جنرل صاحب! بتائیں نا۔۔۔۔۔۔ آخر کب تک؟

ڈاکٹر آپریشن کے بعد باہر آیا اور لواحقین پر دکھیاری نگاہ ڈالتے ہوئے کہا۔ ’’معاف کردیجئے گا ہم نے اپنی پوری کوشش کی لیکن ہم سردار جی کوبچا نے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ نرس متوفی کے پاس ہے آپ بھی اندر جاسکتے ہیں اور ضروری کاغذی کاروائی کے بعد لاش لے جاسکتے ہیں‘‘۔ سردار نی اور اس کے بچے روتے ہوئے اندر داخل ہوے ۔ نرس سردارجی کی ناک میں روئی ڈال رہی تھی۔دفعتاً سردارنی چیختے اور چلاتی ہوئی سردارجی پر پھیل گئی۔ سردارنی نے سردار کے لاشے کوجھٹکتے ہوئے کہا۔ ’’اوئے ظالماں، یہ تم نے کیا کردیا۔ مجھے اکیلا چھوڑدیا‘‘۔ سردار جی کے لاشے کو جیسے ہی دو تین جھٹکے ملے وہ ہوش میں آگیا (شاید ڈاکٹروں نے غلطی کردی تھی یا وہ اندرون سندھ والے یونیورسٹیوں کے ڈاکٹر تھے)۔ ہوش میں آتے ہی اس نے سردارنی کو کہا۔’’اوئے بلو، میں توزندہ ہوں‘‘۔ سردارنی نے فوراً کہا ’’اوئے چپ کر جھوٹے، تو ڈاکٹر سے زیادہ سیانا ہے؟‘‘۔ پتہ نہیں آگے کیا ہوا ہوگا کیونکہ میں نے لطیفہ یہاں تک سناہے۔

ویسے بھی ہمارے ملک میں روز بروز ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں کہ اب لطیفے بھی سچ لگنے شروع ہوگئے ہیں۔ شاید آپ لوگوں کو یاد ہی ہوگاپچھلے سے پچھلے سال قصہ خوانی بم دھماکے میں شہداء کے ساتھ ساتھ ایک بے ہوش زخمی کو بھی تابوت میں بند کردیا گیاتھا۔وہ تو اچھا ہوا کہ عین جنازے کے دوران اسے ہوش آیا ورنہ منوں مٹی تلے تابوت کے اندربے موت مرجاتا۔

جس طرح سردارنی کو اپنے زندہ شوہر سے زیاد ہ ڈاکٹر کے اوپر یقین تھا بالکل اسی طرح جب مقتدر اداروں اور حکمرانوں نے کہہ دیا کہ دہشت گردوں کی کمر تھوڑدی گئی ہے تو ہم نے بھی سکھ کا سانس لے لیا کہ اس معاملے میں یہ لوگ بہت سیانے ہیں۔ دوسری بات یہ ہیں کہ ان ’’بدبختوں‘‘ کو چونکہ ہمارے ادارے اور حکمران اچھی طرح جانتے ہیں اورباہمی راہ و رسم کی ایک طویل داستان رکھتے ہیں تو اس لئے جب انہوں نے کمرتوڑنے کا اعلان کردیا تو ہم نے من وعن یقین کرلیا کہ اب تو انشاء اللہ جان چھوٹی۔ اس لئے نہ ہم نے میڈیکل رپورٹ طلب کیا۔ نہ کمر کا ایکسرے، نہ بعد از علاج پرہیز اورنہ ہی اس آپریشن پر آنے والے اخراجات کاحساب۔ ہم میں سے کسی نے یہ بھی نہ پوچھا کہ اس کمر کو تھوڑنے کے لئے اپنے کتنے بازو ٹوٹے ہیں۔ کتنے سینے چھلنی اور کتنی سر پھٹ چکے ہیں۔ ہم نے یہ بھی نہ پوچھا کہ صاحب، کچھ بچت بھی ہوئی ہے یا کولیشن سپورٹ فنڈ میں ابھی تک خسارہ ہی خسارہ چل رہا ہے۔ ہم نے زمینوں کا حساب، مارشل لاؤں کا شمار، چیک پوسٹوں کے قطار، مشرفی یلغار، ملک ریاض ، ڈی ایچ اے سٹی اور ارسلان افتخار، ریمنڈ ڈیوس اور پتہ نہیں کیا کچھ پوچھنا مناسب نہیں سمجھا۔ ہمیں تو بس ایک ہی چیز کی خوشی تھی کہ اب کمر ٹوٹ گئی ہے اور اب ہم قدرے محفوظ ہیں۔ لیکن آج کوئٹہ حملے کے بعد احساس ہوا کہ کمر ٹوٹ گئی ہے لیکن شائد انہوں نے افغانستان کے کسی کارخانو مارکیٹ سے نئی کمر خرید لی ہے۔

ہربار کی طرح اس بار بھی سب سے اہم جانکاری یہی ہوگی کہ ’’سب سے پہلے خبر کس نے دی‘‘۔ کس نے پل پل کی خبریں نشر کی۔ ٹی آر پی ، سب سے زیادہ کس نے وصول کیا۔ کس نے سب سے زیادہ لاشوں اور زخمیوں کو کور کیا۔ کس نے اپنی برانڈ کی کفن ڈالے۔اور ہر بار کی طرح اس بار بھی سب سے اہم خبر یہی ہوگی کہ سب سے پہلے ہسپتال کون گیا۔ کس کو مریضوں نے کھری کھری سنادی۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی روایتی تعزیتی بیانات اور کھوکھلے اعلانات کی بھر مار ہوئی ہوگی۔ہر بار کی طرح اس بار بھی کسی نے فرمایا ہوگا ’’آخری دشمن کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی‘‘۔ کوئی ان سے پوچھے، جناب جنگ اس طرح لڑی جاتی ہے۔ اس سے زیادہ سنجیدگی سے تو ہمارے ہاں ساس اور بہوکی لڑائی لڑی جاتی ہے۔ کسی نے نمک حلالی کرتے ہوئے کہا ہوگا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وفاق اور بلوچستان ایک پیج پر ہیں اور نیشنل ایکشن پلان پر بھر پور عمل جاری ہے ۔ مجھے تو یقین نہیں آرہا کہ کسی بلوچ رہنما نے ایسا کہا ہوگا اور اگر کہا ہے تو ایک ’’غدار‘‘انہیں بھی سمجھا جائے۔ یہ عجیب ایک پیج ہے کہ جب بھی ترقیاتی کام ہو وہ پنجاب میں اور جب بھی خون کی ندیاں بہیں تو پختونخواہ اور بلوچستان میں۔اعلیٰ سطحی اجلاس میں اس عزم کا بھی اظہار کیا گیاہوگا کہ معصوم کیڈٹس کو وحشت وبربریت کا نشانہ بناکر دہشت گردوں نے قوم کی غیرت کو چیلنج کیا ہے‘‘۔کاش!کوئی انہیں بتائیں کہ صاحب! تم لوگوں کوبھی کبھی غیرت آئے گی‘‘۔ افسوس آج تک تو نہ آسکی۔ اس اجلاس میں یہ بھی کہا گیا ہوگا کہ عوام کے فعال تعاون سے انہیں دندان شکن جواب دیا جائے گا۔ ماشاء اللہ۔ چشم بددور۔ عوام نے ڈھاکہ میں بھی فعال تعاون کیا تھا وہ اب بدترین ریاستی انتقام کاشکار ہیں۔ کبھی ان کا حال احوال پوچھا ہے کبھی؟۔فعال تعاون تو خیبرپختونخواہ میں چارسدہ کے عوام نے کرکے بھی دکھایاتھا۔ دہشت گردوں کو ’’ہٹ اینڈ رن‘‘ منصوبے میں کامیاب نہ ہونے دیا اور انہیں گھیر دیا یہاں تک کہ فوجی جوان پہنچ گئے اور ان دہشت گردوں کو واصل جہنم کردیا۔اب اتنا تو لوگ کررہے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے محترم، کیا ٹینک بھی چلانا شروع کردیں؟۔ اس عوام نامی ’’بدبخت‘‘ مخلوق سے اور کتنی قربانیاں لینی ہے۔ اسحاق ڈار نے تو ان کا پہلے ہی بھرکس نکالا ہوا ہے اور رہی سہی کسر آپ لوگ ’’کوریڈور‘‘ میں پوری کردیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک سیاسی قائد نے کہاہوگا کہ ’’کوئٹہ حملہ ایک بزدلانہ فعل ہے‘‘۔ کیوں صاحب، آپ کو ان ظالموں سے بہادری کی توقع تھی جو پوری نہ ہوسکی؟۔ ہم بھی تو یہی کہہ رہے ہیں کہ ان ’’بزدلوں‘‘ کے دانت کھٹے کرکے ثابت کردیجئے کہ آپ لوگ ان سے زیادہ بزدل نہیں ہیں ورنہ ہم تو یہی سوچھیں گے کہ آپ بھی خدانخواستہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی صاحب نے یہ ارشادبھی کیا ہوگاکہ ’’دہشت گردوں کے مذموم عزائم کامیاب نہیں ہونے دینگے‘‘۔ اس محترم سے بس اتنی اپیل ہے کہ خدارا ، جس سنجیدگی کا درس آپ پارلیمینٹ کے جوائنٹ سیشن میں عمران وقادری کے دھرنے کے خلاف دے رہے تھے اس سنجیدگی کا مظاہرہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی کردیجئے۔ ورنہ آپ کی قوم پرستی کے لئے پختون باقی نہ رہیں گے۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی بڑے صاحب نے بریفنگ دیتے ہوئے فرمایا ہوگا، ’’ان بزدلانہ کاروائیوں سے دہشت گرد قوم کا عزم متزلزل نہیں کرسکتے‘‘۔پچھلے بار کی طرح صاحب ،اس مرتبہ بھی بڑے غصے میں ہوگا اور منہ سے بے ساختہ گالیاں بھی نکل رہی ہوگی۔محترم کے حضور میں کچھ کہنا خلاف آدب ہی ہوتا ہے اس لئے جان کی امان پاتے ہوئے، ہاتھ باندھے ہوئے اتنا عرض کریں گے ۔’’حضور، گالیاں نہ دیں۔ گالیاں تو کمزور لوگ دیتے ہیں۔ آپ تو اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے دنیا میں نمبر ون مانے جاتے ہیں ۔ اس لئے گالیاں نہیں۔ صرف گولیاں۔ اور وہ بھی ٹھیک ٹھیک نشانے پر اور ہوا سے نہیں بلکہ گھس گھس کر‘‘۔دل کے ایک کونے سے آواز آرہی ہے کہ چلا چلا کر یہ بھی پوچھ لوں ۔’’جنرل صاحب! بتائیں نا، اور کب تک لڑنا ہے؟کوئی حتمی تاریخ؟، کوئی بھرپور لائحہ عمل؟، کوئی معلوم اہداف؟،کوئی واضح حکمت عملی۔اور کتنی لاشیں ، اجھڑے گھر اورٹوٹے دل دیکھنے ہیں‘‘۔

Facebook Comments

سید اسرار علی
روزگار بین الاقوامی، تعلیم قومی اور تحریروتقریر مقامی ،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply