• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سیرل المیڈا ، ریاستی ادارے اور نون غنیت ۔۔۔۔ آصف محمود

سیرل المیڈا ، ریاستی ادارے اور نون غنیت ۔۔۔۔ آصف محمود

 ڈان نیوز کے صحافی سیرل المیڈا کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا ہے۔ احباب با جماعت کچھ اس ادا سے نوحہ کناں ہیں کہ گاہے محسوس ہوتا ہے سیرل المیڈا صاحب روز صبح ناشتہ کرنے شانزے لیزا جایا کرتے تھے اور اب ای سی ایل میں نام ہونے کی وجہ سے نہیں جا سکیں گے۔ یہ رسم دنیا بھی ہے ، موقع بھی ہے ، دستور بھی ہے۔ چاہوں تو میں بھی ’ آزادی صحافت ‘ کے نام پر ایسی بغلیں بجاؤں کہ آپ پر وجد طاری ہو جائے ۔ لیکن میں چیزوں کو اپنی آنکھ سے دیکھتا ہوں ۔ باوجود اس کے کہ آمریت سے نفرت اور آئین سے محبت کو میں اپنا فکری زاد راہ سمجھتا ہوں، مجھے نہ سیرل المیڈا صاحب سے کوئی ہمدردی ہے نہ ہی میں اس مرحلے پر ان کے ساتھ کھڑا ہوں۔۔۔۔ نہ چیزیں اتنی سادہ ہیں، نہ ہم سب نون غنے ہیں کہ دربار عالیہ سے اشارہ ہو اور ہم بغلیں بجانا شروع کر دیں۔

یہ آزادی صحافت کا مقدمہ ہی نہیں ہے ۔نون غنوں نے تجربہ کاری سے البتہ اسے ’’ آزادی صحافت‘‘ کا مسئلہ بنا دیا ہے۔ اصل مقدمہ ہی کچھ اور ہے۔ ایک انتہائی اعلیٰ سطحی میٹنگ ہوتی ہے ۔ ملک حالت جنگ میں ہے ۔ اس کی خبر اتنی تفصیل سے کسی صحافی کوکیسے دے دی جاتی ہے۔ خبریں لیک ہوتی رہتی ہیں لیکن یہ خبر لیک نہیں ہوئی، یہ اہتمام سے جاری کی گئی جیسے میٹنگ کے منٹس جاری کیے جاتے ہیں۔۔۔

کیوں؟ اس خبر کا حاصل کیا ہے؟ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ 1۔ اپنی فوج کے خلاف فرد جرم عائد کی گئی اور بھارت کے موقف کی تائید کی گئی کہ خطے میں اصل مسئلہ پاکستان کی فوج ہے۔ 2۔ دنیا کو بتایا گیا کہ ہمارا تو فوج کے ساتھ شدید مسئلہ چل رہا ہے۔ ہم امن چاہتے ہیں لیکن فوج امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اہتمام سے خبر میں بتایا جاتا ہے کہ کسی ا ور نے نہیں خود شہباز شریف نے ڈی جی آئی ایس آئی سے کہا کہ ہم ان کالعدم تنظیموں کے لوگوں کو پکڑتے ہیں لیکن آپ چھڑا لے جاتے ہیں۔ یہ ایک اہتمام تھا تا کہ کل کلاں حالات خراب ہو جائیں تو دنیا سے کہا جائے ہمیں تو اس بات کی سزا ملی کہ ہم امن چاہتے تھے اور اسی بات پر ہمارا فوج سے تنازعہ ہوا۔ 3۔ ملک میں ایک ماحول بنا دیا گیا کہ حکومت فوج کو سیدھی ہو گئی ہے۔ اب جو صحافی نون غنوں کے خلاف لکھے گا وہ ’ بوٹ پالش ‘ کا طعنہ سنے گا اور جو سیاست دان احتجاج کرے گا اس کی یہ کہہ کر بھد اڑا دی جائے گی کہ ’’ کسی طاقت‘‘ کے اشارے پر سب کچھ کر رہا ہے۔ آثار بتا رہے ہیں کہ عمران خان تیس اکتوبر کو نکلا تو اسی طعنے کی زد میں ہو گا۔

دنیا بھر میں حکومتیں اپنے اداروں سے بات کرتی ہیں ، ان کے درمیان اختلافات بھی چلتے ہیں لیکن اتنی اہم میٹنگ کی یوں لمحہ لمحہ تفصیل کبھی ’لیک‘ نہیں کی جاتی۔ ہاں جب سالوں بعد ڈاکومنٹس ڈی کلاسیفائی ہوں تب سب کچھ سامنے آ جاتا ہے۔ یہاں سب کچھ فورا کیسے اور کیوں سامنے آگیا۔ دوست طعنہ زن ہیں کہ ایٹمی ریاست ایک خبر سے ہل گئی۔ جی نہیں خبر سے نہیں وہ اس بات سے ہل گئی کہ اتنی اہم میٹنگ کے منٹس کیسے لیک ہو گئے۔ کیا ایک ایٹمی قوت کی حامل حکومت اتنی غیر سنجیدہ ہوتی ہے۔ ہمارے اداروں سے بھی غلطیاں ہوئی ہوں گی ۔ بہت سے معاملات اصلاح احوال کے طالب بھی ہوں گے لیکن یہ خبر اصلاح احوال کی طلب سے زیادہ نفسیاتی گرہوں کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ کیا ’را‘ یا دیگر تنظیمیں کسی پراکسی میں شامل نہیں۔ کیا وہ صرف بھگوان کی پرارتھنا کرتے ہیں ۔۔۔ اور کچھ نہیں کرتے۔کیا کبھی کسی اور ملک میں اس انداز سے اپنے اداروں پر فرد جرم عائد کی جاتی ہے۔ شہباز شریف سے پوچھا جانا چاہیے کہ کالعدم تنظیموں کے لوگ صرف آئی ایس آئی چھڑا کر لے جاتی ہے یا قبلہ رانا ثناء اللہ صاحب بھی سفارش لے کر آ جاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اداروں کو سینگوں پر لینے والے اپنے نامہ اعمال کی سیاہی کب دیکھیں گے۔ یہ ساری واردات نون غنوں کی ہے ۔آزادی صحافت کا یہ مسئلہ نہیں۔ البتہ ہم یہ ضرور جاننا چاہیں گے کہ وہ مخصوص صحافی کون کون سے ہیں جنہیں مشاورت اور دیگر خدمات کے لیے طلب کیا جاتا ہے اور خبریں لیک کی جاتی ہیں تو کن کو کی جاتی ہیں۔ باقی رہ گئے سیرل المیڈا تو ان کے ساتھ کچھ نہیں ہوا۔ ای سی ایل پر نام ڈالنا بھی حکومت کی نون غنیت کے علاوہ کچھ نہیں۔ اسے بھی حکومت کی ایسی واردات سمجھا جائے جس کا نشانہ وہ نہیں جو نظر آرہا ہے۔ سیرل المیڈا تو بہانہ ہے، نشانہ تو اپنے ادارے ہیں۔ عالمی سطح پر انہیں مزید ناخوشگوار صورت حال سے دوچار کر دیا گیا ہے۔ ہمارے ادارے دودھ کے دھلے یقیناً نہیں ۔ ان سے بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں. یہ بھی درست ہے کہ فارن پالیسی بنانے کا حق پارلیمان کا ہے ۔لیکن یہ خبر اصلاح احوال کی کوشش نہیں، ایک واردات تازہ ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply