• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • قائداعظم محمد علی جناح اور پہلے آئین کی تشکیل۔۔۔داؤد ظفر ندیم/قسط5۔حصہ اول

قائداعظم محمد علی جناح اور پہلے آئین کی تشکیل۔۔۔داؤد ظفر ندیم/قسط5۔حصہ اول

پاکستان کے پہلے آئین کے سلسلے میں سب سے اہم کردار قائداعظم محمد علی جناح کا تھا۔
بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ قائد اعظم آئین نہیں بنا سکے یا وہ آئین کے سلسلے میں قابل ذکر پیش رفت نہیں کر سکے دراصل وہ اصل حقیقت سے یا تو لا علم ہوتے ہیں یا اسے چھپانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی پوری زندگی اور جدوجہد آئینی اور دستوری اصلاحات کے لئے گزری ہے آپ کا کانگرس سے جدوجہد آزادی میں کوئی اختلاف نہیں تھا، آپ کا اختلاف آئینی اور دستوری پہلوؤں پر تھا ۔ چنانچہ آپ ان کے آئینی نکات اور دستوری نکات کو یہ کہہ کر رد نہیں کر سکتے کہ وہ متحدہ ہندوستان کے تناظر میں تھیں۔ بلکہ ان کا مقصد آزادی کے بعد ملک کا آئین تیار کرنا تھا اور پاکستان کی دستوری اور آئینی تاریخ کی بنیاد یہی آئینی نکات اور تجاویز پر رکھی جا سکتی ہیں جو قائد اعظم نے اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں پیش کیں۔
اس سلسلے میں قائداعظم کے چودہ نکات سے بھی راہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔

پاکستان کے پہلے آئین کی تشکیل،جسٹس منیر کا کردار۔۔۔۔۔داؤد ظفر ندیم/قسط4

قائد اعظم نے یہ چودہ نکات اس وقت پیش کئے تھے جب برصغیر میں آئین مرتب کرنے کی کوشش کی جارہی تھی نہرو رپورٹ مرتب کی جا چکی تھی،یہی نہرو رپورٹ آزادی کے بعد بھارتی آئین کی بنیاد بنی، جبکہ اس کے جواب میں قائداعظم نے چودہ نکات پیش کئے۔ اب یہ نکات پاکستان کی آئینی پیش رفت میں بہت اہم بنیاد ہونے چاہئیں  تھے مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا اور پاکستان میں تمام آئینی جدوجہد میں ان چودہ نکات جیسے مطالبات کو بنیادی اہمیت  حاصل رہی۔

ہم لوگ یہ جانتے ہیں کہ یہ نکات قائداعظم نے پیش کیے تھے اور متحدہ ہندوستان کے تناظر میں پیش کیے تھے کیونکہ یہ نکات ملک کے آئینی اور دستوری معاملات میں راہنما نکات تھے اور قیام پاکستان میں ایک اہم سنگ میل رکھتے تھے اس لئے ان کو  آئین پاکستان میں ایک بنیادی حیثیث دینا ضروری تھی۔
چودہ نکات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک وفاقی دستور کی بات تھی یعنی قائداعظم نے یہ بات طے کردی تھی کہ پاکستان ایک وفاقی ریاست ہوگی اس لئے پاکستان میں سیاسی قوتوں نے اس نکتے کو ہمیشہ اولیت دی جبکہ آمرانہ قوتوں نے وحدانی نظام حکومت کی بات کی۔

اس کے بعد اکثر نکات صوبائی خود مختاری کے بارے میں تھے۔ اور قائداعظم کے چودہ نکات نے ہی صوبائی خود مختاری کی اہمیت کو واضح کر دیا تھا۔ مگر پاکستان کے قیام کے بعد ہمارے ارباب اختیار اس صوبائی خود مختاری سے ہمیشہ نالاں رہے ہیں کیونکہ ان کو جدوجہد پاکستان کی درست تفہیم نہیں حاصل رہی۔
ان آئینی نکات میں اقلیتوں کی موثر نمائندگی اور شرکت کی بھی بات کی گئی کہ قانون سازی کے عمل میں اقلیتوں کو موثر طور پر شامل اور شریک رکھا جائے۔
ان نکات میں ایک اہم نکتہ یہ تھا کہ کسی صوبے میں کوئی ایسی سکیم عمل میں نہ لائی جائے جس کے ذریعے صوبہ کی اصل آبادی کی اکثریت، ثقافت یا زبان کو اقلیت میں بدلنے کا اندیشہ ہو۔
یعنی کسی بھی صوبے میں نقل آبادی کا خیال رکھا جائے کہ وہاں کے  اصل باشندوں کو اقلیت میں بدلنے کا اندیشہ نہ رہے۔

ان نکات میں مذہبی، ثقافتی، لسانی گروہوں کو اپنے مذہب، رسم و رواج، عبادات، تنظیم و اجتماع اور ضمیر کی آزادی دینے کی بات کی گئی تھی۔
یہ بھی یقینی بنانے کو کہا گیا تھا کہ مجالس قانون ساز کو کسی ایسی تحریک یا تجویز منظور کرنے کا اختیار نہ ہو جسے کسی قوم کے تین چوتھائی ارکان اپنے قومی مفادات کے حق کے خلاف قرار دیں۔
حیرت انگیز طور پر یہ ون یونٹ کے خلاف بھی ایک نکتہ شامل تھا وہ سندھ کو بمبئی سے الگ کرنے کا تھا بلوچستان کو الگ صوبہ بنانے کا تھا یعنی اس وقت صوبائی حیثیث کی بات ہو رہی تھی اور آزادی کے بعد ون یونٹ بنانے کی بات کی جانے لگی۔ یہ اصل میں صوبوں کی لسانی اور ثقافتی تحفظ کی بات تھی۔

ایک نکتہ یہ تھا کہ تمام صوبوں میں ایک جیسی اصلاحات کی جائیں۔
ایک نکتہ یہ تھا کہ سرکاری ملازمتوں اور خود مختار اداروں میں چھوٹے صوبوں کے لوگوں کو مناسب حصہ دیا جائے۔
ایک نکتہ یہ تھا کہ آئین میں چھوٹے صوبوں کی ثقافت، تعلیم، زبان، مذہب، قوانین اور ان کے فلاحی اداروں کے تحفظ کی ضمانت دی جائے۔
ان نکات میں یہ بھی تھا کہ وفاق میں شامل ریاستوں اور صوبوں کی مرضی کے بغیر مرکزی حکومت آئین میں کوئی تبدیلی نہ کرے۔

یہ چودہ نکات پاکستان میں صوبائی خود مختاری اور آئین سازی کی بنیاد ہونے چاہیے تھے  کہ یہ جدوجہد پاکستان میں اہم حیثیث رکھتے   تھے   اور برصغیر میں علیحدہ ملک بنانے کی ایک اہم وجہ تھے مگر حیرت انگیز طور پر قیام پاکستان کے بعد انھیں صرف مطالعہ پاکستان کی کتابوں تک محدود رکھا گیا پاکستان کی دستوری اور سیاسی پیش رفت میں ان کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
برداشت اور محبت میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply