پہچان کا سفر 3: لاجواب اور چنے ہوئے لوگ ۔ ۔ ۔ محمود فیاض

دوستو! پہچان کے سفر کے پچھلے پڑاؤ میں ہمارے انتہائی سخت گیر استاد خانصاؔحب ہمیں جنت کی راہ دکھلاتے دکھلاتے، خود مسجد جیسی پاک جگہ سے ڈورے مون کی طرح ایک دروازہ جہنم کا کھول کر روانہ ہو گئے۔ ہم کچھ دن بے یقینی کی کیفیت میں ادھر ادھر ڈولتے رہے اور پھر آنے والے امتحانوں کے خوف کو جھیلنے میں مصروف ہو گئے۔

اسکول نے ہمیں سارے سوالوں کا جواب تو اگرچہ نہ دیا، مگر ایک سادہ سی خود اعتمادی ضرور تھما دی تھی۔ ہم اپنے تئیں دنیا و مافیہا کا ہر علم اپنے اندر سمو چکے تھے۔ ہم جان چکے تھے کہ پاکستان اللہ میا ں جی کے ایک خاص پلان کے تحت وجود میں آیا ہے اور خوش قسمتی سے ہم چونکہ پاکستان ہی میں پیدا ہوئے ہیں اس لیے ہم بھی اس پلان کا حصہ ہی ہیں ۔ ہم اس بات پر بھی اندر ہی اندر خوش تھے کہ جو بات ساری دنیا کو نہیں پتا یعنی کہ اسلام ایک واحد سچا دین ہے، وہ ہمیں خود بخود پتہ چل گئی ہے۔ اور میٹرک میں اچھے گریڈز آنے کے بعد تو ہمارا مغرور ہونا بنتا ہی تھا، کہ لائف ہر طرح سے سیٹ تھی۔
ہمارا ملک، ہمارا دین، اور ہم خود لاجواب اور چنے ہوئے تھے۔ باقی ساری دنیا اور کائنات محض حاشیہ برداری کے لیے بنائی گئی تھی۔ اس دنیا میں دو سو سے زائد ملک اور ان میں بستی قومیں محض اس لیے آباد تھیں کہ ڈھورڈنگروں کی طرح چارہ کھائیں، بچے پیدا کریں اور مر جائیں۔ صرف ہمیں بحیثیت پاکستانی مسلمان یہ پتہ تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ ہم نے کیسے اس ساری دنیا پر چھا جانا ہے، اور کیسے جنت میں بھی باقی قوموں پر برتر رہنا ہے۔ ہمیں اس کائنات کے شروع ہونے سے پہلے سے لیکر قیامت تک کے سب حالات کا علم تھا۔ بلکہ قیامت کے بعد جنت میں پلاٹوں کی قرعہ اندازی کے نتائج اور جہنم کے طبقات کی لسٹیں بھی صرف ہمی کو معلوم تھیں۔

اسکول سے نکلنے کے بعد تیسر ے سال میری ملاقات فراز انجمؔ سے ہوئی۔ وہ میرا دوست اور ہماری کلاس کا سب سے لائق لڑکا تھا، اور کالج کے دو سال مکمل کر کے امریکہ جا چکا تھا اور کسی یونیورسٹی میں کمپیوٹر انجنئیرنگ کی ڈگری کر رہا تھا۔ اس نے ایک عجیب بات بتائی۔ کہنے لگاکہ میں جب امریکا گیا تو جیسا کہ ہمیں پتہ تھا کہ صحیح رستہ کونسا ہے، خدا نے یہ دنیا کیوں بنائی، اور یہ کہ قیامت کے بعد کیا ہوگا ، تو میں نے سوچا ہوا تھا کہ میں نے جاتے ہی اللہ اکبر کا نعرہ مارنا ہے۔ لوگوں کو دین کی سچ سچ باتیں بتانا ہیں، اور انہوں نے فوراً میرے ہاتھ پر کلمہ پڑھ لینا ہے۔ مگر یار ! وہاں جیسے ہی میں نے اسلام کا نام لیا ، انہوں نے دس سوال میرے سامنے رکھ دیے ۔ پریشانی کی بات یہ تھی کہ ان میں سے اکثر سوال وہ تھے جو ہمیں اسکول میں پوچھنے پر منع کیا ہوا تھا۔ جیسے کہ کائنات اگر خدا نے بنائی ہے تو خدا کو کس نے بنایا؟ یاد ہے نا! وہ عبدالرحمٰن صاحب ہمیں روک دیا کرتے تھے کہ ایسے سوال سوچنا بھی گناہ ہے۔ تو ہم نے تو نہیں سوچے، مگر وہ امریکا والے تو وہی سوال پوچھتے ہیں۔ یار! وہ تو ہمارے نبیؐ پر بھی سوال کرتے تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ پاکستان کو ایک خاص مقصد کے لیے بنایا گیا ہے، تو وہ ہنسنے لگے۔ کہنے لگے کہ پھر تم ادھر پڑھنے کیوں آگئے، تم ادھر ہی رہتے، ہم یہ سب پڑھنے تمہارے ملک میں آتے، اور لگے ہاتھوں خدا کو بھی دیکھ لیتے۔ وہ ضرور تمہاری ہمسائیگی میں ہی رہتا ہوگا۔ یار وہ ایسے مذاق بھی کر لیتے ہیں جو ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔

فراز انجمؔ سے ملاقات کے بعد بظاہر تو کچھ نہ ہوا مگر میں نے محسوس کیا کہ میرے اندر کہیں کچھ ٹوٹ سا گیا ہے۔ ان بدتمیز، مذاق اڑاتے، ہنستے ہوئے امریکیوں کا سامنا تواس نے کیا تھا، مگر مجھے اندر ہی اندر شرمندگی سی ہو رہی تھی۔ میں انکو جواب دینا چاہ رہا تھا۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ جواب بن نہیں پا رہا تھا۔ پاکستان میں تو جیسے ہی ہم خدا اور رسول کا نام لیتے، سامنے والا مؤدب ہوجا تا۔ مجھے یاد ہے ہم کالج کی جانب سے ایک تعلیمی دورے پر پنڈی گئے ہوئے تھے۔ اور ایک روز ہم اپنے اپنے بیگ کاندھوں پر ڈالے کہیں جا رہے تھے کہ ایک دوست نے کہا کہ ایسا نہیں لگ رہا جیسے ہم تبلیغی دورے پر نکلے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا یہ کیا بات کر دی تم نے، لو اب میرا کمال دیکھو۔ میں نے سامنے جاتے تین چار لوگوں کو روکا اور بالکل تبلیغی جماعت کے انداز میں تبلیغ شروع کر دی۔ کہ آپ بھائیوں کو پتہ ہے کہ یہ دنیا کی سوسال کی زندگی قیامت کے چند سیکنڈز کے برابر بھی نہیں، اور میرے بھائیو! آپ نیت کرو ۔ ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ۔ وہ لوگ خاموشی اور عقیدت سے میری بات سنتے رہے۔ میں کتنی ہی دیر بولتا رہا اور وہ خاموش کھڑے سنتے رہے۔ تو پاکستان میں تو ایسا ہوتا تھا۔ اب ایسے لوگوں کو کون تبلیغ کرے جو پہلی بات پر ہی آپ کے منہ پر دس سوال دے ماریں۔ اور سوال بھی ایسے کہ جن کا جواب آپ قران حدیث سے نہیں دے سکتے ، کیونکہ وہ تو قران و حدیث کو مانتے ہی نہیں۔ میں شرمندگی اور غصے کے مارے اندر ہی اندر کئی دن کھولتا رہا۔
پھر میں نے فراز انجمؔ کو فون کیااور کہا کہ میں کچھ دیر کے لیے اس سے دوبارہ ملنا چاہتا ہوں۔ اس نے مجھے گھر ہی بلا لیا۔ میں نے اس سے کہا کہ وہ ان امریکیوں کے پوچھے گئے سوال ایک کاغذ پر لکھ لے اور ہم جا کر کسی عالم دین سے ملیں گے اور ان سوالوں کے جواب ڈھونڈ کر تم ساتھ لے جانا اور ان امریکیوں کے منہ پر مارنا۔ ابھی ہم وہ سوال لکھ ہی رہے تھےکہ فرازؔ کے ابو جو ڈرائنگ روم میں ہی بیٹھے تھے، ہماری باتیں سن کر ہمارے پاس آکر بیٹھ گئے۔ وہ ائیر فورس سے ریٹائر ہو چکے تھے ۔ کہنے لگے کہ جو سوال تم لکھ رہے ہو، یہی سوالات تو بچپن سے ہمیں بھی تنگ کرتے تھے اور کوئی استاد ہمیں یہ سوال کرنے نہیں دیتا تھا۔ میں آج بھی ان سوالوں کے جوابات جاننا چاہتا ہوں مگر کوئی ایسا نہیں ملتا جو ان کا جواب دے سکے۔ ہم نے کہا کہ ہم نے تو ایک دو ایسے عالموں کا پتہ لے لیا ہے جنہوں نے درجنوں کتابیں لکھ رکھی ہیں، ہم یہ سوال انکے پاس لے کر چلیں گے۔ فراؔز کے ابو بولے، پھر تو میں بھی چلوں گا۔

لکشمی چوک اور گوالمنڈی کے نواح میں ایک اسلامی کتابوں کی پبلشنگ کا ادارہ تھا۔ یہ دو دہائی پہلے کی بات ہے، اب شائد “جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکاں اپنی بڑھا گئے” والا معاملہ ہو گیا ہو۔ وہاں ایک ایسے عالم سے ہماری ملاقات ہوئی جو دسیوں کتابوں کے مؤلف اور عالم دین تھے۔ انہوں نے بڑی خوشی سے ہمارا تعارف سنا، جب ہم نے انکو بتایا کہ ہم پکے سچے مسلمان ہیں مگر کچھ سوالات ہیں جو زہن کو پریشان کرتے ہیں۔ تو اگر وہ حل ہو جائیں تو ہمارا دل اور مطمئن ہو جائے گا۔ وہ خوشی خوشی اسکے لیے تیار ہو گئے۔ ہم نے ایک دو سوال انکے سامنے رکھےتو انہوں نے انکے وہی جوابات دینا شروع کیے جو بچپن سے ہم سنتے چلے آئے تھے اور کبھی مطمئن نہ ہو سکے تھے۔ ہم نے انکو ٹوکا اور عرض کی کہ اگر وہ قران و حدیث کے حوالوں سے پہلے بنیادی سوالوں کے جواب دے دیں۔ تو کیا آپ قران و حدیث کو نہیں مانتے ؟ وہ برا مان گئے۔ ہم نے دوبارہ اپنا تعارف اور مشکل بیان کی۔ مگر وہ یہ بات ماننے کو ہی تیار نہ تھے کہ مسلمان بھی اور سوال بھی ۔ ہم اسی دیوار کے سامنے تھے جس کا سامنا ہمارا بچپن، حتیٰ کہ فرازؔ کے ابو کا بچپن بھی کرتا رہا۔ بالآخر فرازؔ نے ان صاحب کو اپنی مشکل بتائی جو امریکا میں “سچ کی تبلیغ” میں اسکو در پیش تھی۔ اس پر ان عالم صاحب کی آنکھیں چمک اٹھیں، تو یوں کہیے نا! کہ آپ کو مشرکوں کے سوالوں کے خلاف دلائل چاہییں، اس پر تو میں نے دو تین کتابیں تصنیف کیں ہیں، آپ وہ لے جائیے، انشااللہ مشرکوں کے منہ بند ہو جائیں گے۔ ہم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو اٹھنے کا اشارہ کیا۔

عالم صاحب کی دی ہوئی کتابیں تو خیر کیا پڑھنا تھیں کہ ایسی بہت ساری کتابیں ہم سب پہلے ہی پڑھ چکے تھے۔ البتہ اسکے بعد دوسرے، تیسرے اور چوتھے عالم کے پاس جانے سے ہم اپنے آپ کو سقراطؔ کا کلاس فیلو سمجھنے لگے تھے۔ ہمیں اندازہ ہو چلا تھا کہ ہمارے بیشتر “عالم دین” کو دنیا کا بھی بنیادی علم حاصل نہیں تو وہ مافیہا کو کیسے بیان کر سکتے ہیں۔ مگر حیرت اس بات پر ہوتی تھی کہ ہر عالم “علم الیقین” کے اس درجے پر پہنچا ہوا لگ رہا ہوتا تھا کہ جیسے اسکو سب کچھ علم ہے۔ بعد کے کئی سالوں میں میں جب بھی ایسے “یقین” والے علما سے ملتا تھا تو ان سے علمی سوالات کا جواب مانگنے کی بجائے التجا کرتا کہ وہ مجھے اس “درجہ یقین” کا ہی کوئی سراغ دے دیں ، جو انکو بن سمجھے بن جانے حاصل ہے۔

فرازؔ واپس امریکا چلا گیا، اسکے ابو پھر مسجد میں اپنا ایمان پختہ کیے جانے لگے۔ میں یقین اور بے یقینی کی ایک نئی بحث اپنے اندر چھیڑ کر بیٹھ گیا۔ سوال بہت تھے، جواب دینے والا کوئی نہیں تھا۔ پھر کالج میں ایک ایسے بندے سے ملاقات ہوئی جو مجھے دوزخ سے بچانا چاہتا تھا۔ وہ کیوں جانتا تھا کہ میں دوزخ میں ہی جاؤں گا، یہ کہانی پھر سہی۔ رب کائنات آپ کو خوشیاں دے۔ آمین۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ: آپ دوستوں کی اس سلسلے کی پسندیدگی کے لیے میرے پا س الفاظ نہیں کہ میں شکریہ ادا کر سکوں ، مگر کچھ وضاحتیں ضروری ہیں۔ مضامین کا یہ سلسلہ کسی بھی طرح سے ایک علمی یا تحقیقی موضوعات کا احاطہ نہیں کرتا۔ بلکہ یہ صرف ایک ایسے سفر کی داستان ہے جو ہمارے معاشرے میں پیدا ہونے والے اکثر لوگوں کو درپیش ہوتا ہے، اپنی پہچان کا سفر، جو ہر ایک کے لیے الگ اور منفرد ہوتا ہے۔ ایک بات کا یقین رکھیں، ان مضامین کے آخر میں نہ تو آپ کو کسی مسلک کا جھنڈا ملے گا، نہ ہی کسی بابے کا ڈیرہ، اور نہ ہی خود یا خدا تک پہنچنے کی مشقوں والی سی ڈی۔ البتہ میرا گمان ہے کہ اگر آپ میرے ساتھ ساتھ اس داستان کا حصہ بنے رہے، تو ایسے بہت سے کرداروں سے ملیں گے، جو ہو سکتا ہے آپ کے آس پاس بھی رہتے ہوں، جو میری پہچان کے رہنما بنے، جو آپ کو آپ کی پہچان تک لے جاسکیں۔ آپ کے وقت اور توجہ کا شکریہ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply