موت پر قابو پانے کی خواہش ۔۔یاسر پیرزادہ

جلال الدین محمد اکبر سے بڑا مغل شہنشاہ کوئی نہیں گزرا، اکبر اعظم اسے کہا جاتا ہے، اس کا دورِ اقتدار تقریباً نصف صدی پر محیط ہے، اکبر نے جنگیں لڑیں، اصلاحات کیں اور اقتصادی ترقی کی مثال قائم کی جس سے مغلیہ سلطنت کی وسعت اور دولت میں تین گنا اضافہ ہوا۔ اکبر اعظم آرٹ اور فنونِ لطیفہ کا سرپرست بھی تھا، اس کے دربار میں نہایت عالم فاضل لوگ موجود ہوتے اور وہاں ہر قسم کی علمی اور مذہبی بحثیں ہوتیں، دنیا کا کوئی علم ایسا نہیں تھا جس کا استاد اکبر اعظم کے پاس موجود نہ ہو، طب سے لے کر فلسفے تک اور الٰہیات سے لے کر فلکیات تک شاید ہی کوئی ایسا ماہر ہو جو اُس زمانے میں اکبر اعظم کی دسترس میں نہ ہو مگر اِس تمام طنطنے، کروفر، طاقت اور ذہانت کے باوجود شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر 3اکتوبر 1605ء کو ڈائسنٹری کے مرض میں مبتلا ہوئے اور چوبیس دن بعد یعنی 27اکتوبر 1605ء کو انتقال فرما گئے۔
خالدؓ بن ولید کے بعد مسلمان اگر کسی جرنیل کو آئیڈیلائز کرتے ہیں تو وہ سلطان صلاح الدین ایوبی ہے، ’’دشت تو دشت ہیں، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے‘‘ کی مثال سلطان ایوبی پر فٹ بیٹھتی ہے، یہ وہ سلطان ہے جس نے یروشلم فتح کیا، ایوبی سلطنت کی بنیاد رکھی اور مصر، شام، حجاز، یمن اور شمالی افریقہ تک فتح کے جھنڈے گاڑے۔ سلطان ایوبی اور انگریز بادشاہ رچرڈ کے جنگی معرکے بھی تاریخ کا حصہ ہیں، ایسے ہی ایک معرکے کے دوران رچرڈ نے سلطان کو پیشکش کی کیوں نہ اُس کی بہن کی شادی سلطان کے بھائی سے کر دی جائے اور بدلے میں یروشلم کو شادی کا تحفہ سمجھا جائے۔ سلطان ایوبی نے یہ پیشکش مسترد کر دی تھی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی جیسا دیو مالائی کردار 4مارچ 1193ء کو فقط 56برس کی عمر میں انتقال کر گیا، موت کی وجہ بخار تھی، جسے آج کل کے زمانے میں ٹائیفائیڈ کہا جاتا ہے۔

ساتویں عباسی خلیفہ کا نام المامون تھا، یہ خلیفہ ہارون الرشید کا بیٹا تھا، اس نے بیس سال حکمرانی کی، المامون ایک تعلیم یافتہ حاکم تھا، عقلی توجیہات پر یقین رکھتا تھا اسی لیے خلیفہ مامون کے دور میں معتزلہ تحریک کو کافی سرپرستی حاصل رہی، اسی دور میں علم کیمیا کو بھی عروج حاصل ہوا، جابر بن حیان نے خلیفہ کی سرپرستی میں کام کیا اور گو کہ سونا بنانے میں ناکام رہا مگر اس کیمیا گری سے دیگر ایسے مرکبات بنانے میں کامیاب ہوا جنہیں بعد میں ادویات میں استعمال کیا گیا۔ خلیفہ مامون نے دنیا کے نقشے بھی بنوائے، اس کام کے لیے خلیفہ نے جغرافیہ اور فلکیات کے ماہرین کو اکٹھا کیا اور انہیں یہ کام سونپا۔ یہ نقشہ آج بھی استنبول کے توپ کاپی عجائب گھر میں محفوظ ہے۔ ایک روز خلیفہ مامون اپنے مصاحبین کے ساتھ دریا کے کنارے بیٹھا تھا، اچانک اس نے پوچھا کہ اس پانی کے ساتھ کون سی چیز کھانی چاہئے، کسی نے بتایا کہ فلاں قسم کی کھجور بہترین رہے گی، فورا ً وہ کھجوریں منگوائی گئیں، سب نے کھائیں اور سب بیمار پڑ گئے مگر کچھ عرصے بعد تندرست ہو گئے۔ خلیفہ مگر اس بیماری سے جانبر نہ ہو سکا اور 9اگست 833ء کو 47برس کی عمر میں انتقال کر گیا۔ انتقال کی وجہ فوڈ پوائزننگ سمجھ آتی ہے۔

آج کی دنیا میں اگر کسی کو بخار ہو جائے تو پانچ دن اینٹی بایوٹک کھانے کے بعد وہ ٹھیک ہو جاتا ہے، آئے دن لوگوں کو ڈائریا اور فوڈ پوائزننگ ہوتی ہے مگر شاذ و نادر ہی کوئی فوت ہوتا ہے، ان بیماریوں کی کیا اوقات اب تو میڈیکل سائنس مصنوعی دل گردے لگا کر بندے کو زیرو میٹر کر دیتی ہے۔ شاہ جہان کی بیوی ممتاز محل کے چودہ بچے تھے، ان میں سے آدھے پیدائش کے کچھ عرصے بعد مر گئے۔ اکبر بادشاہ کے جو بچے مرے ان میں فاطمہ بیگم سات ماہ کی بچی ماں کے پیٹ میں ہی مر گئی، حسن اور حسین جڑواں بچے پیدائش کے فوراً بعد مر گئے۔ میٹی بیگم 1571ء میں مر گئی، ماہی بیگم چھ سال کی عمر میں فوت ہو گئی اور خسرو مرزا بھی بچپن میں مر گیا۔ اکبر اعظم کو اگر آج کے دور کی میڈیکل سائنس کی سہولت میسر ہوتی تو شاید اُس کا کوئی بھی بچہ ایسے نہ مرتا۔ شاہ جہان کے بچے بھی بچ جاتے سوائے اُن کے جنہیں اورنگزیب نے قتل کر دینا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں اگر اینٹی بایوٹک ہوتی تو سلطان کبھی ایک معمولی بخار سے نہ مرتا۔ خلیفہ مامون رشید کے بغداد میں اگر آج کی طرز پر کوئی جدید اسپتال ہوتا تو وہ کھجوریں کھا کر فوت نہ ہوتا۔ اور یہ صرف مسلمانوں کی بات نہیں، اُس دور میں یورپ میں بھی لوگ ایسے ہی معمولی بیماریوں سے مر جاتے تھے، آج سے سو سال پہلے ہندوستان اور جنوبی کوریا کے علاقوں میں اوسط عمر 23برس تھی جبکہ آج ہندوستان میں یہ عمر تین گنا جبکہ جنوبی کوریا میں چار گنا بڑھ چکی ہے۔ دنیا میں 1841ء میں پیدا ہونے والے بچے کے بارے میں (اگر وہ اپنی پانچویں سالگرہ گزار لیتا) امید کی جا سکتی تھی کہ وہ 55برس تک زندہ رہ سکے گا۔ آج پیدا ہونے والے پانچ سال کے بچے کے بارے میں یہ عمر بڑھ کر 82سال ہو چکی ہے۔

پچھلے پانچ سو سال میں سائنس نے جو ترقی کی سو کی مگر میڈیکل سائنس نے ایک خاموش انقلاب برپا کر دیا ہے، اب وہ دن لد گئے جب عمل جراحی کے دوران لوگوں کی چیخیں نکل جاتی تھیں، اب ڈاکٹر آپ کو الٹی گنتی سنانے کے لیے کہتا ہے اور آپ دس، نو، آٹھ، سات گننے سے پہلے ہی انیستھیزیا کے زیر اثر بیہوش ہو جاتے ہیں، ہوش میں آتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا سینہ چاک کرکے بند بھی کیا جا چکا ہے۔ ترقی کا یہ سفر کبھی رکتا نہیں بلکہ آگے بڑھتا ہے۔ انسان اپنی عمر میں اضافہ کر چکا ہے، بے شمار موذی امراض کا خاتمہ کر چکا ہے اور نئی بیماریوں سے بھی نبرد آزما ہے۔ اب سائنس دان اس کھوج میں ہیں کہ موت کے عمل کو کیسے روکا جائے، بڑھاپے کو کیسے ٹالا جائے اور ہمارے جسم میں جوبیکٹیریا اس عمل کا موجب بنتے ہیں اُن پر کیسے قابو پایا جائے۔ ہم میں سے جو لوگ (بشمول اس خادم کے) اس بات کو ناممکن سمجھتے ہیں یا یوں کہیے کہ ہماری یہ خواہش نہیں کہ انسان موت پر قابو پا لے، ان کی خدمت میں عرض ہے کہ ہماری خواہشات پر یہ دنیا نہیں چلتی، اکبر اعظم اگر آج سان ہوزے (سیلیکون ویلی) دیکھ لے تو لامحالہ اسے طلسم ہو شربا کا کوئی منظر سمجھ کر مبہوت ہو جائے، لہٰذا کچھ سائنس دانوں کا یہ دعویٰ کہ اگلے تیس چالیس برس میں انسان اس قابل ہو جائے گا کہ وہ زندگی کو غیر معینہ مدت تک بڑھا سکے، اتنا بھی ناممکن نہیں جتنا بادی النظر میں لگتا ہے۔ میاں محمد بخش نے کہا تھا ’’عیداں تے شبراتاں آئیاں، سارے لوکی گھر نوں آئے، او نئیں آئے محمد بخشا، جیہڑے اپنے ہتھیں دفنائے‘‘۔ یہ بات سچ ہے مگر جس رفتار سے سائنس آگے بڑھ رہی ہے اسے دیکھ کر لگتاہے کہ میاں محمد بخش کی شاعری میں سو سال بعد کچھ ترمیم کرنا پڑے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ روزنامہ جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply