سرایئکستان سازش اور شہباز ترگڑ۔۔۔منصور بلوچ

میرے کالم کے جواب میں شہباز ترگڑ صاحب کا جواب آنا میرے موقف کی تایئد ہے۔ سرایئکی صوبہ تحریک میں این جی اوز اپنا کردار ادا کر رہی ہیں کوی بھی این جی او یا اس کا ملازم پاکستانی قوانین کے مطابق سیاسی تحریک چلا سکتا ہے یا نہیں یہ قانون نافظ کرنے والے اداروں کو معلوم ہو گا۔ محترم ترگڑ صاحب نے اسلام کے لبادے میں چھپنے کی کوشش کی اور فرمایا کے ہر قوم کو اس کی شناخت کا حق ہے۔ مگر محترم جس تحریک کی بات ہو رہی یہ شناخت کے لیے نہیں خالص لسانیت پر مبنی ہے اسلام لسانیت اور قوم پرستی کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری خطبہ جو انہوں نے حج کے موقع پر فرمایا کہ آج کے بعد کسی عربی کو کسی عجمی پر فوقیت حاصل نہیں، تم تمام مسلمان آپس میں بھای ہو۔ لسانیت پرستی اور قوم پرستی سے منع فرما دیا گیا۔

 اگر صوبہ صرف شناخت کے لیے ہے تو راجپوت صوبہ، ارایں صوبہ، شیخ صوبہ، کھوکھر صوبہ، چٹھہ صوبہ سب کو اپنی اپنی شناخت کے لیے الگ صوبہ بنا لینا چاھیے   سرایئکی ایک زبان ہے نہ کے ایک قوم یہاں بلوچ بھی بستے ہیں، یہاں راجپوت ،راو، مہاجر، پٹھان ،چٹھے، گیلانی، مخدوم سب بستے ہیں۔  یہ خود کو اپنے خاندان کے نام سے لکھتے ہیں نہ کے سرایئکی ؛ فراز نون اپنی قوم لکھتا ہے ظہور دھریجہ اپنی قوم لکھتا ججی ترگڑ اپنی قوم لکھتا ہے کوی بھی اپنی زبان اپنے نام کے آگے نہیں لکھتا۔ محترم میرے کالم کے جواب میں آپ کا کالم اس پر یہ فقرا بلکل صادق آتا ہے سوال گندم جواب چنا۔ میرے کالم میں میں نے یہ کہیں بھی لکھا کے اپنی شناخت مانگنا جرم ہے؟ میں نے اپنے کالم میں دو باتیں کیں۔ نمبر ایک، اس تحریک کے بانی کی بیٹی کا بنگلا دیش میں خطاب اور اس خطاب میں کہنا کے وہ بنگلا دیش کی تحریک آزادی سے بہت انسپایر ہیں اور دوسرا، بھارتیوں کا اس کو سیپریشن لٹریچر کے نام سے یو ٹیوب پر پوسٹ کرنا اور اس کو سرایئکی اباوٹ سپریشن کے نام پر پوسٹ کرنا۔  یہ ویڈیو کوی بھی دیکھ سکتا ہے اگر کہیں تو میں آپ کو وٹس ایپ کر دیتا ہوں۔  ہمیں اس چیز پر اعتراض ہے ہر محب وطن انسان کو ہو گا ایک پاکستان دشمن ملک میں کھڑے ہو کر جو 71 میں ہم سے الگ ہوا، وہاں یہ کہنا وہ اس کی تحریک آزادی کی تحریک سے بھت انسپایر ہیں،یعنی ملک ٹوٹنے پر محترمہ خوش ہیں اور بنگلا دیش الگ بھی خالص لسانی بُنیادوں پر ہوا تھا۔  ہمیں اعتراض ہے بھارتیوں کا اس کو سپریشن لٹریچر کے نام سے شایع کرنا، ہمیں اعتراض ہے سرایئکی اباوٹ سپریشن یعنی ایک دشمن ملک میں بھارتی لابی کے سامنے سرایئکیوں کی علہحدگی کی تحریک سرایئکی صوبہ تحریک اور بنگلا دیش؟

دال میں کچھ کالا یا ساری دال ہی کالی ہے؟ مودی کُھلم کھلا پاکستان کو لسانی بنیادوں پر پاکستان کو توڑنے کی دھمکی دے رہا ہے پروکسی وار پر وہ کھربوں خرچ کر چکا ہے۔ کوی جا کر دشمن ملک میں تقریریں کرے اور ہم سوال بھی نہ کریں؟ میری دوسری بات تھی اس تحریک میں این جی اوز کا کردار ہے۔ اس کا واضح ثبوت تو ایک این جی او کے ملازم نے ہی کالم لکھ کر دے دیا ہے۔ آپ نے اپنے کالم میں فرمایا کے پاکستان سرایئکی پارٹی الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے اور اس کے آئین میں لکھا ہے کے وہ کسی قسم کی بیرونی فنڈنگ نہیں لے گی۔ میں نے اپنے کالم میں یا کہیں پاکستان سرایئکی پارٹی کا ذکر کیا؟ میں نے تو ان 36 نان رجسٹرڈ گروپس کا زکر کیا 20 ، 20 ٹولیاں بنا کر جو اس خطے میں زہر کا بیج بو رہی ہیں،آپ بات کو گھُما کیوں رہے ہیں کس چیز کی پردہ داری ہے؟ کیا ایسی تنظیمیں یہاں موجود نہیں جن کو چند این جی اوز کے ورکرز چلا رہے ہیں؟ محترم جناب نے اپنے کالم میں لکھا کے ہر جمہوری ملک میں این جی اوز ہوتی ہیں اور اس کی مثال آپ نے عبدالستار ایدھی صاحب جیسی بزرگ ہستی سے دی ، گویا آپ اور آپ کے جیسے عبدالستار ایدھی کے نقش قدم پر ہیں، یہ ایک اچھا لطیفہ ہے اور اگر ایسے لطیفے مزید آپ کے پاس ہوں تو اپنے اگلے کالم میں ضرور لکھ دیجیے گا۔ محترم یہ بھی ساتھ بتا دیتے کے عبدالستار ایدھی کون سے صوبہ کی تحریک چلا رہے تھے، کتنی دفعہ لسانیت پر تقریرں ایدھی صاحب نے پاکستان دشمن ملکوں میں کی اور کون سے اویرنیس پروگرام ایدھی صاحب پاکستان کے خلاف کروا رہے تھے تا کہ بات کھُل جاتی اور عوام کو معلوم ہو جاے کہآپ ایدھی صاحب کے نقش قدم پر چلتے ہوے اس تحریک کو چلا رہے ہیں۔ پاکستان میں بچے بچے کو معلوم ہے بیرونی فنڈنگ سے چلنے والی این جی اوز نے پاکستان میں کیا گُل کھلاے ہیں ،پاکستان میں دہشت گردوں کی فنڈنگ بیرونی فنڈنگ سے چلنے والی این جی اوز کے زریعے ہی ہو رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایجنسیوں نے جوتے مار کر ان کے پروگرام بند کرواے اور پاکستان میں بھت سی این جی اوز پر پابندی لگی اور مزید بھی لگنے والی ہے۔ اس وقت بھی اس تحریک میں موجود ساری کی ساری خواتین این جی اوز سے ہی وابستہ ہیں،اگر نہیں ہیں تو ہم ثبوت دکھا دیتے ہیں؟ اب پاکستانی قوانین کے مطابق این جی اوز کے لوگ سیاست کر سکتے ہیں یا نہیں، کوی خالص سیاسی تحریک چلا سکتے ہیں یا نہیں اس کا جواب قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی دے سکتے ہیں۔ ترگڑ صاحب نے پاکستان کی ساری این جی اوز کو عبدالستار ایدھی صاحب کے کھاتے ڈال دیا یعنی قانون نافذ کرنے والے ادارے اور نیشنل ایکشن پلان کے تحت جن جن این جی اوز پر پابندی لگی یا جن جن کی تحقیقات ہو رہی ہیں وہ سب عبدالستار ایدھی کا نعم البدل ہیں، تو میرا مشورہ ہے ترگڑ صاحب، صوبے سے پہلے ان جی اوز کو بچانے کی تحریک شروع کریں کہیں آپ اپنے اس جمہوری حق سے محروم نہ رہ جایں۔

 شہباز ترگڑ صاحب نے اپنے کالم میں مجھے سمجھانے کی کوشش کی اور دبے لفظوں میں قانون کا سہارا لیتے ہوے دھمکانا چاہا کے ایسی تحریر جس کو نفرت آمیز کہا جاتا ہو اس پر پابندی ہے۔ میرے بھای نفرت آمیز مواد پر پابندی ہے پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث لوگوں کو بے نقاب کرنے میں کوی پابندی نہیں۔ قانون اور عدالتیں پاکستان کی ہیں، انڈیا یا بنگلا دیش کی نہیں۔  میرے محترم بھای شاید آپ بھول رہے ہیں ایک نفرت انگیز گالم گلوچ سے بھرپور کمپین آپ نے سوشل میڈیا پر شروع کی تھی جب این جی اوز میں شامل لوگوں کو ہم نے پارٹی سے نکالا تھا اس کے بعد میری بہن اور بنت پاکستان ایک قومی لیڈر کے خلاف غلیظ الفاظ کا جو سلسلہ آپ نے اور آپ کے حواریوں نے شروع کیا تھا جو آج تک جاری ہے، جس میں بھارتیوں نے بھی آپ کو سپورٹ کیا تھا،  اس کے سارے ثبوت اور سنپ شارٹ محفوظ ہیں اور ضیا شاہد صاحب کو بھی میں تصویری شکل میں بھیج چکا ہوں۔ اس سب معاملے کے بعد جو آپ نے مجھے معافی نامہ بھیجا تھا وہ بھی میرے پاس موجود ہے، میں چاہتا ہوں آپ کھُل کر سامنے آیئں تاکے نام نہاد انسانی حقوق کے علمبرداروں کے چہرے بھی بے نقاب ہوں   مجھے یہ بھی معلوم ہے آپ کو صرف استعمال کیا جا رہا ہے اور اصلی ہستیاں کبھی عورتوں کی آڑ میں چھپتی ہیں اور کبھی آپ جیسوں کی۔ انڈیا اور بنگلا دیش کی ترقی پروجیکٹر لگا کر اور اویر نیس پروگرامز کے زریعے لوگوں کی ذہن سازی اس سرایئکی خطے میں کون کر رہا ہے اور یہ بتانےکی کوشش کون کر رہا ہے کہ بنگلا دیش ہم سے الگ ہو کر ترقی کر گیا اور ہم رہ گیے، کیا آپ کو معلوم نہیں یا آپ کی یاداشت کہیں گُم ہو گیی ہے؟

 آپ نے آخر میں الزام لگایا کے میں سیلاب زدگان کے پیسے کھا گیا اور اسی قسم کے کچھ اور الزام کہ پلاٹوں پر قبضے کرتا ہوں وغیرہ وغیرہ آپ کے حواری لگا رہے ہیں۔ یہ آپ کی اور آپ حواریوں کی پرانی عادت ہے کہ دلیل کا جواب الزامات جھوٹے پروپیگینڈے گالم گلوچ اور زاتیات پر بات کرنا۔ ایسے الزامات سے سچ کو چھپایا نہیں جا سکتا اور جو بھی آپ کے نظریات کے خلاف بات کرے اس کو غدار سرایئکستان کہنا اور دبانے کی کوشش کرنا آپ کا وطیرہ۔ سرایئکستان نامی ریاست کا نہ وجود پاکستان سے پہلے تھا نہ اس وقت موجود ہے تو غدار سرایئکستان کیا؟ ہاں یہاں غدار پاکستان ضرور بے نقاب ہو رہے ہیں. ایک عورت کی ذات پر کیچڑ اچھالنا، سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنا، گالم گلوچ کرنا، بھارتی آی ڈیز پر ٹیگ کرنا، اسی آی ڈی سے پاک فوج کے خلاف نفرت آمیز کمپین چلانا البتہ غداری ہے۔ اور شاید آپ کو وہ معافی نامہ بھی بھول گیا جو آپ نے مجھے بھیجا تھا۔ ضیا شاہد صاحب سے درخواست کروں گا معافی نامہ سمیت یہ سارا مواد شایع کر دیا جاے تاکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاے۔  اور میں شکر گزار ہوں شہباز ترگڑ صاحب کے کالم کا جنہوں نے میری اس بات تایئد کی کے اس تحریک کو این جی اوز چلا رہی ہیں اور صرف ایک پارٹی رجسٹرڈ ہے جس کا عملا کوی وجود موجود نہیں۔  اس پارٹی میں بھی پندرہ سے بیس لوگ موجود ہیں اور اس پارٹی کے بانی کی بیٹی سرکاری ملازمہ ہے، لاہور ڈیفینس میں اس کی کوٹھی ہے اور وہ نوکری بھی تخت لاہور میں ہی کرتی ہے۔ دو ماہ بعد ملتان پہنچ کر ان کو تخت لاہور کے ظلم یاد آ جاتے ہیں۔  باقی تمام کے تمام پندرہ پندرہ بیس بیس لوگوں کے چھتیس گروپ ان سب کا کہیں نہ کہیں لنک این جی اوز سے ہے اور یہی ان کو فنڈنگ اور سہولت فراہم کر رہی ہیں۔

اس میں کسی قسم کا کوی شک نہیں کہ اس خطے کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہے اور ہم بھی اس خطے کے حقوق کی بازیابی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہمیں اعتراض ہے تو محرومی کے نام پر ملک دشمن ملکوں کے دوروں پر ہے، ہمیں اعتراض ہے تو غیر ملکی فنڈنگ سے چلنے والی آرگنایزیشنز کی مداخلت سے ہے اور ہم اس پُر امن خطے کو کسی بھی صورت بلوچستان نہیں بننے دیں گے۔ جتنی بھی قوم پرست تحریکیں چلیں، حقوق کے نام پر چلیں اور جب ان کو طاقت مل گئی تو انہوں نے پاکستان کو بلیک میل کیا۔ الطاف حسین مہاجروں کے نام پر کھڑا ہوا، اسفند یار ولی اور محمود اچکزی پشتونوں کے نام پر کھڑے ہوے، برہمداغ بگٹی اور اس جیسے دوسرے علیحدگی پسند سب حقوق کے نام پر پُرامن تحریکیں لے کر ہی کھڑے ہوے۔  جب ان کو طاقت مل گیئ تو پاکستان کے ساتھ کیا کیا یہ کسی سے ڈھکا چھُپا نہیں ہے. حقوق حاصل کرنے کے لیے کسی بھی لسانی تحریک کی کوی ضرورت نہیں ہے۔ وفاقی جماعتوں میں شامل سرایئکیوں کو حقوق نہیں چاھیں یا اس خطے میں موجود اور قوموں کو حقوق نہیں چاہیں؟ سب کو حقوق چاہییں مگر اس کے لیے ملک میں کسی انتشار کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ کا صاحب مضمون کے خیالات سے اتفاق ضروری نہیں ہے۔ کوئی صاحب جواب دینا چاہیں تو صفحات حاضر ہیں۔ 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”سرایئکستان سازش اور شہباز ترگڑ۔۔۔منصور بلوچ

  1. تحریر ہرزہ سرائی پر مشتمل ہے ، بے بنیاد الزامات کے علاوہ اس میں کہیں بھی دلائل کے ساتھ بات نہیں کی گئی ، زکر کیا گیا ہے کہ بیرونی فنڈنگ پر چلنے والی این جی اوز پر مشتمل لوگ سرائیکی تحریک چلارہے ہیں تو عرض ہے کہ موصوف کے چند پرانے ساتھیوں کے علاوہ کسی سرائیکی تنظیم یا جماعت کا این جی اوز کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ، اور اگر ایسے لوگ کسی قسسم کی ملک دشمن پالیسی پر عمل پیرا ہیں تو ایجنسیز اور دوسرے ادارے آپ سے زیادہ متحرک اور نظر رکھنے والے ہیں انہیں ضورر اس بارے میں علم ہوگا ، اگرآپکے پاس ثبوت ہیں تو آپ سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکٹائیں ، محض زاتی اختلاف کی بنیاد پر پوری سرائیکی تحریک کو بدنام کرنے کی کوشش نہ کریں ، گزشتہ چالیس برس سے سرائیکی قومیتی اور صوبہ تحریک پرامن ہے ، کہیں لسانی فسادات ، جھگڑے کی ایک بھی مثال سامنے نہیں ہے، اس بنیاد پر آپ پاکستان کی تمام قوم پرست تحریکوں میں سرائیکی تحریک کو منفرد مانیں ، خطے کے دانشوروں ، شاعروں اور ادیبوں نے اس تحریک کو پرامن رکھنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا ہے ، گزشتہ ایک ماہ سے خبریں اخبار میں جاری مباحثہ میں جتنے بھی کالم سرائیکی صوبہ تحریک کی مخالفت میں لکھے گئے ہیں ان میں کہیہں بھی ثبوت یا دلائل کے ساتھ بات نہیں کی گئی ، محض الزامات در الزامات کا سلسلہ ہے ، ظاہرہوتا ہے کہ لکھنے والے کسی کے پے رول پر ہیں

Leave a Reply