مریم کی سوچ زار۔۔۔۔صائمہ نسیم بانو

سوچ زار, ستائیس مختصر افسانوں میں سانس لیتی ایک ایسی کتاب ہے جو سجاد حیدر یلدرم کی رومانیت اور پریم چند جیسے ترقی پسند افسانہ نگار کی مقصدیت کے بین بین اپنی شناخت بناتی ہے. اس کتاب کی مصنفہ مریم مجید ڈار سے میرا تعارف ان کے افسانے “محبت کی پہلی کہانی” کے توسط سے ہوا, وہ افسانہ تھا یا اک عالم تحیر کا بیاں, رومان کا دبستاں, جذبات کی طلسمی تصویر یا خیال کی سحر انگریز زنجیر۔۔۔

مابعدِ جدیدیت کے ایک اہم باب فیمنزم کے حوالے سے مغربی نقطۂ نظر بیان کرتے ہوئے جناب احمد جاوید صاحب فرماتے ہیں کہ اس تھیوری کے مطابق “ہم نے دنیا کو، چیزوں کو، حتی کہ خود انسانیت کو عورتوں کی نظر سے دیکھا ہی نہیں، اسی وجہ سے شعور کی نسائی ساخت ہمیشہ سے معطل چلی آرہی ہے۔”
صرف سیاسی اور تہذیبی معنوں میں نہیں بلکہ فیمنزم ایک کلی تھیوری ہے مزید بات کرتے ہوئے جناب نے فرمایا کہ

“اب تو باقاعدہ ایک مکتبۂ تنقید سامنے آ چکا ہے جس کا نام ہے گائنی کرٹسزم، اس کا ہدف یہ ہے کہ عورتیں اپنے شعور کی ساخت سے وفادار رہتے ہوئے, پورے نظامِ معنی کو نئے سرے سے ترتیب دیں اور اس کے اظہار کے نسائی زاویے اور سانچے بنائیں۔۔۔۔۔”
تانیثیت کے ادبی باب میں ڈاکٹر رشید جہاں سے لے کر نیلم احمد بشیر صاحبہ تک اردو افسانہ ارتقا کی منازل طے کرتا ہوا ایک ایسے موڑ پر آ پہنچا کہ قاری کو یہ محسوس ہوا
کہنے کو کچھ بچا نہ ہر بات ہو گئی۔۔
اسی موڑ پر جب ہم مریم کے شعور کی انگلی تھام کر ان کی کہانیوں کے جوہر کو سمجھنے اور پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو اپنی پہلی افسانوں کی کتاب سوچ زار کے ذریعے مریم ہمیں نئے زمانوں اور اجنبی زمینوں پر لکھے سماجی رویوں کی ایک الگ سی شکل دکھاتی ہیں جو یقیناً  ہمارے لئے کلی طور پر انجان نہیں لیکن منفرد اسلوب اور زندگی کے بارے میں ان کا حقیقت پسند نظریہ ان کی تحریر کو ایک اچھوتا رنگ بخشتا ہے۔

ڈاکٹر محمد اقبال خان اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ منشی پریم چند نے’’ کُل ہند کانفرنس” کے صدارتی خطبے میں فرمایا کہ
“جس ادب سے ہمارا ذوق صحیح بیدار نہ ہو ،روحانی اور ذہنی تسکین نہ ملے، ہم میں قوت وحرارت پیدا نہ ہو ، ہمارا جذبۂ حسن نہ جا گے, جو ہم میں سچا ارادہ اور مشکلات پر فتح پانے کے لیے سچااستقلال نہ پیدا کرے۔ وہ آج ہمارے لیے بیکار ہے۔ اس پر ادب کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ ہماری کسوٹی پر وہی ادب کھرا اترے گا جس میں تفکر ہو، آزادی کا جذبہ ہو ،حسن کا جوہر ہو، تعمیر کی روح ہو، زندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہو، جو ہم میں حرکت ،ہنگامہ اور بے چینی پیدا کرے،سلائے نہیں کیونکہ اب اور زیادہ سونا موت کی علامت ہوگی۔ ترقی پسند مصنفین کو یہ نکتہ پیش نظر رکھنا چاہیے ورنہ ان کی بہت سی محنت اکارت جائے گی ۔ان کے خیالات کیسے ہی بلند پایا اور انقلاب انگیز کیوں نہ ہو ں ،پت جھڑ کی طرح ہوا میں بکھر جائیں گے-”

بحوالہ خلیل الرحمن اعظمی
“اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک”

محبت کی پانچ کہانیوں میں ہم جس مریم مجید کو نسائی اور نسوانی اظہار کی اوج پر دیکھتے ہیں وہ اچانک فکر کے ارتقائی سفر کو طے کرتی ہوئی ایک ایسی نہج پر پہنچتی ہیں کہ ان کا افسانہ نئے موضوعات کی سماجی پوشاک پہنتے ہوئے رومانیت کی گود سے نکل کر مقصدیت کی راہ نوردی پر گامزن ہو جاتا ہے۔اب وہ ترقی پسند لکھاریوں کے پسندیدہ موضوعات یعنی سماجی مسائل پربات کرتی ہیں وہ بھوک, پیاس, غربت, بیماری, بیروزگاری, بیمار رویوں, سرمایہ داری نظام اور اس کی چکی میں پستے ہوئے طبقے کی آواز بنتی ہیں۔جب میں نے مریم سے پوچھا کہ آپ کی کہانیاں کسی خوشگوار انجام تک کیوں نہیں پہنچ پاتیں تو انہوں نے جواب دیا کہ۔۔۔

میرے افسانوں کے موضوعات معاشرتی ہیں اور ان کے کردار معاشرے کے اس طبقے کے نمائندہ ہیں جن کے مسائل زمینی ہیں۔ جن کے نزدیک بھوک پیاس، غربت اور سر چھپانے کا آسرا ہی کائنات کے اہم ترین مسائل ہیں اور انکی زندگیاں روز کنواں کھود کر بقدر ہمت پانی نکالتے ہوئے تمام ہو جاتی ہیں۔ میری کہانیوں کے کردار ایک ایسی بے بسی اور لاچاری کو مکمل طور پر عکس کرتے ہیں جو ہم اپنے اردگرد موجود گھن کھائے چہروں پر اکثر ثبت ہوئے  دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر افسانے خوشگوار انجام سے دوچار ہونے سے محروم رہتے ہیں۔ کیونکہ مصنفہ کا کہنا ہے کہ کہانی کا انجام تو سب کے لئے ایک ہو سکتا ہے مگر زندگی کا انجام ہر ایک کے لئے مختلف ہوتا ہے۔ میں نے ایک عمومی سوچ کو غلط ثابت کرنے کی ایک کوشش کی ہے جس کے مطابق نسائی ادب میں تلخ نوائی کا ذائقہ کم ہی محسوس ہوتا ہے اگرچہ چند کہانیاں ایسی بھی ہیں جنہیں میرے قلم نے “محبت کی کہانیوں” کا نرم و نازک پیرہن عطا کیا ہے لیکن ان میں کسی سفید گھوڑے پر بیٹھے آفاقی شہزادے کا ذکر نہیں بلکہ ایک خود آشنا اور ذات شناس عورت کی وہ کشمکش ہے جو محبت، معاشرے اور انا کی تکون میں بند ہے اور جس کے سرے ہمیشہ باہم الجھے رہتے ہیں۔”

میں بطور قاری اور ایک رومانیت پسند لکھاری منتظر ہوں کہ سوچ زار حقیقت پسندی کے ذریعے تفکر کے کیسے باب وا کرتی ہے اور چند افسانوں میں نہاں رومان پسندی سرور و سرود سے سجی وادیوں میں کیا کیا رنگ بکھیرتی ہے۔
حقیقت پسندی اور رومانیت۔۔ کیا ان دو انتہاؤں کے بیچ مریم بطور ایک ہمہ جہت لکھاری اپنے افسانوں میں توازن اور تناسب برقرار رکھ پائیں یا ان کے اندر موجود ایک معصوم خواب دیکھنے والی لڑکی اپنے ہی مضبوط اور حقیقت پسند وجود سے الجھتی رہی, بہت ممکن ہے کہ مریم نے اپنے دونوں روپ ایک دوجے سے جدا رکھتے ہوئے شعور اور لاشعور کے رنگوں کو قرطاس پر اتارا ہو یا اگر کہیں ان دو نظریات کی ملاقات بھی ہوئی تو وہ فکری افق پر شفق کی سرخی بن کر ابھرے جو بھید اور ملن دونوں کا ہی استعارہ ہے۔یہ فصیل وہ مقام ہے جو دو انتہاؤں کے بیچ حدِ فاصل ہے اور حجرۂ وصل بھی۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بانو
٥ جون ٢٠١٩

Facebook Comments

صائمہ بخاری بانو
صائمہ بانو انسان دوستی پہ یقین رکھتی ہیں اور ادب کو انسان دوستی کے پرچار کا ذریعہ مان کر قلم چلاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”مریم کی سوچ زار۔۔۔۔صائمہ نسیم بانو

  1. واہ، کیا عمدہ تجزیہ ہے ۔ مضمون پڑھ کر کتاب پڑھنے کا شوق پیدا ہوجائے، یہی اس کی کامیابی ہےاور اس کامیابی پر بہت داد

Leave a Reply