• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • آج پتا چلا کہ خیبر پختونخوا والے پاکستانی شہری ہی نہیں ہیں ۔۔۔سید عارف مصطفٰی

آج پتا چلا کہ خیبر پختونخوا والے پاکستانی شہری ہی نہیں ہیں ۔۔۔سید عارف مصطفٰی

اب کے دکھ بالکل الگ سا ہے ۔۔۔
کیونکہ معاملہ اختلاف سے زیادہ نالائقی کا بن گیا ہے ورنہ ایک ہی وطن میں دو عیدیں ہونا نئی بات تو کبھی نہ تھی ۔۔۔ اس بار مگر پہلی بار یہ ہوا ہے کہ ملک میں سرکاری طور پہ دو عیدیں منانے کا باضابطہ اعلان کردیا گیا ہے اور وہ بھی ایک ہی جماعت کے تحت ۔۔۔ مرکزی حکومت بدھ 5 جون کوعید منانے کا اعلان کررہی ہے تو اسی کی صوبائی حکومت سرکاری سطح پہ آج 4 جون کو ہی 6 تکبیریں زیادہ کہنے پہ بضد ہے یوں بلواسطہ طور پہ ماضی کا گریٹر پختونستان منصوبہ بیدار کیا جاتا معلوم ہورہا ہے کیونکہ اس بیہودہ سرکاری اعلان کی بناء پہ صوبہ خیبر پختونخوا  پاکستان سے نکال دیا گیا ۔معلوم ہوتا ہے اور وفاقی حکومت جس کا کوئی اعلان سارے ہی ملک پہ نافذ ہوتا ہے اور واجب التعمیل ہوتا ہے مگر اس بار اسی مرکزی حکومت کی جانب سے جاری کردہ بدھ 5 جون کو عید منانے کا سرکاری اعلان صوبہ پختونخونخواکے لیئے نہیں ہے اور اسکے لیئےسرکاری طور پہ منگل 4 جون کو عید واجب ٹھہرادی گئی ہے یوں خودبخود یہ صوبہ پاکستان کے بجائے اس نام نہاد مملکت ‘ افغانیہ’ کا حصہ بنادیا گیا ہے کہ جسکا خواب دیکھنے اور دکھانے میں اجمل خٹک اور سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان نے اپنی زیست کی پونجی ہی لٹا ڈالی تھی مگر کچھ ہاتھ نہ آسکا تھا

مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ اس بار تو خیبر پختونخوا میں‌ عوام کی بڑی تعداد نے پوپلزئی کے بجائے روئیت ہلال کمیٹی کے اعلان پہ کان دھرا تھا اور اس سال رمضا ن کا پہلا روزہ 6 مئی کے بجائے سات مئی کو رکھا تھا کیونکہ انہیں اس بار پکا پکا یقین تھا کہ اب کے پوپلزئی خواہ کچھ بھی اعلان کریں مگر چونکہ اس مرتبہ انکے صوبے میں اسی جماعت کی حکومت ہے کہ جو مرکز میں برسراقتدار ہے تو لازماً اس بار دونوں حکومتیں ایک ہی پیج پہ ہونگی اور عید ایک ہی ساتھ منائی جاسکے گی – لیکن دو جگہ کی تبدیلی سرکار کے تحت دو سطح پہ عید منانے کے بچکانہ اعلان کے بعد ایسے خوش گمان لوگ اب شدید نادم ہیں کہ بیچارے 29 روزوں والے رمضان کو بھی اس تبدیلی سے ہم آہنگ کیسے کریں ۔۔۔ یوں وہ اس بار 28 روزوں پہ ہی اپنا رمضان سمیٹ لینے پہ مجبور کردیئے گئے ہیں ۔۔۔ اسی حوالے سے ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ان الگ الگ اعلانات کے باعث مرکزی حکومت نے اس صوبے کے عوام کو بھی ایک غیر قوم تسلیم کرلیا ہے ورنہ وہ لوگ جنہوں نے پوپلزئی صاحب کو چاند کی رویت کی شہادتیں دی ہیں‌اگر وہ بھی پاکستانی ہیں تو انکی شہادتوں کو کیوں درخور اعتناّ نہیں سمجھا گیا ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اسی بات سے منسلک دوسرا پہلو یہ ہے کہ اب انکے ایسے مضحکہ خیز فیصلوں کے نتیجے میں سارے ملک کے ہر صوبے کو اپنی سہولت کے مطابق آئندہ بھی الگ الگ عید کا اعلان کرنے کا موقع بلکہ لائسنس مل گیا ہے ۔۔۔ یہاں ہم پرانے دکھوں کی بات کرلیں کیونکہ اگر دکھ پرانے ہوجائیں تو زخم بھی بھرجاتے ہیں اور جی بھی بہل ہی جاتا ہے مگر کیا کیجیئے کہ تقریباً ہر برس ہی رویت ہلال کے نام پہ سال میں جسد قومی کو دو بار زخم لگتے ہیں اور پھر سال بھر میں کھرنڈ جمنے اور پکا ہوجانے سے پہلے ہی کوئی اپنے ناخن تحقیق سے اسے پھر چھیل ڈالتا ہے ۔۔۔ مگر نئی دلچسپ بات یہ کہ اس بار مرکزی حکومت نے اپنی گڈ گورننس کا گڑا مردہ بھی خود ہی خراب کردیا ہے اور اپنے لیئے یہ جناتی گڑھا بھی بڑے ذوق و شوق سے خود ہی کھودا ہے ۔۔۔ لیکن بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بنی گالہ والے محلے تو کیا سارے اسلام آباد میں بھی اتنی مٹی کہیں دستیاب نہیں کہ اس قسم کے مہیب گڑھے کو بھر سکے ۔۔۔ بس یہی ہونا کہ اب اس وجہ سے کئی چھوٹے بڑے چینلوں‌ پہ گفتگو کی چوپالیں بنیں گی اور کافی دنوں‌کے لیئے ماہرین کے دال دلیئے کا خاطر خواہ انتظام بھی ہوہی جائے گا-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply