پہلی اینگلو افغان جنگ کس نے جیتی؟۔۔۔۔ فرحت تاج

پہلی اینگلو افغان جنگ (1838-1842 ) کس نے جیتی؟

کابل کی بہادر عورتوں نے!

A Gender Analysis of the First Anglo-Afghan War

پہلی افغان جنگ کا صنفی تجزیہ

تاریخ دان کہتےہیں کہ پہلی اینگلو افغان جنگ بہت  زیادہ تشد د ا ور وحشیانہ مظالم جو انگریزوں اور پشتونوں نے ایک دوسرے پہ کیے کے باوجود بے نتیجہ رہی-

سرداراکبر خان (امیر دوست محمد  خان، افغانستان کے بادشاہ کے بیٹے) کی قیادت میں پشتونوں نے  انگریزں کے پورے رجمنٹ 44 کوبےدردی , انتہائی  سفاکی  سےقتل کیا- قتل ہونے والوں میں  انگریز فوجیوں کے خاندانوں کے بچے اور عورتیں بھی شامل تھیں-

کچھ  انگریز  بچے اور عورتو ں  کو یرغمال بنایا گیا کیونکہ امیر دوست محمد انگریزں کے پاس انڈ یا میں یرغمال تھا۔ انگریزوں کے پراکسی  شاہ شجاع کو قتل کیا- جواب میں  انگریزنے انتقام لینے کے لیے ایک ‘بدل رجمنٹ’ کابل روانہ کردی جس نے راستے میں آتے ہوئے ہر اُس جگہ تمام مردوں کو قتل کیا جہاں سے ان پر حملہ  ہوا اور وہاں عورتوں کو ریپ کیا-کابل پہنچ کر یرغمال  انگریز  بچے اور عورتوں کو آزاد  کیا-

کابل میں  شاہ شجاع کے  بیٹے کو تخت پہ بیٹھایا- پورے  کابل  کو ایف سی آر کے طرز پر اجتمای سزا دی-  کابل  کو لوٹ مار کے لیے  کھول دیا-  انگریز فوجیوں نے دل کھول کر کابل کو لوٹا- کابل کے بازار ارو دوکان مال غنیمت بن گے تھے-   ‘بدل رجمینٹ’    نے کابل   کوآگ لگا کر اپنے انتقام کے مکمل ہونے کا  جشن منایا اور جشن کے بعد بڑے آرام اور سکون سے واپس برٹش انڈیا  آگے-

رجمنٹ 44 کی تباہی  اور  ‘بدل رجمنٹ ‘ کی کاروائی سے صاف ظاہر ہے کہ  انگریز فوجی اور انکے مدمقابل پشتون دونوں کس قدر تنگ نظر قبائلی ذہنیت والے وحشی جانورں سے بھی بد تر, ہرقسم کے انسانی معیار سے گرے ہوئے لوگ تھے-

مزے کی بات تو یہ  ہے کہ ان کی تمام تر وحشت کے باوجود ان دونوں میں واضع فاتح کوئی بھی نہیں ہے – یہی خیال اکثر تاریخ دانوں کا بھی ہے-

‘بدل رجمنٹ ‘ کی انڈیا واپسی کے بعد  انگریزوں نے  امیر دوست محمد خان کو آزاد کرکے افغانستان جانے دیا کہ جاؤ اب اپنا ملک  چلاؤ-

میرے خیال میں اس تمام قصے میں  ایک واضح فاتح موجود ہے جس کو  تاریخ دانوں نے کوئی اہمیت نہیں دی ہے :

کابل کی بہادر عورتیں!

رجمنٹ 44 دو سال تک کابل میں امن کےساتھ  رہیں- اس دوران کچھ ایسی چیزیں ہوگئیں جس کی وجہ سےکابل کے لوگوں کا غصہ انگریزوں پہ بڑ ھتا گیا-ان میں ایک بات یہ تھی کہ کابل کی کی شادی شدہ عورتیں اپنے  پشتون شوہروں کو چھوڑ کر انگریز فوجی سپاہیوں کے ساتھ بھاگ رہی تھیں-اب ظاہر ہے ایک پشتون مرد کی قبائلی جاہلانہ  غیرت کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا ‘قیامت ‘ ہو سکتی ہے؟

بھاگنے والی  پشتون عورتیں اپنے عمل سے بتا رہی تھیں کہ انگریز ایک پشتون کے مقابلے میں بہتر شوہراور انسان ہیں- حالانکہ یہ وہ زمانہ تھا جب عورتیں کے بارے میں  پشتونوں اور  انگریزوں کے خیالات ملتے جلتے تھے- دونوں عورت کو ذاتی ملکیت سمجھتے تھے- اسکا ایک نظارہ اس وقت دیکھنے کو ملتا ہے جب سردار اکبر خان نے رجمنٹ  44 کو کابل سے نکلنے کی شرائط  طے کرنے کے وقت ایک شرط یہ رکھی کہ ہمیں یرغمال دو  جو کہ  انگریز فوجی افسر ہوں اپنی اپنی بیویوں کے ساتھ-
اس شرط پہ  انگریز فوجیوں کو اتنا غصہ آیا کہ  ایک کپٹین نے تو صاف صاف کہا کہ اپنی بیوی کو اپنے ہاتھوں سے مار دے گا مگر ان کو پشتونوں کے حوالے نہیں کرے گا (جیسے اس کی بیوی انسان نہ ہو بلکہ اسکی ذاتی ملکیت ہو اور اسکی  زندگی اورموت کا فیصلہ اس  کپٹین کا حق ہےخدا کا نہیں)-اس کے باوجود بھی پشتون عورتیں انگریزوں کو ترجیح دیکر  اُن کے ساتھ بھاگ گئیں-

انگریزوں  کے ساتھ بھاگ جانے والی عورتوں میں ایک  پشتون شہزادی بھی تھی۔ وہ امیر دوست محمد خان کی بھتیجی تھی اور اپنے پشتون شوہر کو چھوڑ کر ایک انگریز فوجی افسر رچرڈ واربرٹن  کے ساتھ بھاگ گئی- رچرڈ   کابل میں شاہ  شجاع کے توپ خانے کا انچارج تھا۔ شہزادی اور   رچرڈ کی شادی کے   گواہ کابل کینٹ میں موجود اہم فوجی کمانڈر تھے، جیسے کیپٹن برنس  اور کرنل سٹورٹ- شہزادی اور   رچرڈ کی شادی کے گواہ کوئی بھی ہوسکتے تھے مگرلگتا ہے ان انگریز  فوجی کمانڈرو‍ں  نے شادی کے گواہ بن کر سرداراکبر خان کو ایک گندا قبائلی ذہنیت والا  پیغام دیا-اکبر خان جیسے پشتون  سردار  کے لیےاس سے بڑھ کر اور ذلت کیا ہو سکتی تھی  کہ  انگریز دشمن جن کے خلاف وہ سر پر کفن باندھ  کر لڑ رہا تھا، اسکو یہ پیغام ملے کہ تمھارے شاہی خاندان کی ایک  شہزادی اب  انگریز کیمپ میں ہے اور وہ بھی ایک  انگریز فوجی کی بیوی بن کر- یہی وجہ ہےکہ کابل میں جنگ کے دوران  سرداراکبر خان نے جاسوس  ہر طرف روانہ کیے کہ  شہزادی کو پکڑ کر لے آئیں-خوش قسمتی سے وہ اور رچرڈ دونوں بچ گئے- اسی دوران ان دونوں کا ایک  بیٹا پیدا ہوا-اُسکا نام تھا رابرٹ واربرٹن، یہ وہی  رابرٹ ہے جو بڑا ہو کر خیبر ایجینسی کا مشہور پولیٹیکل ایجنٹ بنا-

کابل میں  انگریزوں کےقیام کےدوران (   1838-1842) بہت کچھ ہوا لیکن لگتا ہے پشتون عورتوں کے انگریزوں  کےساتھ بھاگنے والے واقعات نےان دونوں کےتعلقات کو مزید خراب کردیاتھا-رابرٹ وار برٹن معروف کتاب ‘ خیبر ایجنسی میں اٹھارہ سال’ کا مصنف ہے-یعنی اس آدھے انگریز اور آدھے پشتون کے  ذریعے خیبر ایجنسی کو انگریزوں نے اٹھارہ سال کنٹرول کیا- رابرٹ انگریزی، فارسی، پشتو روانی سے بولتا تھا-اس میں قصور  پشتونوں کا اپنا  تھا-اگر وہ اپنی عورتوں  کی عزت کرتے اور ان کو برابر کا انسان سمجھتے تو وہ کیوں اپنے شوہروں کو چھوڑ کر انگریزوں کے ساتھ چلی جاتیں؟

یہ قبائلی ذہنیت والے کابل کے لوگ عورت کو اس قدر کمترین چیز سمجھتے کہ ان  کو کبھی خیال نہ آیا کہ اس قسم کے رویے کے خطرناک نتائج بھی  ظاہر ہو سکتے ہیں، خاص کر  اگر عورت بہادر ہو-جو کہ شہزادی اور اسی کی طرح کی دوسری  کابلی پشتون عورتیں یقینی طورپرتھیں-

تاریخ دان کہتےہیں کہ پہلی اینگلو افغان جنگ میں کوئی فاتح نہیں،  نہ انگریز  ،نہ پشتون-

میرے خیال میں اس  جنگ کی فاتح وہ پشتون عورتیں ہیں جو اپنے ناپسندیدہ شوہرچھوڑ کرانگریزوں کے ساتھ بھاگ گئیں تھیں-وہ اس لیے کہ  ان عورتوں نے پشتون ولی کی جاہلانہ قبائلی روایات کی زنجیریں توڑ  اپنی مرضی کی  زندگی گزارنے کا حق حاصل کر لیاتھا۔
جب میں پہلی اینگلو افغان جنگ کا صنفی تجزیہ کرتی ہوں تو بدقسمتی سے مجھے  دوسری اینگلو افغان جنگ  1878-1880   سے وابستہ ملالا آف میوند کا واقعہ جھوٹ لگتا ہے. پہلی اینگلو افغان جنگ میں  ایک طرف تو پشتون عورتیں رجمنٹ 44 کی موجودگی میں  انگریزوں کےساتھ بھاگ گئیں   اور دوسری طرف  ‘بدل رجمنٹ ‘ نے ان پشتون عورتوں کا ریپ کیا جن کےخاندان کے مردوں نے ‘بدل  رجمنٹ ‘ پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی- پشتون کلچر میں یہ دونوں باتیں ناقابل قبول ہیں-

کیا پتا  پشتون ‘تاریخ دانوں ‘   نے ان ہی دو باتوں کو چھپانے کے لیے  ملالا آف میوند کا واقعہ گھڑ لیا ہو-

کہا جاتاہے کہ دوسری اینگلو افغان جنگ میں میوند کے مقام پر  ملالا نام کی عورت نے  پشتونوں کو جو کہ جنگ میں انگریزوں سے  شکست کھاتے ہوئے نظر آنے  لگے تھے، کہا تھا کہ ٹھیک سے لڑنا اور ب بغیرت کی طرح  شکست نہ کھانا-اسکے بعد ان کی   پشتون غیرت  جاگی ، وہ بہادری سے لڑے اور انگریزوں  کو شکست دیں-

ہو سکتا ہےیہ  قصہ سچ ہو اور میرا شک غلط ہو- لیکن واقعہ  بظاہر مشکوک نظر آتا ہے- اور اس شک کے ذمہ دار بھی پشتون خود ہی ہیں-اگر پشتون اپنی تاریخ کو  تاریخ کی طرح لکھتے نہ کہ ٹپے، غزل اور جنگی ترانہ کی طرح، تو آج  ملالا آف میوند کے واقعہ پر شک نہ ہوتا-بہرحال انگریز تو اب  پہلی اینگلو افغان جنگ کا انگریز نہیں رہا- وہ اب عورت کی عزت بھی کرتاہے اور اس اپنے برابر کا انسان بھی سمجھتا ہے-

پشتون لگتا  ہے عورتوں کے معاملے میں  ابھی تک وہی پہلی اینگلو افغان جنگ کا پشتون ہے، بالکل سرداراکبر خان اور انکے ساتھیوں کی طرح-  بس اب آج کے  پشتون کو بھی بدلنا چاہے- ورنہ تاریخ اپنےآپ کودہرا بھی سکتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ ای ٹی

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply