بچپن کی گمشدہ عیدیں۔۔۔توقیر یونس بُھملہ

رمضان کے شروع میں ماں جی ہم سب بہن بھائیوں کو لیکر شہر عید کی خریداری کیلئے جاتیں ، ان کا کہنا تھا  کہ بعد میں قیمتیں اور رش زیادہ ہوجاتا ہے، کپڑے اور جوتے ہمیشہ اس رنگ اور سائز کے خریدے جاتے جو ماں جی کو پسند ہوتے اور اکثر خریداری اسکول یونیفارم کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جاتی تھی، یقین مانیں ہمیشہ یہ کہہ کر اپنے سائز سے بڑے کپڑے اور جوتے ملتے کہ تم ابھی بڑے ہو رہے ہو اور دو ماہ بعد فلاں رشتہ دار کی شادی بھی ہے اور اسکول میں نیا سال شروع ہونے والا ہے وہاں یہ کام آئیں گے اور ہم جی ہی جی میں کڑھتے چاروناچار لے لیتے ویسے اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ ہر روز رات کو سونے سے پہلے ہم سب چپکے چپکے اپنے اپنے کپڑے اور جوتے دیکھتے اور پھر سوتے، چاند رات کو کوئلے دہکاتے کوئلوں والی استری سے گھر بھر کے کپڑے استری ہوتے اور ہم ساتھ ہاتھ والا پنکھا(پکھی) لیکر بیٹھتے اور کوئلوں کو بجھنے نہ دیتے تھے، استری کا ٹمپریچر  کنٹرول کرنے کیلئے گیلے تولیے پر تھوڑی دیر بعد استری پھیر لی جاتی تھی، پھر جوتوں کے ساتھ جرابیں شلواروں کے ساتھ ازار بند قمیضوں کے ساتھ رومال لگائے جاتے، بزرگوں کیلئے صافے مردوں کیلئے سفید چاندی سی اجلی نماز والی ٹوپیاں ترتیب کے ساتھ رکھنا یہ سب کام خواتین اور بچوں کا ہوتا تھا، لڑکیوں کے ساتھ ہم لڑکے بھی مہندی لگواتے جس کی اجازت بڑی مشکل سے ملتی تھی، خواتین رات کو ہی دودھ والی کھیر اور سوجی کے حلوے کے بڑے بڑے دیگچے لکڑیوں اور اپلے والے چولہے پر چڑھا دیتی بادام گری کشمش وغیرہ بھگو کر رکھ دی جاتی اور بقیہ رات نیند ہماری آنکھوں سے کوسوں دور عید اور عیدی کے انتظار اور خوشی میں گزرنے کا نام ہی نہ لیتی تھی یہ گاؤں کی تقریباً ہر گھر کی عید سے پہلے تیاری کا منظر ہوتا تھا۔

جوائنٹ فیملی سسٹم ہوتا تھا  عید پر پھوپھیوں اور انکے بچوں کے ساتھ گھر میں ٹھیک ٹھاک رش کا منظر ہوتا تھا صبح سب سے اہم مسئلہ نماز کیلئے نہانے کا ہوتا تھا گھر اور حویلی میں ایک یا دو غالباً حمام تھے نہانے کیلئے تقریباً دو اڑھائی گھنٹے پہلے ہنگامہ سا شروع ہوجاتا تھا غسل خانے کے باہر جستی بالٹیاں اور پانی کے بھرے ہوئے گھڑے رکھ دیے جاتے باری باری گھڑا بالٹی میں انڈیلتے نہاتے کپڑے زیب تن کرتے عطر لگاتے اور مسجد کا رخ کرتے جاتے، خواتین گھر میں عید کے پکوانوں کو سجانے میں لگ جاتیں  اور محلے میں جو کچھ بھجوانا ہوتا تھا وہ طشتریوں میں ڈال کر اوپر کڑھائی والی دجیاں رکھ کر صحن میں پڑی چارپائیوں پر رکھ دیتی، عید کی نماز کے فوراً بعد قبرستان کا رخ کیا جاتا وہاں دعا کے بعد گھروں کو دوڑتے  ماں جی اور بہنوں کو عید ملتے خواتین بے چاری کھانا پکانے کھلانے بانٹنے اور مہمان نوازی کرتے ظہر کی نماز کے بعد کہیں جاکر نئے کپڑے پہنتیں تھیں.۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عید کی نماز کے بعد ہمیں عیدی کا انتظار رہتا تھا جیسے ہی کہیں سے دو چار روپے ہاتھ آتے ہم فوراً گھر سے رسیاں اور کپڑے دھونے والا لکڑی کا سوٹا اٹھاتے اور حویلی کے پیچھے بیری اور کیکر کے درختوں پر پینگیں ڈالنے کو دوڑ لگاتے، درختوں پر چڑھتے ہوئے ایسے داغ لگاتے تھے جو سرف ایکسل کی بجائے ماں جی کی جوتی سے دور ہوتے تھے گاؤں میں  اکلوتی تفریح یہی ہوتی تھی یا پھر اگر جیب میں اتنی عیدی جمع ہوجاتی کہ ایک عدد شیزان کی آم والی بوتل پی لیتے تھے، گاؤں کی گلیوں میں پلاسٹک کی رنگ برنگے شیشوں والی عینکیں لگائے سارے یار بیلی  جتھوں کی صورت میں دوڑتے پھرتے یہ وہ وقت تھا جب لڑکیوں کے ساتھ کھیلنے یا ملنے میں سینگ نکلتے ہیں کا فارمولہ چلتا تھا لیکن عید پر شاید سینگ نہیں نکلتے تھے ،اس لیے ایک آدھ دن اکھٹے چاٹ چورن کھانے اور پینگ شیئر کرنے سے پابندی ہٹا لی جاتی تھی،  ہر گھر سے کچھ نہ کچھ کھانے کو ضرور مل جاتا تھا، پانی والی پستول یا پھر لاٹری جس میں سے کرکٹ اور فلمی  ہیروز کے سٹیکرز نکلتے وہ خریدنا عیاشی کے زمرے میں آتا تھا، اگر دور پار کا کوئی رشتہ دار دس روپے عیدی کی صورت میں دے جاتا تو گھر والے یہ کہہ کر ہتھیا لیتے تھے کہ کہیں گم کردو گے اور وہ بھی یقین کیجیئے آج تک واپس نہیں ملے گم ہی ہیں۔

Facebook Comments

توقیر بھملہ
"جب خلقت کے پاس آؤ تو زبان کی نگہداشت کرو"

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply