکی پھلکی تحریر لیتے ہیں اور ایسی بھاری بھرکم اور معنی و مفاہیم سے لبریز تحریر کا تحمل نہیں رکھتے، اس لیے واجبی سطح کے تعلیم یافتہ لوگ یا صرف casual قاری کے لیے یوسفی کی نثر بوجھل ہو جاتی ہے۔ یوسفی کا کوئی ایک پیراگراف نکالنا مشکل ہوگا جس پر غالب کی چھوٹ نہ پڑی ہو اور کوئی ایک صفحہ نکالنا ممکن نہیں جس میں میر اور اقبال نہ جھانک رہے ہوں۔ اب بات یہ ہے کہ مشکل پسندی کی وجہ سے غالب ناکام نہیں ہوا اور سہلِ ممتنع شاعری کے دیوانہا دیوان یادگار چھوڑنے والا عبد الحمید عدم آج تیزی سے بھولتا جا رہا ہے۔ زبان و بیان کے اسالیب کا فرق اور ثقافت کا تفاوت ہمیشہ رہتا ہے۔ ہر زبان اپنی موجود ثقافت کے اعتبار سے لفظیات برتتی ہے۔ لفظ غلیظ نہیں ہوتا، اس کا محلِ استعمال اسے کریہہ یا متعفن بنا دیتا ہے۔ قرآنِ مجید میں کئی لفظ ایسے ہیں جن کی آوازی شخصیت اور کچھ کی معنوی شخصیت کو ہماری ثقافت مردوں عورتوں کے سامنے بولنے کو ناپسند کرتی ہے۔ شمس العلما مولوی حافظ ڈپٹی نذیر احمد دہلوی مرحوم نے “فاِذا تطہرن” کا ترجمہ “جب وہ نہا دھو لیں” ہماری ثقافت ہی کے برتے پر کیا ہے۔ اس قسم کی بے شمار مثالیں ہیں جن کے لیے یوسفی نے تدبھو لفظ استعمال کیے ہیں اور انھیں چلن دار کرنے کو اپنی ساری انشائی کارگزاری اور خامہ سائی کا حاصل قرار دیا ہے۔ بایں وجہ جس قاری کا مطالعہ اور علمی ذوق اس سطح کا نہیں ہے اس کے لیے یوسفی کا مطالعہ نری وحشت کا سبب ہو سکتا ہے۔ ایسے قاری کے لیے سستا سودا ہر ترُٹی پونجیک بساطیے کے پاس مل جاتا ہے، یوسفی کو پڑھنے کی کھکھیڑ اٹھانی کیا ضرور ہے؟

مطالعے میں قاری کی کم کوشی کا رونا روتے ہوئے یوسفی کہتے ہیں، اور ان کا ہم دل و ہم زباں ہونے کو میں عین سعادت جانتا ہوں، کہ لغت دیکھنے کی عادت آج کل اگر کلیۃً ترک نہیں ہوئی تو کم سے کم تر اور نامطبوع ضرور ہوتی جا رہی ہے۔ نتیجہ یہ کہ vocabulary یعنی زیرِ استعمال ذخیرہِ الفاظ بڑی تیزی سے سکڑتا جا رہا ہے۔ لکھنے والے نے اب خود کو پڑھنے والے کی مبتدیانہ ادبی سطح کا تابع اور اس کی انتہائی محدود اور بس کام چلاؤ لفظیات کا پابند کر لیا ہے۔ اس باہمی مجبوری کو سادگی و سلاستِ بیان، فصاحت اور عام فہم کا بھلا سا نام دے دیا جاتا ہے۔ قاری کی سہل انگاری اور لفظیاتی کم مائیگی کو اس سے پہلے کسی بھی دور میں شرطِ نگارش اور معیارِ ابلاغ کا درجہ نہیں دیا گیا۔ اب توقع یہ کی جاتی ہے کہ پھلوں سے لدا درخت خود اپنی شاخِ ثمر دار شائقین کے عین منہ تک جھکا دے لیکن وہ کاہل خود کو بلند کرکے یا ہاتھ بڑھا کر پھل تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ مجھے تو یہ اندیشہ ستانے لگا ہے کہ کہیں یہ سلسلہ سلاست و سادگی بالآخر تنگنائے اظہار اور عجزِ بیان سے گزر کر، نری body language یعنی اشاروں اور نِرت بھاؤ بتانے پر آ کے نہ ٹھہرے۔

زبانِ اردو کا لفظ خزانہ گوناگوں تہذیبوں کے ماضی کا امین ہے اور برِ عظیم کی گنگا جمنی ثقافت کا آئینہ دار، اور ہمارے اچھے لغات اس خزانے کے “بینک دولتِ اردو” ہیں۔ زبان بول چال میں ہوتی ہے لغت میں نہیں۔ لغت تو یوں سمجھیے کہ بس ان نوٹوں کے سیریل نمبروں کا ریکارڈ رکھتے ہیں جو ثقافت کے ہر اصل زر (capital) کے بدلے ٹکسال سے کبھی جاری کیے گئے تھے۔ نوٹ چلانے سے ہی اصل زر گردش میں آتا اور خوشحالی کی لہر چلتی ہے۔ اگر اصلی نوٹ گردش میں نہ ہوں تو جعلی نوٹ چل پڑتے ہیں، جنھیں confiscate کرکے منسوخ نہ کیا جائے تو اصل زر بے حیثیت ہوتے ہوتے اور افراطِ زر بڑھتے بڑھتے دوالہ پٹ جاتا ہے۔ آج قلمروئے اردو میں جتنے جعلی لفظ گردش میں ہیں وہ بینک دولتِ اردو کے ٹکسالی لفظ گردش میں نہ ہونے کی وجہ سے ہیں۔ خدا ہمیں وہ دن نہ دکھائے کہ ٹکسالی لفظوں کے چلن میں مندی آتے آتے لفظ خزانے کا سٹاک ایکسچینج بیٹھ جائے اور اردو کا دوالہ نکل جائے۔ بس یہی درخواست ہے کہ اردو لغات کو اپنے زمین زاد، انمول لفظوں کا قبرستان نہ بننے دیجیے اور روزانہ کسی نہ کسی ٹکسالی لفظ کو گردش میں لانا خود پر لازم کر لیجیے۔

لفظوں کا باج باجا ہے تو موسیقی کی روایت کے مطابق محفل کے آخر میں بھیرویں سنا دی جائے۔ “شامِ شعر یاراں” کا حاصل “نیرنگِ فرہنگ” ہے جسے لکھ کر یوسفی صاحب قبلہ نے جنابِ شان الحق حقی کے ساتھ اپنی ساٹھ سالہ رفاقت کا حق ادا کر دیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ حقی صاحب آخری دنوں میں بڑی کیفیت کے ساتھ یہ شعر پڑھا کرتے تھے:
پاؤں لگنے لگے ہیں مٹی پر
کم ہوئی پانیوں کی گہرائی
ہائے ہائے، ہائے ہائے۔ کیا سہلِ ممتنع ہے اور وصالِ دیارِ یار کی کیا منظر کشی ہے۔۔۔

آخری بات یہ کہ بڑے فنکاروں کا مطالعہ کرنے کے لیے دماغ کے علاوہ دل بھی بڑا رکھنا پڑتا ہے تبھی اس مطالعے سے دماغ میں نئے روزن کھلتے ہیں اور دل کے ظرف میں وسعت آتی ہے. نیز بڑا فنکار ہوتا ہی وہ ہے جس کے فن کا تجزیہ کرنے کے لیے تنقید کے روایتی سانچے یا کسوٹیاں (Touchstones) عام طور سے کفایت نہ کرتے ہوں یا فرسودہ سے محسوس ہوتے ہوں، چنانچہ ایسے فنکاروں کے لیے نقد و تبصرہ کے نئے معیار بنانا پڑتے ہیں. پطرس، ابنِ انشاء اور یوسفی تینوں اسی درجے کے فنکار ہیں کہ ایک کے گز سے دوسرے کو نہیں ناپا جا سکتا. یہاں ہر پھول کی الگ خوشبو نہیں بلکہ ہر تین کا اپنا اپنا گلستان ہے۔ ان گلستانہا سے کچھ خوشرنگ و خوشبو پھول چن کر ایک گلدستہ ترتیب دیں تو گلِ سرِسبد بہرحال یوسفی بنتے ہیں.

Advertisements
julia rana solicitors

“شامِ شعر یاراں” سمیت یوسفی کی ہر کتاب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہمارا اردو مزاح کے عہدِ یوسفی میں جینا ایک سچا bush telegraph ہے.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”یوسفی کی پیش دستی اور سراپا نازوں کا دَھول دَھپـا ۔۔۔ حافظ صفوان محمد چوہان

Leave a Reply