صدیاں حسین کی، زمانہ حسین کا ۔۔۔۔ عمیر اقبال

جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت کے جوانوں کے سردار٬ حضرت حسینؓ کی درد ناک اور مظلومانہ شہادت پر تو زمین اور آسمان روئے٬ جنات روئے٬ جنگل کے جانور متاثر ہوئے٬ انسان اور پھر مسلمان٬ تو ایسا کون ہے جو اس کا درد محسوس نہ کرے یا کسی زمانے میں بھول جائے۔

لیکن شہید کربلا (ع) کی روح مقدس درد وغم کا رسمی مظاہرہ کرنے والوں کو ڈھونڈتی ہے جو ان کے درد کے شریک اور مقصد کے ساتھی ہوں۔ ان کی خاموش مگر زندہ جاوید زباں مبارک مسلمانوں کو ہمیشہ اس مقصد عظیم کی دعوت دیتی ہے جس کے لئے حضرت حسینؓ بے چین ہوکر مدینہ سے مکہ اور پھر مکہ سے کوفہ جانے کے لئے مجبور تھے٬ جس کے لئے حضرت حسینؓ نے اپنے سامنے اپنی اولاد اور اپنے اہل بیت کو قربان کر کے خود قربان ہوگئے –

واقعہ شہادت کو اول سے آخر دیکھئے٬ حضرت حسینؓ کے خطوط اور خطبات کو غور سے پڑھئے٬ آپ کو معلوم ہوگا کہ مقصد یہ تھا کہ
*اسلام کے نظام عدل کو ازسر نو قائم کرنا۔
*اسلام میں خلافت نبوت کے بجائے ملوکیت و آمریت کی بدعت کے مقابلے میں مسلسل جہاد کرنا۔
*حسن کے مقابلے میں زور و زر کی نمائشوں سے مرعوب نا ہونا۔
*حق کےلئے اپنی جان و مال اور اولاد سب قربان کر دینا۔
*خوف وہراس اور مصیبت و مشقت میں نہ گھبرانا بر وقت کی یاد رکھنا اور اسی پر توکل اور حال میں اس کا شکر ادا کرنا –

“پل بھر کی حکومت تھی یزید کی
صدیاں حسینؓ کی٬ زمانہ حسینؓ کا”

60 ھجری میں وقوع پذیر ہونے والے اس انتہائی کربناک اور معنوی حکمتوں و اسباق سے بھر پور دنیائے انسانیت کو زندگی کے راز سکھانے والے واقعہ کا نام سانحہ کربلا ہے چودہ سو سال سے مورخین ،مقررین ، محققین نے شاید ہی اس واقعہ کے کسی پہلو کو تشنہ رکھا ہو۔ اسلامی تاریخ ہی نہیں دیگر اقوام و ملل کی تاریخ میں پیش آنے والے جملہ واقعات میں شاید ہی کوئی واقعہ ہوگا جو اتنی کثرت سے لکھا ،پڑھا اور سنا جاتا ہو اور فطرت انسانی ہے کہ کتنا ہی پرکشش واقعہ ایک سے زائد مرتبہ سننے یا پڑھنے سے اس کی جاذبیت اور کیفیت میں کمی آجاتی ہے۔ واقعہ کربلا کو پروردگار عالم نے امتیاز عطا فرمایا ہے کہ لا تعداد مرتبہ ہر فرد مسلم اسے سنتا پڑھتا ہے لیکن ہر مرتبہ اس کی آنکھیں سیل رواں کی طرح بے اختیار اشک بہاتی ہیں اور اس کے غم کو بندہ آج بھی اپنے دل میں تازہ پاتا ہے۔ لیکن حکمت خدا وندی ہے کہ جو واقعہ انسانیت کیلئے جتنا سبق آموز ہوتا ہے ، زندگی میں انقلاب لانے والا ہوتا ہے اس کی تاثیر کو اتنا دیرپا رکھتے ہیں۔

واقعہ کربلا ظاہری اعتبار سے تو افراد کی جنگ تھی لیکن معنوی اعتبار سے اس کا جائزہ لیا جائے اور اس جنگ کی ابتدا اور اس کے نتائج کو نظر غائرسے دیکھا جائے تو اس کا اثر جسموں سے متجاوز ہوکر فکروں ، تہذیبوں اور روحوں تک پہنچتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جسمانی اور افرادی اعتبار سے کوئی مورخ اس واقعہ کو لکھے گا تو یزید اور ابن زیاد کی فوج کو کامیاب قرار دے گا۔

چونکہ سیدنا امام حسینؓ اور ان کے اہل خانہ باوجود اپنی شجاعت و بہادری کے بے شمار جوہر دکھانے کے شہید ہوچکے اور یزید اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا لیکن شاید پہلا معرکہ تھا جس میں فاتح جماعت اپنی فتح ہی پر پشیمان اور ان کی فتح ہی ان کی ابدی رسوائی کا باعث بنی اور نتیجہ کے لحاظ سے حضرت سیدنا امام حسینؓ اور آپ کے اہل خانہ قیامت تک کیلئے کامیاب قرار دے گئے۔

دراصل خلافت راشدہ کے بعد مملکت اسلامیہ کی وسعتوں اور بیش بہا مال و دولت کی فراوانی کی بناء کمزور ایمان والوں کے دلوں میں مال و جاہ کی محبت جگہ بنالی تھی جس کی وجہ سے نئے فتنے جنم لینے لگے۔ اقدار بدل رہی تھیں، حق کی آواز دھیمی پڑرہی تھی۔ صداقت و دیانتداری نا پید ہوتی جارہی تھی ۔ دنیا طلبی کی ہوس عوام سے ہوتے ہوئے خواص اہل اقتدار تک پہنچ رہی تھی۔ اس مسموم فضاء سے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات شریعت اسلامیہ ان تمام کو خطرہ لاحق ہورہا تھا۔ شیطان اپنی تہذیب اقدار و ترجیحات مزین کر کے بڑے بڑے اہل ایمان کو اس کا شکار کررہا تھا۔

خلافت کا قلادہ امام حسن نے اپنی گردن سے اتار کر حضرت امیر معاویہ کے سپرد کردیا۔ صحابی رسول ہونے کی وجہ سے آپ کی جلالت شان کی بناء یہ تمام شیطانی طاغوتی امراض دبے ہوئے تھے تاہم دھیرے دھیرے معاشرہ کو تباہ کررہے تھے۔ آپ کے وصال کے بعد جب یزید تخت نشین ہوا اسلام کی محبت رکھنے والے تعلیمات نبوی  پر جان دینے والے مملکت کے کونے کونے سے مخالفت کی آواز اٹھانے لگے لیکن طاقت و قوت سے انہیں دبا دیا گیا۔

اب پوری امت منتظر تھی ایک پاسبان کی، ایک سہارے کی، بلکہ اسلام خود اپنی مدد کیلئے خانوادہ نبوت کی جانب اپنی تشنہ نگاہیں اٹھائے ہوئے تھا۔ خانوادہ نبوت کے چشم و چراغ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے نواسے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شخصیت نمایاں تھی۔ بڑی ذمہ داری ان کے کاندھوں پر تھی کہ شیطانی افکار و اقدار کا پروردہ علانیہ گناہوں کا مرتکب بھلا کیا تعلیمات اسلامیہ کی پاسبانی کرے گا۔ دیگر مسلمانوں کی طرح خانوادہ نبوت بھی خاموش ہوجائے تو پھر معیار دین یھی بن جائے گی –

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری محنت کا کیا ہوگا۔ دنیوی لحاظ سے مشورہ دینے والے خیر خواہوں کا تانتا بندھ گیا کہ آپ اس کے خلاف آواز نہ اٹھائیں، کنارہ کش ہوجائیں ،اس میں جان کی سلامتی ،خاندان کی سلامتی ہے لیکن مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث شریف جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ الحسینؓ منی و انا من الحسینؓکہ حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اب اس دین کے بچانے کی ذمہ داری حضرت حسینؓ پر تھی۔ تو آپ بظاہر کوئی جنگی تیاری کے بغیر صرف اہل خانہ کو لیکر اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے نانا جان کے دین کو بچانے کیلئے اسلامی تہذیب کی حفاظت کیلئے اسلامی اقدار کی پاسداری کیلئے آگے بڑھے تو گویا یہ جومعرکہ نما کوشش جنگ نما مجاھدہ گویا دو تہذیبوں کے درمیان ، دو فکروں کے درمیان دو اقدار کے درمیان تھا، مجموعی طور پر ان میں ایک کو حسینیت اور دوسرے کو یزیدیت کہا جاسکے گا –

حسینیت یعنی دین داری صداقت ،امانت دیانت ،عدالت ، گویا اسلامی تہذیب ہے اور یزیدیت یعنی بے دینی ،جھوٹ،  بے ایمانی ، ظلم ، فسق و فجور، نفسانی خواہشات کی پروردگی گویا یہ شیطانی تہذیب ہے اور اس معرکہ کے بعد حدیث شریف کے دوسرے حصہ کا صحیح مفہوم سمجھ میں آیا کہ ’’و انا من الحسینؓ ‘‘یعنی میں حسینؓ سے ہوں مطلب یہ تھا کہ میرا دین پھر زندہ ہوگا تو حسینؓ کی قربانی سے ہوگا اور قیامت تک اسلامی تہذیب کے پیروی کرنے اور اس کو نافذکرنے کی کوشش کرنے والوں کیلئے حضرت امام حسینؓ کی شہادت ایک مشعل راہ ہے اور حوصلہ افزا ہے اور یہ سبق دیتی  ہے کہ اے اہل ایمان تمہیں اس دین مبارک کی حفاظت کیلئے حالات و کوائف کی پروا کئے بغیر اپنی ہر چیز کی قربانی دینی ہوگی یہاں تک کہ اگر جان بھی دینے کا موقع آئے تو اس سے گریز ہر گز نہ کرنا۔

تو آج شہادت امام حسینؓ ہم سے یہ فریاد کرتی ہے کہ اتنی بڑی قربانی پورے خانوادہ نبوت کی شہادت آنے والی نسل کیلئے صرف قصہ گوئی یا چند رسوم و رواج کی تکمیل کیلئے نہیں تھی بلکہ اپنی زندگی کے ہر لمحہ میں اس کو پیش نظر رکھ کر شیطانی اور طاغوتی قوتوں سے مقابلہ کرنے کیلئے ہے تو حسینیت اور یزیدیت کی معرکہ آرائی ختم نہیں ہوتی آج بھی موجود ہے اگر ہم حضرت حسینؓ کے نام لیواہیں اور کام یزیدیت کا ہم سے لیا جارہا ہے تو ہوشیار ہوجائیں اور اپنے انجام کی فکر کریں چونکہ شیطان یزیدیت کو یعنی بے دینی جھوٹ ظلم ،بے ایمانی ،فسق و فجور کو ہماری زندگی کا حصہ بنادیا ہے –

حضرت امام حسینؓ کی شہادت کو حقیقی خراج عقیدت پیش کرنا ہو تو اپنے کردار کو حسینی کردار بنائیں۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت سیدنا فاطمہؓ نے حضرات حسنین کریمین کو قریب لے گئیں اور عرض گزار ہوئیں کہ آپ کی کچھ وراثت انہیں عطا فرمادیں تو “نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا حسن میری ہیبت و سرداری کے وارث ہیں اور حسینؓ میری جرات و سخات کے وارث ہیں” ۔ اس حدیث شریف کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔ –

کوئ ہے جو جگر گوشہ رسولؐ٬ مظلوم کربلا٬ مشہور جود و وفا کی اس پکار کو سن کر ان کے نقش قدم پر انجام دینے کے لئے تیار ہو..؟؟ اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائیں –

Advertisements
julia rana solicitors london

احسان کوئی مانے یا نہ مانے حسین کا
سر اپنا پیش کر کے وہ امت بچا چلے

 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply