محمود فیاض کو جواب۔۔۔فیصل مجید اعوان

سوشل میڈیا پر ان دنوں مولانا الیاس گھمن صاحب کا واقعہ موضوع بحث ہے اور کثیر تعداد میں ڈاکٹر ان کا مسلسل روزِاول سے پوسٹمارٹم میں مصروف ہیں،اور ایک مزّکی طبقہ جو کہ انتہائی،پاکیزہ،معطر،منور،معنبر ہے جس سے کبھی کوئی لغزش و گناہ ہوا ہی نہیں وہ انھیں تزکیہ کی سولی پہ مسلسل تول رہا ہے۔میری اس تحریرکے یہ دونوں مقصد ہرگز نہیں بلکہ مکالمہ میں شائع ہونے والاایک صاحب محمود فیاض کے مضمون کے چند مندرجات سے اختلاف ہے جو دائرہ حدود کے اندر ہی ہوگا۔ موصوف رقمطراز ہیں!

“””” ۔۔ دوستو! الیا س گھمن صاحب کا فیصلہ معاشرے کے ہاتھ چھوڑ کر ہم زرا اس بات کا جائزہ لیں گے کہ مذہبی لوگوں میں جنسی جرائم کی شدت اس قدر کیوں ہے کہ ہر ایسے واقعے پر لوگ دانتوں میں انگلیاں دبا لیتے ہیں۔ کیوں آخر ایسے لوگ جو آنکھ، کان اور ہاتھ کے زنا پر تفصیلی خطبے دیتے ہیں، موقع ملنے پر جہنم کے نویں طبقے کے لیے کوالیفائی کر جاتے ہیں؟ سادہ سے الفاظ میں جس مولوی کو اہل محلہ سب سے پاک جگہ پر سب سے محترم کام (یعنی عبادت) کے لیے بٹھاتے ہیں، وہ بالاآخر اسی پاک جگہ پر اپنی خباثت کی ساری حدیں پار کرجاتا ہے۔”؛؛”

 ” مذہبی لوگوں میں جنسی جرائم کی شدت اس قدر کیوں ہے؛۔۔۔۔۔۔۔

جناب محمود فیاض صاحب کیا خوبصورت تجزیہ آپ نے بیٹھے بیٹھائے کر ڈالا اور ارشاد فرما دیا مذہبی لوگوں میں جنسی جرائم کی شدت اس قدر کیوں ہے لگتا ہے جہاں کی آپ بات کر رہے ہیں وہاں روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں واقعات و سانحات ہوتے ہیں جس کے آپ عینی شاہد ہیں جبکہ یہاں ایسا نہیں ہے وہ بھی ایک ایسا واقعہ جس کو آپ نے بنیاد بنایا جس کی ابھی تک صداقت ہی مشکوک ہے اور تصدیق کے بغیر حکم لگانا کیا تہمت نہیں ہے

۔کیا آپ کے نزدیک مساجد و مدارس اسی جرم کے لئے ہیں،اور شدت کے لاحقے نے آپ کے موقف اور جذبات کی مزید ترجمانی کی کاش آپ قصور واقعے میںملوث MPAاور اس کے حواریوں کی اُس حویلی کا تذکرہ بھی کرتے جہاں کتنے ہی معصوموں کو لتاڑنے والے افراد میںکوئی ایک بھی مولوی نہ تھا،کاش آپ پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر کا تذکرہ بھی کرتے جس نے پاس کرنے کی لالچ پر طالبہ کی عزت سے کھیلنا چاہا،کاش آپ قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر کی جنسی شدت کو ایک طالبہ پر برستے دیکھتے۔بہت سی شہادتیں ہیں صرف نمونے کے طور پر ڈان کی یہ رپورٹ ملاحظہ کریں۔

LAHORE – College of Earth & Environmental Sciences (CEES) Principal Prof Dr Iftikhar Hussain Baloch, who had gained fame in the wake of an attack on him by the students of Punjab University for his mysterious and objectionable activities and on suspicion of moral turpitude and indecent acts was finally booked by the police for sexually harassing a female student of the M.Phil and a female administrator of his department.

Two cases were registered at Muslim Town police station on the report of the girl student namely Shabina Gull (a student of second semester) and one administrator under Section 511 of PPC on Monday evening. According to reports, the sources said, the professor had attempted to victimise the female student and female administrator of rape in his room.

 اگر ایک واقعہ کہیں پیش آجائے اس کو اچھالا اس طرح جاتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ شاید یہی مدارس کا روزمرہ کا معمول ہے، ہمارے روشن خیال مبصرین، کالم نگار حضرات ان کالی بھیڑیوں کی مثالیں دیتے ہوئے سارے مدارس کو ہی قصور وار ٹھہرا دیتے ہیں، جب ہمارے ہاں جعلى كلينكوں اور عطائى ڈاكٹروں كا نام لے كر ميڈيكل پروفيشن كو لعن طعن كرنا درست نہيں سمجھا جاتا پھر ان چند واقعات كو لے كر سب دينى مدارس و جامعات كى محنت پر پانى پھيرنا کہاں کا انصاف ہے۔؟ہمارے ہاں جعلی ڈاکٹروں نے کیا کیا کارنامے کیے ہیں وہ سب جانتے ہیں لیکن پھر بھی آج تک ان عطائی ڈاکٹروں کی وجہ سے کسی نے سپیشلسٹ ڈاکٹر کو برا نہیں کہا، کسی فٹ پاتھ بیٹھے جراح کے غلط ہڈی جوڑنے کی وجہ سے آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ میڈیکل کالج بند کردیئے جائیں۔ کچھ کمی ہمارے لوگوں میں اس سلسلے میں بھی ہے کہ وہ دیندار لوگوں پر اندھا اعتماد رکھتے ہوئے ہر مولوی نما آدمی کو ولی اللہ سمجھ لیتے ہیں، حالانکہ دین کے نام پر دو نمبریوں کے واقعات بھی ہمارے اسی معاشرے میں عام ہیں، کئی لوگ ایسے دیکھے گئے ہیں جو صرف اپنی کسی ذاتی غرض یا سیاست کے لیے نیک نامی حاصل کرنے کے لیے داڑھی رکھ لیتے ہیں اور کچھ عرصہ بعد ان کا شمار بھی دینی لحاظ سے اچھے ناموں میں ہونے لگتا ہے، اس طرح کئی بد عورتیں برقعہ پہن کر اپنا دھندا کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اب انکو دیکھ کر کوئی سارے دیندار لوگوں اور برقعہ پہننے والی عورتوں کو غلط سمجھنیلگ جائے ، یہ ایسے ہی جیسے ایک بندہ کسی ڈاکٹر جیسا حلیہ بنا لے اورلوگوں کا علاج کرتا پھرے پھر بعد میں ہم اسکے گناہ یہ کہہ کر اس سپیشلسٹ ڈاکٹر پر ڈال دیں کہ اسکی شکل تم سے ملتی ہے وہ جو کچھ کرے گا تم بھی اس کے ذمہ دار ہوگے۔ یہ کہاں انصاف کی بات ہوگی۔

جناب محمود صاحب!ایسے ہی کتنے ہی انسٹییٹیوٹ اور یونیورسٹیاں یہاں تک ہسپتالوں کے ڈاکٹر بھی اسی شدت میں جنسی مجرم ہیں آپ کی نگاہ بین انھیں کیوں محفوظ سمجھتی ہے وہ پارسا کیوں اور مذہبی طبقہ جنسی مجرم کیوں؟کیوں کیتجزیہ یک طرفہ ہے ورنہ جواب بہت آسان ہے لبادہ اوڑھ لینے سے خبث باطن چھپتا نہیں ہر طبقہ میں خبیث لوگ لبادہ اوڑھے موجود ہیں اور موقع ملنے پر وہ پہچانے جاتے ہیں اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں لٹھ لے کر سب کو ایک ہی جانب ہانکا جائے درست بات تو یہ ہے کہ خبث باطن کا کوئی علاج نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ نے یہ مضمون آزادی اظہار کی پاسداری کرتے ہوے شائع کیا ہے۔ محمود فیاض اگر جواب دینا چاہیں تو مکالمہ حاضر ہے۔ 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply