خود سے سات سوال۔۔۔فاروق امام

محترم انعام رانا نے آج کل کے ‘ ہاٹ ٹاپک’ پہ اپنے آخری کالم میں سات سوال اٹھائے ہیں.اُن کے جوابات تو اہلِ جبہ و دستار اور مبینہ واقعہ کے فریقین کے ذمہ ہیں. کچھ سوال ایسے ہیں جن کے جواب ہم میں سے ہر فرد کے ذمہ ہیں.

پہلا سوال: کیا مذکورہ تنازعہ کے تناظر میں مذہبی اداروں کو مطعون کرنا درست ہے.؟

کیا ہمارے بچے صرف مذہبی تعلیم کے اداروں میں غیر محفوظ ہیں. عصری تعلیم کے اداروں میں محفوظ تصور کیے جاتے ہیں؟ لڑکوں پر جنسی تشدد کے حوالے سے بوائز ہاسٹلز, کیڈٹ ساز ادارے اور مدارس کیا یکساں بدنام نہیں ہیں؟؟ استاد چاہے مدرسے کا ہو, سکول کا, کیڈٹ ساز کسی اقامتی ادارے کا یا مکینیکل ورکشاپ کا اخبارات اس کے جنسی جرائم کی خبروں سے اکثر ہماری بے حسی پہ ہمارا منہ چڑاتے ہیں.لڑکیوں کیلیے تو کوئی شعبہ بھی محفوظ نہیں ہے.دارالعلوم سے لیکر دارالامان تک ان بچیوں کے لیے تختہ دار کے جیسے ہیں جن کی مظلومیت کی کئی داستانیں ہم مزے لے لے کر سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں.سوال مگر یہ ہے کہ ہم نے اجتماعی طور پر اپنے ان بچوں کے تحفظ کیلیے کیا قدم اٹھایا ہے.؟

دوسرا سوال: انسان کے سدھرنے کیلیے کیا محض علم ہی کافی ہے؟.

تربیت کس کے ذمہ ہے؟ ہمارے تعلیمی ادارے کیا ہمارے بچوں کی تربیت بھی کرتے ہیں؟ میرا احساس تو یہ ہے کہ گر چاہیں بھی تو تعلیمی ادارے وہ تربیت نہیں کر سکتے جو والدین کر سکتے ہیں. ہم اپنے دو چار بچوں کی تربیت سے پہلو تہی کرکے دسیوں بچوں کو سنبھالتے ایک استاد سے ان کی اچھی تربیت کی امید رکھتے ہیں. اٹھتی جوانی کے مچلتے جذبات استاد سے تو چھپے رہ سکتے ہیں والدین سے نہیں. انہی اندھے جذبات سے آنکھیں پھیرنے والے اندھے والدین کی اولادیں ہی بعد میں ایسے جنسی مرض کا شکار ہوتی ہیں کہ اپنی پسند کی چار چار شادیاں کرنے کے باوجود ان کی جنسی ہوس نہیں مٹتی. کیبل ٹی وی,انٹرنیٹ اور سمارٹ فونز آنے کے بعد ہماری ذمہ داریاں اور بڑھ گئی ہیں.

تیسرا سوال: کیا کوئی خاص حلیہ، خاص لباس اور میٹھا لہجہ کسی انسان کی شرافت کی سند ہوتے ہیں؟

 اشتہاری مہمیں اور جھوٹے سچے دعوے کیا کسی ادارے کی قابلیت کا معیار ہیں؟ ان چیزوں سے متاثر ہوکر اپنے بچے کیوں ان کے حوالے کیے جائیں.؟

چوتھا سوال: کب تک ہم بچوں کو مذہبی و غیر مذہبی, سرکاری و غیر سرکاری اور اردو و انگلش میڈیم میں تقسیم کرکے معاشرے کی طبقاتی تقسیم کا باعث بنتے رہیں گے.

تمام بچوں کی یکساں بنیادی تعلیم کیلیے آواز کیوں نہیں اٹھاتے.؟ میں ذاتی طور پر ان اصحاب کی رائے کو درست سمجھتا ہوں جو ایف اے تک یکساں تعلیم سرکاری اداروں میں اور اس کے بعد مذہب, ادب,طب,انجینئرنگ اور دوسرے تخصیصی شعبوں کیلیے مخصوص سرکاری و غیر سرکاری اداروں سے رجوع کرنے کی بات کرتے ہیں.

پانچواں سوال: گرم موسم اور گرم مصالحوں کی وجہ سے چودہ سال کی عمر میں بالغ ہونے والے بچوں کی شادیاں ہم پینتیس سال کی عمر میں جا کرتے ہیں. اچھے معاشی مستقبل اور نام نہاد رسوم و روایات کے نام پر یہ بھی جنسی تشدد کی ایک قسم ہے جو ہم اپنی اولادوں پر کرتے ہیں. جس کے نتیجے میں وہ جنسی و نفسیاتی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں. ہمارا اجتماعی شعور کب اس کو برائی سمجھے گا؟.

چھٹا سوال: مرد جرم کرکے بھی معاشرے کیلیے قابل قبول ہے.عورت پہ جھوٹا الزام لگ جائے تو ناقابلِ برداشت.جنسی زیادتی کے مجرم کو تو رشتے مل جاتے ہیں مگر جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی مظلوم عورت کو ساری عمر طعنے اور نفرت بھری نگاہیں.کیوں؟؟؟؟

Advertisements
julia rana solicitors

ساتواں اور آخری سوال وہی ہے جو رانا صاحب نے کیا ہے کہ کیا ہم تماش بین قوم ہیں؟.کیا ہم اس انتظار میں ہیں کہ تماشا دیکھتے دیکھتے خود تماشا بن جائیں؟.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply