داستانِ زیریں و کھودو ۔۔۔ بابر اقبال

ہزار سال پہلے کی بات ہے کہ ایک بستی کے سردار سے اس کی بیٹی شیریں کا ہاتھ فرہاد نے مانگا، شیریں کا باپ ایک کائیاں تھا اس نے فرہاد کی معماری کو آزمانے کے لیے شرط لگائی کے وہ اپنی بیٹی کا رشتہ کرنے کو تیار ہے مگر اس کو ایک نہر سردار کے محل کے نیچے سے گزارنی ہوگی۔  فرہاد ایک سچا عاشق تھا۔  اس نے نہر کھودنا شروع کردی اور اسے کھینچ تان کر محل لے آیا۔ اس کے بعد حاسدین کا حسد اور رقیبوں کی رقابت کے شیریں اور فرہاد ایک نہ ہوسکے اور اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔ یہ کہانی آپ لوگوں نے سن رکھی ہوگی، اسی زمانے کی ایک اور کہانی آپ کو سنانی ہے۔

جب فرہاد نہر کھود رہا تھا، اس وقت یہ قصّہ زبان زد عام ہوا، اس کی شہرت پڑوس کی بستیوں تک پہنچی۔ وہاں ایک سردار کی بیٹی زیریں ہوا کرتی تھی۔  زیریں میں شیریں والی نہ کوئی خوبصورتی تھی نہ کوئی گن، مگر اس نے پانچ سو روپے ماہانہ پر کئی سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ رکھے ہوئے تھے جو اس کو ہمہ وقت ’’نمبرون‘‘ قرار دینے پر مصر رہتے۔ سردار بھی اپنی اکلوتی بیٹی کے ہاتھ یرغمال تھا۔  وہ گھر میں سب سے بڑی تھی۔ اپنے بھائیوں کو اس نے زمینوں پر قبضے اور افیم کی لت لگائی ہوئی تھی۔ جدھر بستی میں کوئی چوں چراں کرتا، زیریں اشارہ کرتی اور لڑکی کے بھائی اس پر ٹوٹ پڑتے۔ جب شیریں اور فرہاد کا قصّہ مشہور ہوا تو زیریں کو بڑی سبکی محسوس ہوئی، اس نے اپنے خاص لوگوں کا اجلاس طلب کرلیا۔

زیریں کا ترجمان مرحوم اور مغفور گویا ہوا ’’ کیا زیریں سے زیادہ حسین اور جمیل کوئی عورت ہے؟‘‘

کاسہ لیس یک زبان ہوکربولے ’’ ہزگز نہیں سرکار‘‘

ترجمان پھر بولا’’ کیا کوئی زیریں سے زیادہ سخی پیدا ہوا؟‘‘

ماہانہ پانسو والے چلائے ’’ ہرگز نہیں سرکار‘‘

اب زیریں اٹھی اور بولی ’’ پھر میرے لیے محل کے نیچے سے نہر گزارنے والے کیوں نہیں آیا؟‘‘

اس بات پر سارے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ پھر ایک اخبار نویس کھڑا ہوا اور بولا’’ اے بی بی زیریں، تیرا اقبال بلند ہو!، جب تو بولتی ہے تو لحن دائودی کو مات دیتی ہے، تیرے حسن کے آگے یوسف کا حسن ہیچ ہے، اور تیری طاقت ہزار شمسونوں کی طاقت کے برابر ہے، تیرے قد کے آگے قد آدم پست ہے، کیا تو نہیں جانتی آج کل اخبار کا دور دورہ ہے، ایک ٹینڈر دے، لاکھوں فرہاد حاضر ہوجائیں گے‘‘۔

بس زیریں خوش آمد کے ہاتھوں مار کھاگئی اور اسی اخبار نویس کے اخبار میں ٹینڈر دے بیٹھی۔ اخبار ہٰذا میں دو عدد کالم نویس ہوتے تھے جو عصر حاضر کے عارف اور لڑکی کے بھائیوں تک رسائی رکھتے تھے۔  انہوں نے اس بات پر بڑا شور اٹھایا۔  بڑے جذباتی کالم لکھے کہ بغل میں بچّہ اور شہر میں ڈھنڈورا، اپنا کھودو کس دن کام آئے گا، کھودو گلی ڈنڈا کا کپ جیت چکا ہے اور اس نے سوبستری شفا خانہ بھی محلّے کے لونڈوں کے ساتھ چندا جمع کرکے بنوایا ہے، ایسے کھودو کے ہوتے ہوئے اور کوئی کیا نہر کھودے گا، بی بی زیریں کو چاہیے کی اس طرف توجہ دیں۔

کھودو کے حاسدین نے افواہ اڑائی کے کھودو کوکین پیتا ہے اور شفا خانے کے چندے سے غبن کرتا ہے۔  اس پر زیریں نے فیصلہ کیا کے وہ خود کھودو کا انٹرویو لے گی اور جانچے گی کے وہ اس بڑے کام کے لائق ہے یا نہیں۔

زیریں نے کھودو کو بلایا اور اس سے پوچھا ’’ کیا وہ نہر کھود سکتا ہے؟‘‘ کھودو کسی گدھے کی مانند مسکرا کر بولا ’’ میں دیوار کو کھودوں، میں سڑک کو کھودوں، میں اہرام مصر کھودوں، یاجوج ماجوج کی باڑ کو کھودوں، چین کی دیوار کو کھودوں، بتائو مجھے کیا کھودوں؟ سمندر کو کھودوں، دریا کو کھودوں، چاند کو کھودوں یا اس نظام شمسی کے سلطان کو کھودوں؟

زیریں اس کے اعتماد پر لٹّو ہوگئی۔  اس نے کھودو کے دوست جاہل ترین سے پیسہ لے کر کھودو کا ٹینڈر پاس کردیا۔ کھودو نے سب سے پہلے ایک عالیشان دفتر بنایا۔ اس میں ہزاروں ملازمین رکھے۔  سب کے لیے بڑی بڑی گاڑیاں خریدیں، اور بالآخر کچھ ماہرین کھدائی کو بلا لیا۔ پہلے ماہر نہر کی کھدائی کے لیے تخمینہ لگانے پہنچا۔ وہ ہندو تھا۔ اس نے ناریل پھوڑ کر جب کام شروع کیا تو لوگوں نے واویلا کردیا کہ اگر نہر ہندو کی نگرانی میں کھدی تو ہمارے دھرم پلید ہوجائے گا۔ کھودو گھبرا گیا۔ اس نے ماہر کو ہٹا دیا۔ اس دن سے کھودو کا زوال شروع ہوگیا۔  کھودو کے ساتھیوں نے ڈرلنگ ایکوپمنٹ سے لے کر ہر چیز پر منافع بنایا۔  اس کے کروڑ پتی ساتھی ارب پتی ہوگئے۔  کھودو صبح شام کوکین سونگھتا اور بیان بازی کرتا کہ دیکھنا کیسی نہر کھودی جاوے گی۔

یہ سارے اللے تللے زیریں عوام سے بھتہ خوری کرکے کروا رہی تھی۔ ایک روز زیریں کا ماتھا ٹھنکا۔ اس نے منشیوں کو بلا بھیجا اور ان سے حساب پوچھا۔ چیف منشی بولا ’’ شہزادی اربوں روپیہ کھپ چکا ہے، نہر کی کھدائی شروع نہیں ہوسکی، ہم نے کھودو کے لیے ٹی وی اخبار، فیسبک اور ٹویٹر پر بہت پیسہ بہایا مگر یہ کھودو بالکل فارغ ہے، درحقیقت یہ بہت بڑا منہ کا فائر ہے۔

زیریں آرام کرسی پر ڈھے گئی۔ اس نے کھودو کا نمبر ملایا۔ دوسری طرف رنگ ٹون بجنا شروع ہوئی ’’ میں دیوار کو کھودوں، میں سڑک کو کھودوں، میں اہرام مصر کھودوں، یاجوج ماجوج کی باڑ کو کھودوں، چین کی دیوار کو کھودوں، بتائو مجھے کیا کھودوں؟ سمندر کو کھودوں، دریا کو کھودوں، چاند کو کھودوں یا اس نظام شمسی کے سلطان کو کھودوں؟‘‘

زیریں نے فون کاٹ دیا اور آہستہ سے بڑبڑائی ’’ تو صرف باتیں کھود سکتا ہے‘‘۔

Advertisements
julia rana solicitors london

 

نوٹ: کسی قسم کی سیاسی مماثلت محض اتفاقیہ سمجھی جاوے۔

Facebook Comments

بابر اقبال
گمشدہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply