سیدنا امام حسین علیہ السلام کے مقابل یزید کیلئے گنجائش ڈھونڈنے والی مسلم سوسائٹی کو خبر ہو کہ پڑھے لکھے کافر امام حسینؑ کو یزید سے علیحدہ کرکے اپنے گھر لے گئے ہیں ۔
چلی کے مصنف و ناولسٹ رابرٹ بولانو نے کہا ہے کہ امام حسین کو شہید کرنا بنو امیہ کی سب سے بڑی سیاسی غلطی تھی جو ان کی ہر چیز کو نظرانداز کرنے پہ مجبور کرگئی بلکہ ان کے نام و نشان اور ہر چیز پر پانی پھیر گئی
Roberto Bolano Avalos 1953-2003
معروف برطانوی ادیبہ فریا اسٹارک کئی کتابوں کی مصنف ہے، فریا نے 1934 میں عراق کے بارے میں ایک سفر نامہ the valley of assassin بھی لکھا ہے، فریا کہتی ہے کہ امام حسینؑ نے جہاں خیمہ لگائے وہاں دشمنوں نے ان کا محاصرہ کرلیا اور پانی بند کردیا، یہ کہانی آج بھی اتنی ہی دلگیر ہے جتنی 1275 سال پہلے تھی، میرا کہنا ہے آپ کربلا کی سرزمین کا سفر کرنے سے اس وقت تک کوئی نفع حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ آپ کو اس کہانی کا پتا نہ ہو، یہ ان چند کہانیوں میں سے ایک ہے جسے میں روئے بغیر کبھی نہ پڑھ سکی، فریا سٹارک
Freya Stark 1893-1993
مشہور انگریزی ناولسٹ چارلس ڈکنز نے کہا تھا اگر امام حسینؓ کی جنگ مال ومتاع اور اقتدار کیلئے تھی تو پھر میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ خواتین اور بچے ان کے ساتھ کیوں گئے تھے، بلاشبہ وہ ایک مقصد کیلئے ہی کھرے تھے اور ان کی قربانی خالصتاً اسلام کیلیے تھی، چارلس کا دور تھا Charles John Huffam Dickens 1812-1870
کیمبرج یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر ایڈورڈ جی براؤن کے حوالے سے “لٹریری ہسٹری آف پرشیا” میں لکھا ہے، کربلا کا خون آلود میدان یاد دلاتا ہے کہ وہاں خدا کے پیغمبر ﷺ کا نواسہ اس حال میں شہید کیا گیا کہ بھوک و پیاس کا عالم تھا اور اس کے ارد گرد لواحقین کی لاشیں بکھری پڑی تھیں، یہ بات گہرے جذبات اور دلدوز صدمے کی باعث ہے جہاں درد، خطرہ اور موت تینوں چیزیں ایک ساتھ رونما ہو رہی ہوں Literary History of Persia by Edward Granville Brown, 1862-1926
چیسٹر کے ادبی اسکالر رینالڈنکلسن نے تاریخ اسلام، مولانا رومیؒ اور علی ہجویریؒ پر بھی کام کیا ہے، ان کے حوالے سے “لٹریری ہسٹری آف عرب” میں ہے کہ جس طرح امام حسینؑ کے ساتھی ان کے ارد گرد کٹ گئے بلاخر امام حسین بھی شہید ہوگئے، یہ بنو امیہ کا وہ تلخ کردار ہے جس پر مسلمانوں کی تاریخ امام حسینؑ کو شہید اور یزید کو ان کا قاتل گردانتی ہے۔
Reynold Alleyne Nicholson 1868-1945
لبنان کے عیسائی مصنف انتونی بارا نے اپنی کتاب “حسین ان کرسچئین آئیڈیالوجی” میں لکھا ہے کہ، جدید و قدیم دنیا کی تاریخ میں کوئی جنگ ایسی نہیں جس نے اتنی ہمدردی اور پزیرائی حاصل کی ہو، صرف یہی نہیں بلکہ معرکہ کربلا سے امام حسین کی باوقار شہادت کے علاوہ بھی دیکھنے والے کو بہت سے اہم اسباق ملتے ہیں۔
Antoine Bara-2008
تھامس کارلائل نے کہا کہ واقعہ کربلا نے حق و باطل کے معاملے میں عددی برتری کی اہمیت کو ختم کردیا ہے۔ معرکہ کربلا کا اہم ترین درس یہ ہے کہ امام حسینؓ اور ان کے رفقاء خدا کے سچے پیروکار تھے، قلیل ہونے کے باوجود حسینؑ کی فتح مجھے متاثر کرتی ہے۔
Thomas Carlyle 1795-1881
فرانس کے معروف ادیب، ناولسٹ وکٹرھوگو نے لکھا ہے کہ امام حسینؑ کے انقلابی اصول ہر اس باغی کیلئے مشعل راہ ہیں جو کسی غاصب سے حقوق حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہے۔
Victor Marie Hugo 1802-1885
روس کے معروف مفکر اور ادیب ٹالسٹائی نے کہا ہے، امام حسینؑ ان تمام انقلابیوں میں ممتاز ہیں جو گمراہ حاکموں سے گڈگوورنینس کا تقاضا کرتے تھے، اسی راہ میں انہیں شہادت حاصل ہوئی۔
Leo Tolstoy 1828-1910
عصری جاپان کے مصنف کوئیانہ نے اپنی ایک تحریر میں لکھا ہے کہ امام حسینؑ کا انقلاب پسے ہوئے طبقے کیلئے جدوجہد کا راستہ روشن کرتا ہے، سوچ کو توانائی دیتا ہے، گمراہی سے نکالتا ہے اور حصول انصاف کے سیدھے راستے پر ڈال دیتا ہے، نومبر 2013
برطانیہ کے اسکاٹش ادبی اسکالر سر ولیم میور کہتے ہیں، سانحہ کربلا نے تاریخ محمد ﷺ میں خلافت کے خاتمے کے بعد بھی اسلام کو انسانی ذہنوں میں زندہ رکھا ہے، واقعہ کربلا نے نہ صرف استبدادی خلافت کی تقدیر کا فیصلہ کردیا بلکہ محمدی ریاست کا اصول و معیار بھی متعین کردیا جو ابتدائی خلافتوں کے بعد کہیں کھو گیا تھا۔
Sir William Muir 1819-1905 Annals of the Early Caliphate, London, 1883
مغربی محقق، تاریخ دان اور نیویارک یونیورسٹی کے پروفیسر پیٹر جے چیلکووسکی کہتے ہیں، امام حسینؓ پر مکہ سے کربلا تک کئی بار چھپ کر حملہ کیا گیا، ان کے خاندان اور اصحاب پر بھوک پیاس کا ظلم اور شہادت کے بعد ان کے جسموں کو پامال کیا گیا لیکن حسینؓ نے صبر سے جام شہادت نوش کیا پر یزید کی بیعت نہ کی Peter J Chelkowski, phd in 1968
تاریخی محقق اور ممبر برطانوی پارلیمنٹ ایڈورڈ گیبن نے “دی فال آف رومن ایمپائر” میں واقعہ کربلا کو انتہائی دلسوز قرار دیتے ہوئے کہا کہ امام حسینؓ کی مظلومانہ شہادت اور کربلا کے دلخراش واقعات ایک سرد دل انسان کی آنکھوں میں بھی آنسو اور دلوں میں ہمدردی پیدا کردیتے ہیں۔
Edward Gibbon 1737-1794
ہنگری کے مصنف گیورجی لیوکیکس کہتے ہیں، حسینؑ کا تصور مرکزی طور پر انسان کی فری وِل، شخصی آزادی اور اپنی قوم کی خوشحالی کیلئے استبدادی حاکم کے سامنے کھڑے ہونے پر فوکس کرتا ہے، اور حسینؑ نے اپنی پوری قوت اور عزم کے ساتھ اس استبداد کو فیس بھی کیا، لوکیکس مارکسی فلاسفر تھے اور مغربی مارکسزم کے بانیوں میں سے بھی تھے۔
Gyorgy Lukacs 1885-1971
روسی مفکر اوگیرا کا کہنا ہے کہ حسینؑ ہر اس طبقے کیلئے مثال ہیں جو طبقاتی جبر کا شکار ہے، وہ حکمران جو اپنا تخت مفلوک الحالوں کے سروں سے تعمیر کرتے ہیں پھر ان کے جانشین بھی یہی کچھ کرتے ہیں جب تک کہ ان کا احتساب نہ کردیا جائے وہ دوسروں کا استحصال کرتے رہتے ہیں۔
انگلش رائٹر تھامس لیل نے اپنی کتاب Insights Iraq میں لکھا ہے کہ امام حسین کے عقیدتمند ایسے دیوانے ہیں کہ اگر انہیں صحیح رخ میں گائیڈ کیا جائے تو یہ دنیا ہلا کے رکھ سکتے ہیں، تھامس 1918-1921 میں سرکاری طور پر عراق میں تعینات تھا اور یہ بات اس نے شہدا کربلا کے گرد عزاداری دیکھ کر کہی تھی
وولف انسٹیٹیوٹ کیمبرج کے بانی ڈائریکٹر، ڈاکٹر ایڈورڈ کیسلر نے اپنے ایک لیکچر میں کہا ہے کہ موجودہ دنیا کی ملٹی فیس سوسائیٹیز میں سب سے بڑا مسئلہ سوشل جسٹس کا ہے اور سوشل جسٹس حاصل کرنے کیلئے امام حسینؓ بہترین رول ماڈل ہیں، یوٹیوب، ایمبیسڈر آف فیتھس، 07 اکتوبر 2016
سٹی سکھ پروگریسیو آرگنائزیشن لندن کے بانی ممبر جسویر سنگھ نے کہا ہے کہ قطع نظر اسکے کہ ہم کس کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں ہم امام حسین سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، خاص طور پہ عزت اور وقار کے ساتھ جینے کا ڈھنگ، امام حسینؑ عدل کیلئے کھڑے تھے انہوں نے جس بات کو حق سمجھا اس کیلئے اپنی جان بھی دے دی، یوٹیوب، ایمبیسڈر آف فیتھس، 08 اکتوبر 2016
انٹرفیتھ گروپ کی ایکٹیوسٹ و ریسرچر ڈائنا ملز نے کہا ہے کہ امام حسینؑ نوع انسان کیلئے رول ماڈل ہیں، میرے لئے امام حسینؑ کئی جہتوں سے حضرت مسیح علیہ السلام کے متوازی نظر آتے ہیں، خدا کے حکم پر پورا اترنے کی خاطر انہوں نے بھی ہر چیز کو بالائے طاق رکھ دیا تھا، امام حسینؑ کی یہ بات مجھے بہت بیحد پسند ہے کہ تم میری جان تو لے سکتے ہو لیکن میرا ایمان نہیں لے سکتے You can take my body but you can’t take my faith یوٹیوب، ایمبیسڈر آف فیتھس، 10 اکتوبر 2016
کرسچئین استاد ڈاکٹر کرس ہیور نے اپنے ایک لیکچر میں کہا ہے کہ دنیا جانتی ہے یزید ایک برا انسان تھا جو خدا کے احکامات کا سرعام مزاق اڑاتا تھا، یہاں میں پیغمبر اسلام ﷺ کی حدیث بیان کروں گا کہ جابر سلطان کے سامنے کلمہء حق کہنا جہاد ہے، یہی بات امام حسینؑ کے پیش نظر تھی، اسی لئے حسینؑ کھڑے ہوئے اور اپنی جان قربان کرکے دراصل انسان کی عظمت کو بحال کیا یوٹیوب ویڈیو لیکچر 08 نومبر 2014
ڈاکٹر کرس ہیور نے ایک دوسرے لیکچر میں کہا کہ 72 اور تیس ہزار کا کیا مقابلہ؟ ایک طرف تیس ہزار کی مسلح فوج اپنے اہداف حاصل نہ کرسکی اور دوسری طرف امام حسینؑ نے 72 نہتے لوگوں کیساتھ اپنا مقصد حاصل کرلیا وجہ یہ کہ امام حسینؑ وہ ہیں جن کے اندر خدا بولتا ہے، خدا انسانوں کو سمجھانا چاہتا تھا کہ حق بات پر کیسے کھڑے ہونا ہے، ایک عیسائی ہونے کی حیثیت میں سمجھتا ہوں انسان کو خدا کی رضا پر ایسے ہی پورا اترنا چاہئے جیسے امام حسینؑ نے نیابت خداوندی کا حق ادا کیا یوٹیوب ویڈیو لیکچر 24 نومبر 2014
مہاتما گاندھی نے کہا تھا، میرا یہ ماننا ھے کہ اسلام کا پھلنا پھولنا تلوار سے نہیں بلکہ ولی خدا امام حسینؓ ابن علیؓ کی قربانی کا نتیجہ ہے، دوسری جگہ کہا، اگر میرے پاس امام حسین کے ساتھیوں جیسے بہتر لوگ موجود ہوں تو میں چوبیس گھنٹے میں ہندوستان آزاد کرالوں، ایک اور جگہ کہا اگر ہندوستان کو آگے بڑھنا ہے تو امام حسین کے نقش قدم پر چلنا ہوگا۔
پنڈت جواہر لعل نہرو نے کہا تھا، امام حسین کی قربانی کسی ایک قوم کی نہیں بلکہ سب کیلئے ہے یہ صراط مستقیم کی اعلٰی ترین مثال ہے، 1889-1964
بنگالی مصنف رابندر ناتھ ٹیگور نے کہا، سچ اور انصاف کو زندہ رکھنے کیلئے فوجوں اور ہتھیاروں کی ضرورت نہیں، قربانیاں دے کر بھی فتح حاصل کی جاسکتی ہے جیسے امام حسینؓ نے کربلا میں قربانی دی، بلاشبہ امام حسین انسانیت کے لیڈر ہیں، 1861-1941
بھارت کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پراساد بیدی نے کہا تھا، امام حسینؑ کی قربانی کسی ایک ریاست یا قوم تک محدود نہیں بلکہ یہ بنی نوع انسان کی عظیم میراث ھے، 1884-1963
مسز سروجنی نائیدو نے کہا ہے کہ میں مسلمانوں کو اس لئے مبارکباد پیش کرنا چاہتی ہوں کہ ان میں دنیا کی سب سے عظیم ہستی امام حسینؑ پیدا ہوئے جو دنیا کے تمام مزاہب کے لوگوں کے دلوں پر راج کرتے ہیں اور ہر کمیونیٹی کیلئے باعث فخر ہیں۔
سوامی شنکر اچاریہ نے کہا یہ امام حسینؑ کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ آج اسلام زندہ ہے ورنہ آج دنیا میں اسلام کا نام لینے والا کوئی نہ ہوتا۔
ڈاکٹر رادھا کرشن بھارتی صدر نے کہا تھا، گو امام حسینؑ نے تیرہ سو سال پہلے قربانی دی لیکن ان کی لافانی روح آج بھی سب کے دلوں میں زندہ ہے۔
نیلسن منڈیلا نے کہا، میں نے بیس سال جیل میں گزارے ہیں، ایک رات میں نے فیصلہ کیا کہ تمام شرائط پر دستخط کرکے رہائی پالینی چاہئے لیکن پھر مجھے امام حسینؑ اور واقعہ کربلا یاد آگیا اور مجھے اپنے اسٹینڈ پر کھڑا رہنے کیلئے پھر سے تقویت مل گئی۔
آخر میں لبنان کے عیسائی مصنف انتونی بارا کی طرف واپس آتے ہیں جن کی کتاب “حسین ان کرسچئین آئیڈیالوجی” بلاک بسٹر کتاب ہے جس کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کرنے کیلئے دیگر ملکوں کے ادیب بھی مصنف سے اجازت لینے کیلئے کوشاں ہیں۔
انتونی بارا کہتا ہے کہ یہ کتاب خالصتاً علمی ادبی اور تحقیقی کام تھا جسے علمی بنیادوں پر ہی کرنا تھا لیکن اس کام کے دوران میرے دل میں یقیناً امام حسینؑ کی عظمت رچ بس گئی ہے، تین گھنٹے کے انٹرویو میں جب بھی بارا نے امام حسینؑ کا نام لیا تو ساتھ میں “ان پر سلامتی ہو” ضرور کہا، بارا کا کہنا ہے کہ میں نہیں مانتا امام حسینؑ صرف شیعہ یا مسلمانوں کے امام ہیں، میرا ماننا ہے کہ وہ تمام عالم کے امام ہیں کیونکہ وہ سب مذاہب کا ضمیر ہیں، because he is the “conscience of religions” ۔
Facebook Comments
لاله جي! اللہ آپ کی سب مرادیں پوری کرے. میں نے حسین پر اتنی اعلی، دلآویز اور موثر تحریر آج تک نہیں پڑھی. بار بار پڑھ رہا ہوں اور آنسوؤں کا نذرانہ پیش کر رہا ہوں. آپ کو َاس تحریر پر کیسے اور کتنی مبارک باد دوں، کچھ سمجھ نہیں آتی.