نظریہ و فکرِ الطاف ۔۔۔ عدیل رضا عابدی

ایڈیٹر نوٹ: درج ذیل تحریر لکھاری کی رائے ہے جسے اظہار آزادی رائے کے تحت شائع کیا جا رہا ہے۔  ادارہ مکالمہ کا اس تحریر سے اتفاق ضروری نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

۲۲اگست۲۰١٦ کی شام دراصل عمل تطہیر کی ابتداء تھی, عمل تطہیر ہر گزرتے دن کے ساتھ جاری ہے  جس کے اختتام پر انقلاب دستک دے رہا ہے۔  اے پی ایم ایس او …کیوں؟؟؟؟
جماعت ِ اسلامی کا کردار مہاجروں کی بقا کے حوالے سے قابلِ نفرین بن چکا ہے۔جماعت ِ اسلامی کو مہاجروں کی دیگر قوم پرستوں کے مقابلے میں ۱۹۵۰ سے حمایت حاصل تھی مگر جماعت ِ اسلامی فو جی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کر مسلسل مہاجروں کا استحصال کر رہی ہے۔کراچی کے تعلیمی اداروں میں بلوچ،سندھی،پٹھان اور پنجابی قوم پرست طلبہ تنظیمیں مہاجروں کے حصول علم میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ ہم جلد ہی ایک مہاجر طلبہ تنظیم کے قیام کا اعلان کرینگے۔
( قائد ِ تحریک الطاف حسین بھائی ، فروری ۱۹۷۸)
پھر کراچی کے افق پر وہ سورج بھی ابھرا جس نے آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے وجود کو قیامِ عمل میں آتا ہوا بھی دیکھا۔
جون ۱۱ سن ۱۹۷۸۔۔۔ جامعہ کراچی کی آرٹس لابی دلہن کی طرح سجی ہے۔ طلبا و طالبات کا جمِ غفیر موجود ہے۔دو نوجوان کسی شیر کی مانند ایک کونے سے سے چلتے ہوئے آتے ہیں جیسے ہی ہجوم کے درمیان پہنچتے ہیں سارا مجمع تالیاں بجا کر ان کا استقبال کرتا ہے۔ آرٹس لابی فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھتی ہے۔حقوق کی جنگ میں الطاف کے سنگ ہیں۔۔۔اب بھاگ پنجابی ، مہاجر آیا۔اسی دوران گنگا جمنا تہذیب و اخلاق سے آراستہ ایک عام شہری نظر آنے والانوخیز جوان اپنا ہاتھ بلند کرتا ہے سیکڑوں کے مجمع پر سکتہ طاری ہوجاتا ہے۔ یہ نوجوان کوئی اور نہیں الطاف حسین ہے۔۔۔۔!
ساتھ موجود نوجوان کانام ہے عظیم احمد طارق۔۔۔ مہاجر طلبہ کی پہلی تنظیم کا چیئرمین۔۔۔
قائدوبانی الطاف حسین نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے مجمع کو مخاطب کیا!
میرے عزیزوں!
ہمارے بزرگوں نے اپنے جان اور مال کی قربانی دے کر پاکستان کے قیام کی تحریک کو سینچا۔ مگر اس ملک میں ہمارے ساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا۔ہمیں غدار کہا گیا، ہمیں قومی شناخت دینےسے انکاری یہ نظام چلانے والے اور ان کے دسترخوان پر پلنے والے آج ہمارا تعلیمی، سیاسی سماجی اور اخلاقی استحصال کرنے میں مصروف ہیں۔ آج اس جامعہ اور اس سے باہر جہاں جہاں مہاجرین اور ان کی اولادیں آباد ہیں وہاں ، وہاں استحصال اور تعصب کا شکار ہیں۔ ہمارے اجداد نے قیام پاکستان میں حصہ لیا مگر ان کی بوڑھی آنکھوں نے پاکستان کو دو لخت ہوتے دیکھا اور ایسا تب ہی ہوتا ہے جب حقوق کی برابر تقسیم میں کم ظرفی سے کام لیا جائے اور حقوق کو غصب کیا جائے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اپنے حق کی جنگ لڑی جائے۔ تعلیمی میدان سے نکل کر ہمیں سیاسی میدان میں بھی قدم رکھنا ہوگا۔ نہ صرف کراچی بلکہ اس سے باہر بھی آباد مہاجروں کی بقا کیلئے کام کرنا ہوگا۔ آج مکمل ذمہ داری کے ساتھ آل پا کستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے قیام کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس تنظیم کے دو بنیادی مقاصد ہیں۔
۱۔ سیاست اور معیشت سے مراعات یافتہ طبقے کی بالا دستی ختم کرانا اور متوسط طبقے کو عملی طور پر آگے لانا۔
۲۔ ملا اور وڈیرہ شاہی کا گٹھ جوڑ ختم کرنے کے لئے قیام کرنا۔
میں واضح کردوں کہ آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ایک سیکیولر اور ترقی پسند تنظیم ہے۔
(قائدِ تحریک الطاف حسین)
عزیزوں!
آل پا کستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن(اے ۔ پی ۔ ایم ۔ ایس ۔ او) کے قیام کے بعد نظام کی تبدیلی سے سے خوفزدہ عناصر نے شازشوں کے جال بچھائے اور سن ۱۹۷۹ میں دنیا نے اگر الطاف حسین کو پاکستانی جھنڈا جلانے کے الزام میں جیل جاتے اور الزام جھوٹا ثابت ہونے پر واپس آتے بھی دیکھا۔ جماعت اسلامی، اور طلبہ اتحاد کے حملے ہوں یا” مہا سندھ نامی دولتمندوں کی تحریک یا ” ضیائی” گیڈڑ بھپکیاں، کچھ بھی الطاف حسین کےقدموں میں زنجیر نہ ڈال سکا ۔ الطاف حسین کا نظریہ ذہنوں سے ذہنوں میں منتقل ہوا۔ پھر دنیا نے اے ۔ پی ۔ ایم ۔ ایس ۔ او ۔ کے بطن سے سیاسی تحریک کو بھی جنم لیتے دیکھا۔ ایم کیو ایم وجود میں آئی۔ الطاف حسین کا کہا سچ ثابت ہونے لگا۔ الطاف حسین اپنے ساتھیوں اور چاہنے والوں کے ہمراہ کھڑا رہا۔ مہاجر قوم کو درپیش مسائل سے ایک لمحہ بھی غافل نہ ہوا۔ متوسط طبقے کو اسمبلی تک پہنچانے کا وعدہ پورا کیا جس کی باداش میں خود الطاف حسین کو جلاوطنی اختیار کرنے پڑی، اپنے بھائی اور بھتیجے کے جنازے میں شریک نہ ہوسکا مگر یہ الطاف حسین ہی تھا جس نے تحریک کے ہر شہید کے لواحقین کو یاد رکھا ان کے غم اور خوشی میں ان کے ساتھ کھڑا رہا۔ سات سمندر پار کے فاصلے کوئی معنی نہیں رکھتے اگر دلوں میں قربتیں ہوں تو۔جہاں الطاف حسین کو جلاوطن ہونے پر مجبور کیا گیا وہیں اس کی تحریک کو بدترین ریاستی آپریشن کا نشانہ بنایا گیا۔ مگر الطاف حسین کی قیادت میں ساتھی متحد رہے۔ کئی ساتھیوں نے راستے بدلے۔ کئی تحریک کی خاطر جان کی بازی ہارے مگرالطاف رک نہ سکا۔ پھر ایک دن وہ بھی آیا جسے تاریخ 22 اگست 2016 کہا جاتا ہے۔ یہ وہ دن تھا جب الطاف حسین نے ایک بار پھر سے نظام کے خلاف اعلان جنگ کیا ۔ مگر یہ کیا اس بار الطاف حسین کو جن کے بازوں پر بھروسہ تھا وہی اس کا ساتھ چھوڑ گئے۔ قداگر اونچا ہونے سے سر زخمی ہونے کا خطرہ ہو تو بیٹھ کر سر کو بچایا جاتا ہے لیکن لیٹا ہرگز نہیں جاتا ۔ سر نہیں جھکایا جاتا مگر اس بار جنہیں کھڑا رہنا تھا وہ بیٹھے نہیں بلکہ لیٹ گئے۔ دنیا نے سمجھا کے الطاف کو تنہا کردیا گیا ۔ وہ الطاف جو 40 سال سے ان کے لئے ناقابل تسخیر تھا اسے دیوار کے ساتھ لگا کر تنہاکرنے میں یہ کامیاب ہوگئے ہیں۔ مگر یہ ان کی بھول تھی شاید ۔ ۔۔ کہ شاید جو سفر 11 جون 1978 کو شروع ہو اتھا وہ سفر اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ لیکن ایسا نہیں تھا ۔۔ ۔ ۔ ابھی تو شروعات تھی ۔۔ احتساب کی ہر اس شخص کے احتساب کی جس نے الطاف حسین کے ساتھ غداری کی ، مہاجر قوم کے ساتھ غداری کی۔ ۔ ہر اس شخص کو جوب دینا تھا ۔ ۔ جسے الطاف حسین کے نام پر مہاجر قوم نے ایوانوں میں بھیجا مگر انہوں نے الطاف حسین کے نظریہ کو پس پشت ڈال کر اپنے اپنوں میں نوکریاں اور مراعاتیں تقسیم کیں۔
اپنا کاروبار چلاتے رہے۔ نائن زیرو پر بیٹھ کر الطاف حسین کو انہوں نے اندھیرے میں رکھنے کی کوشش کی اور اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ زمینوں پر قبضے کئے ۔ بھتے لئے ۔ مگر الطاف حسین کو بدنام کیا ۔ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ تمہاری حریف جماعت کے اویس ٹپی اور نجمی عالم جیسے لوگ تمہاری ان مجرمانہ سرگرمیوں میں تمہارے ساتھی تھے۔ الطاف حسین نے کہا کہ مہاجروں کے حقوق نہیں دلا سکتے تو استعفیٰ دو مگر ہر دفعہ تم نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی کیونکہ تمہارے کاروبار ان کے ساتھ منسلک تھے جن کے خلاف تمہیں آواز بلند کرنی تھی۔ پھر جب الطاف حسین نے بطور سپریم لیڈر میدان میں اتر کر نظام کے خلاف نعرہ لگایا ، اپنے ساتھیوں کے لہوں کا حساب مانگا تو سب نے اسے چھوڑ کر فرار اختیا رکرنے میں عافیت سمجھی ۔ کل تک جو قائد تھا ، جو آنکھ کا تارا تھا آج وہ سب سے برا ہے۔۔۔۔ تم نے 23 اگست 2016 کو اپنے علیحدہ سیاسی جدو جہد کا اعلان کیا جس کا مہاجر قوم سے کوئی تعلق نہ تھا۔ ۔ ۔ تم اپنے آپ کو بچانا چاہتے تھے۔ ۔ تم نے تنظیم ایم کیو ایم پر قبضہ کرنا چاہااور اپنی تئیں کامیاب بھی ہوگئے ۔ ۔ ۔ اس کے بعد اے ۔ پی ۔ ایم ۔ ایس ۔ او ۔ کے قیام کی 41ویں سالگرہ بھی آئی ۔ ۔ پھر تم نے اس طلبہ تنظیم جس کی بنیادوں میں صرف و صرف الطاف حسین سما یا ہوا تھا اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن صد شکر خدا ۔ ۔ ۔ ۔ تم کامیاب نہ ہوسکے۔ ۔۔ تمہیں ان 30 ہزار طالبعلموں نے تمہاری اوقات یاد دلائی جو 11 جون 1978 سے الطاف حسین کے نظریہ و فلسفہ پر کاربند ہیں ۔ ۔ وہ نظریہ جو ذہن بہ ذہن ، سینہ بہ سینہ ان تک منتقل ہوا۔ ۔ ۔ ۔ وہ نظریہ جس میں مراعات یافتہ کی بالادستی کو ہر صورت ختم کرنا تھا، وہ نظریہ جس میں محروم طبقے کو اس کا حق دلانا تھا ۔ ۔ وہ نظریہ جس میں آمریت کی ہر صورت میں نفی کرنی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ نظریہ جس میں تعلیم حاصل کرنی تھی اور اداروں کے ساتھ ساتھ سیاست میں اپنی جگہ بنانی تھی۔ ۔ ۔ آج بھی اس نظریے کی افزائش جاری ہے ۔۔۔اور اس نظریے پر عمل پیرا ہوکر تناور درخت بننے والے جوان ہی کل تمہارا احتساب کریں گے بالکل ویسے ہی جیسے انہوں نے مہاجروں کو استعمال کرنے پر جماعت اسلامی کا کیا اور پھر کراچی سے اسلام آباد تک ایوانوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔۔ ۔ ۔ یاد رکھو جب تک اے پی ایم ایس او ایک بھی جوان موجود ہے ۔ ۔ نظریہ الطاف کو کسی صورت ختم نہیں کیا جاسکتا نہ فکر الطاف کو دبایا جاسکتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply