سینے کا ابھار۔۔۔۔۔زرک میر

تنگ وتاریک اور ترکے والی خستہ حال بلڈنگ کے کمرے میں دبکی بیٹھی  چند عورتیں موجود تھیں.
عمومی وضع قطع کا حامل شخص داخل ہوا اور پراعتماد لہجے میں بولا
کوئی نئی چھوکری آئی ہے کہ نہیں۔۔۔۔
دو لڑکیوں نے ایک نئی آئی ہوئی لڑکی کو آگے دھکیلا۔
سر سے پیر تک جائزہ لینے کے بعد وہ شخص بولا
اخ ۔۔۔یہ دھیلے کی بھی نہیں۔۔کوئی اور ہے کیا؟

ان میں سے ایک اور لڑکی آگے بڑھی۔۔۔۔

اس شخص نے بڑھ کر لڑکی کو دبوچا اور سینے میں ہاتھ ڈال کر ٹٹولنے لگا۔
لڑکی نے جھٹ سے اس شخص کی جیب میں ہاتھ ڈالا
یہ کیا کر رہی ہو؟۔۔۔اس شخص نے لڑکی کا ہاتھ جھٹکا۔۔دونوں باہم گتھم گتھا ہوئے،
بھڑوے تم میرے سینے میں کیا ڈھونڈ رہے ہو؟لڑکی نے اس شخص کا ہاتھ اپنی قمیض سے نکال باہر کیا۔
میں ابھار دیکھ رہا تھا ۔۔اس شخص نے آنکھیں نکالیں۔

تو ابھار دیکھتا ہے مجھے بھی دیکھنے دے کہ اس ابھار کو سہنے کی تمہاری جیب میں سکت بھی ہے کہ نہیں۔۔۔۔.لڑکی کی آواز میں ایک للکار تھی،

حرامزادی جیب میں ہاتھ ڈال کر سارے نوٹوں کو پلید کر دیا۔ان نوٹوں میں کچھ چندے میں دینے کے لئے تھے،اس شخص نے مروڑی ہوئی جیب سیدھی کرکے لڑکی کو موٹی گالی دی۔۔

چل پھر نکل ،اپنے نوٹوں کی طرح اپنے غلیظ قطروں کے لئے بھی چندے جیسا مقدس ڈبہ دیکھ لے ۔۔لڑکی نے پھنکار کر اسے کمرے سے باہر دھکیلا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ شخص جیب پر ہاتھ رکھتے ہوئے بڑبڑاتا ہوا سیڑھیاں اتر گیا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply