قائد اعظم فوج کی سیاست میں مداخلت کے اس درجہ مخالف تھے کہ جب سبھاش چندر بوس نے جاپان کی مدد سے انڈین نیشنل آرمی قائم کی تو قائداعظم نے یہ کہہ کر اس کی مذمت کی کہ فوج کو سویلین اتھارٹی کی حکم عدولی کا اختیار حاصل نہیں ہے۔
قائد اعظم گہری سیاسی بصیرت رکھتے تھے، قائد اعظم قیام پاکستان کے بعد جان گئے تھے کہ بعض فوجی افسران سیاست کے معاملات میں بہت دلچسپی لیتے ہیں۔سردار عبدالرب نشتر نے ایوب خان کے بارے میں ایک فائل قائد اعظم کو بھجوائی تو ساتھ نوٹ میں لکھا کہ ایوب خان مہاجرین کی بحالی اور ریلیف کے بجائے سیاست میں دلچسپی لیتا ہے۔ اس پر قائد اعظم نے فائل پر یہ آرڈر لکھا: ’’ میں اس آرمی افسر (ایوب خان) کو جانتاہوں۔ وہ فوجی معاملات سے زیادہ سیاست میں دلچسپی لیتا ہے ۔
کچھ محققین کے مطابق قائداعظم نے محمد ایوب خان کو ملازمت سے برخواست کرنے کا بھی کہا تھا مگر پہلے اس موقع پر ان کے دوست اور سیکرٹری دفاع جناب سکندر مرزا کام آئے۔ اُن کا وزیرستان تبادلہ کر دیا گیا پھر انہیں مشرقی پاکستان جنرل آفیسر کمانڈنگ بناکر بھیجا گیا۔ جب قائداعظم مشرقی پاکستان کے دورے پر ڈھاکہ گئے تو محمد ایوب خان جی او سی کی حیثیت سے ڈھاکہ ایئرپورٹ پر موجود تھے۔ قائداعظم انہیں دیکھ کر حیران ہوئے اور پوچھنے لگے کہ “کیا یہ ابھی تک فوج میں ہیں؟”
قائد اعظم کو اندازہ ہوگیا تھا کہ بعض فوجی افسران سمجھتے ہیں کہ ملک چلانا سیاست دانوں کا کام نہیں بلکہ موثر اور مضبوط قیادت کا کام ہے اس لئے قائد اعظم نے اس سلسلے میں ضروری اقدام لینے کی کوشش کی اور فوجی افسران کو براہ راست سمجھانے کی بھی کوشش کی
جون1948 کو سٹاف کالج کوئٹہ میں فوجی افسران سے اپنے خطاب میں آئین اور آئین کے تحت حلف اٹھانے سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے کہا
’’میں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک دو انتہائی اعلیٰ فوجی افسران سے گفتگو کے دوران مجھے اندازہ ہوا کہ وہ فوجیوں کے حلف وفاداری کی مقصدیت اور مفہوم سے نا آشنا ہیں میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حلف نامہ پڑھ کر آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں آپ حلف لیتے ہیں کہ میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر یہ عہد کرتا ہوں کہ میں آئین پاکستان اور مقتدر اعلیٰ پاکستان کا وفادار رہوں گا میں مکمل ایمان داری اور وفادار ی سے اپنے فرائض سر انجام دوں گااور یہ کہ مجھے افسران بالا بری،بحری اور فضائی راستوں سے جہاں فرائض کی انجام دہی کے لئے بھیجیں گے میں جاؤں گا۔قائد اعظم ؒ نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہامیں چاہوں گا کہ آپ نافذالعمل آئین کا مطالعہ کریں جب آپ آئین اور مقتدر اعلیٰ سے وفاداری کا عہد کرتے ہیں۔اسکی آئینی اور قانونی حیثیت کو سمجھیں۔۔۔
بدقسمتی سے قائد اعظم کے خدشات درست ثابت ہوئے اور ملک میں آئین کو وہ مقام نہیں مل سکا جو ایک جمہوری ملک میں ملنا چاہیے تھا۔
Facebook Comments
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ قائد اعظم جب سٹاف کالج کوئٹہ تشریف لائے تو ان کا انہی ایک دو فوجی افسروں سے جب مکالمہ ھوا تو قائد شدید غصے میں پائے گئے کیونکہ انہیں ان افسروں کی باتوں سے سول سپریمیسی کے خلاف جذبات محسوس ھوئے تبھی انہوں نے لکھی ھوئ تقریر سے ھٹ کر زبانی تقریر کی لیکن آنے والے وقتوں کی سیاست دیکھی جائے تو پتہ چلتا ھے کہ ان کی تقریر کا کوئ اثر نہیں ھوا تھا اور بعد ازاں ان کے ساتھ سرد مہری کا سا سلوک کیا جانے لگا ۔ ان کی ریڈیو تقریر سنسر کی گئ اور جب ان کی ایمبولینس کراچی کے ویران ریلوے پھانک پر روکے رکھی گئ ۔ بعد میں جب محترمہ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب کے خلاف صدارتی انتخاب لڑنے کا ارادہ کیا تو وہ مخفی جنگ کھل کر سامنے آ گئ ۔ اور محترمہ فاطمہ جناح کو جس بےہودہ طریقے سے ھرایا گیا اور دوران انتخابی مہم جس طرح ان کی کردار کشی کی گئ وہ بھی اس ملک کی تاریخ کا تاریک باب ھے ۔
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ قائد اعظم جب سٹاف کالج کوئٹہ تشریف لائے تو ان کا انہی ایک دو فوجی افسروں سے جب مکالمہ ھوا تو قائد شدید غصے میں پائے گئے کیونکہ انہیں ان افسروں کی باتوں سے سول سپریمیسی کے خلاف جذبات محسوس ھوئے تبھی انہوں نے لکھی ھوئ تقریر سے ھٹ کر زبانی تقریر کی لیکن آنے والے وقتوں کی سیاست دیکھی جائے تو پتہ چلتا ھے کہ ان کی تقریر کا کوئ اثر نہیں ھوا تھا اور بعد ازاں ان کے ساتھ سرد مہری کا سا سلوک کیا جانے لگا ۔ ان کی ریڈیو تقریر سنسر کی گئ اور ان کی ایمبولینس کراچی کے ویران ریلوے پھانک پر روکے رکھی گئ ۔ بعد میں جب محترمہ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب کے خلاف صدارتی انتخاب لڑنے کا ارادہ کیا تو وہ مخفی جنگ کھل کر سامنے آ گئ ۔ اور محترمہ فاطمہ جناح کو جس بےہودہ طریقے سے ھرایا گیا اور دوران انتخابی مہم جس طرح ان کی کردار کشی کی گئ وہ بھی اس ملک کی تاریخ کا تاریک باب ھے ۔ سوال یہ ھے کہ جب قائد کوئٹہ سٹاف کالج تشریف لائے تو ایوب خان بطور بریگیڈیر وھاں موجود تھے ؟ تب تک ان کا مشرقی پاکستان میں تبادلہ نہیں ھوا تھا ۔