لکھو ۔۔۔ لیکن وہ لکھو ۔۔۔۔۔۔۔۔ مبارک حسین انجم

دل و دماغ کا مکالمہ بھی کیا خوب ہوتا ہے، یہ ایک ایسی جنگ ہوتی ہے جس میں ہر فریق دوسرے کی ہی برتری تسلیم کرتے ہوئے خود کو ہارا ہوا ہی سمجھے رہتا ہے ـ دل اور دماغ کی آپس میں بہت خوب نبھ جاتی ہے ، مگر کبھی کبھی پریشانی کا سامنا تب ہوتا ہے جب ان دو کے درمیاں ضمیر دخل اندازی شروع کردیتا ہے.

آج بھی دل نے دماغ سے فرمائش کرڈالی کہ لکھاری بننا ہے اور مچلنے لگا کہ فقط لکھاری ہی نہیں بننا بلکہ مشہور لکھاری بننا ہے. ہیرو بننا ہے. دماغ نے ہنس کے اسکی فرمائش مان لی اور کھنک کے بولا ” لکھنا تو تھوڑی سی محنت سے آ جاتا ہے۔ بس یہ طے کر لوکہ لکھنا کیا ہے؟” دل بہت خوش ہوا، اور چہکتے ہوے بولا ” یہ تو تم ہی طے کرو نا کہ کیا بہتر رہے گا.”

دماغ نے ایک لمحہ خاموشی اختیار کی ، تھوڑا سا عقل سے رجوع کیا، پھر کچھ فلسفیانہ لہجہ میں کہنے لگا” سب سے پہلے تو یہ جائزہ لیتے ہیں کہ پاکستان کے نارمل پڑھے لکھے طبقہ میں کس چیز کو جلدی اور زیادہ پزیرائی ملتی ہے؟ میرے تجزیہ اور اندازہ کے مطابق ہم میں تیس فیصد لوگ طنز و مزاح کو زیادہ پسند کرتے ہیں، چالیس فیصد لوگ کرنٹ افئیرز اور مذھبی مباحثوں کو زیادہ پسند کرتے ہیں. بیس فیصد لوگ ادبی لٹریچر کو پسند کرتے ہیں اور پانچ فیصد لوگ سائنس فنکشن وغیرہ کو جبکہ باقی کے پانچ فیصد اصلاحی تحریروں کو۔ اسی طرح دوسرے پہلو سے دیکھیں تو انہی لوگوں کے مجموعے میں سے چالیس فیصد لوگ تنقید زیادہ پڑھتے ہیں۔ اب خواہ وہ تنقید مذھبی ہو، مسلکی ہو، یاسیاسی ـ پچیس فیصد لوگ شاعری پڑھتے ہیں پچیس ہی فیصد لوگ لوگ افسانے اور سٹوریاں زیادہ پسند کرتے ہیں. دس فیصد لوگ تصوف اور فلسفہ وغیرہ… اب تم بتاو تم کیا چاہتے ہو کیا لکھا.جائے؟

دل کو اتنے پیچیدہ حساب بھلا کب سمجھ آتے ہیں؟ کنفیوز ہو گیا اور پھر جوش میں بولا “میں تو چاہتا ہوں محبت لکھو، پیار کی داستانیں لکھو، رنگوں،تتلیوں، جھرنوں کے قصے لکھو، پیار کے گیت لکھو، محبوب کو لکھو، محبوب سے ملن کے مناظر لکھو اور بس خوشیاں لکھو، ساری دنیا کو بس جنت لکھ دو.

دماغ سوچنے لگا کہ اس بچے کی معصومانہ خواہش پوری کرنی چاہیے یا وہ مذھبی مناظرے لکھے جائیں جو راتوں رات مشہور کرنے کا سبب بن جاتے ہیں، یا پھر کسی قبائلی علاقائی یا لسانی تعصب کا نمائدہ بن جانا بہتر ہے جس سے کسی ایک علاقہ کا ہیرو تو فوراً ہی بنا جاسکتا ہے…یا پھر فتویٰ بازی شروع کر دینی بہتر ہے کہ دو چار فتوے یک دم ہی ہر اپنے پرائے کی زباں پہ میرا نام چڑھانے کا باعث بن سکتے ہیں۔۔۔ یا پھر مرد و زن میں سے کسی ایک کا نمائندہ بن کر دوسرے کی دھجیاں اڑانے کا کام کرکے سستی شہرت پائی جائے۔ یہ چیز بھی ہیرو بنانے میں کمال رکھتی ہے…

دماغ نے یہ ساری باتیں دل کو بتا دیں. دل کو یہ سب بالکل بھی اچھی نہ لگیں مگر ہیرو بن جانے کی خواہش بھی تو اسی کی تھی نا جو ایسے ہی پوری ھو سکتی تھی. اس لئے دھیمے سے انداز میں بولا”جو بہتر سمجھتے لکھو، یہ سب ہی لکھ لو. بس مجھے ہیرو بنا دو. چاہے جیسے بھی ہو…

دل و دماغ کی یہ ساری گفتگو پاس ہی لیٹے ھوے ضمیر صاحب بھی سن رہے تھے.. ان کا مزاج بھی بہت کمال ہے، یہ اکثر تو کام ہو جانے کے بعد ہی جاگا کرتے ہیں مگر آج پہلے ہی جاگ اٹھے.. ضمیر صاحب نے بھاری بھر کم آواز میں دخل اندازی کر دی، “دیکھو بھئی دوستو…. لکھنا ہی ہے نا تو وہ لکھو جو اللہ کو پسند ہے..محبت تو لکھو مگر وہ محبت جو انسانیت سے ہو.. خود احتسابی لکھو.. اصلاح لکھو مگر ایسے کہ اس میں کسی کا تمسخر نہ ہو، کسی کی دل ازاری نہ ہو،کسی کی حق تلفی نہ ہو، یاد رکھو آج ہیرو بن بھی گئے تو کس کے ہیرو بنو گے، ایک نادان اور احمق ہجوم کے؟  کچھ عصبیت کے مارے گروہوں کے؟  ایسے جاھلوں کے ہیرو بن بھی گئے تو کیا فائدہ؟ کتنے دن رہ سکو گے ان کے ہیرو؟ ہیرو بننا ہے نا تو قوموں کے ہیرو بنو! سقراط یاد ہے نا؟ اپنے وقت میں زندہ تک رھنے نہیں دیا گیا تھا..مگر آج بھی ہیرو مانا جاتا ہے. چلو وہ تو غیر مذہب تھا، مسلمانوں میں سے خلفاء راشدین کو ہی دیکھ لو.. ٹاٹ پہن کر اور روکھی کھا کر بھی رہتی دنیا تک ہیرو بن گئے ـ آج ترقی یافتہ ترین لوگ بھی اپنے فلاحی نظام “عمر لاز ” کے نام سے رائج کرنے پہ مجبور ہیں. چلو وہ تو بہت بلند ہستیاں ہیں اپنے قریبی زمانے کے لوگ دیکھ لو…. اشفاق احمد تو ابھی ھم سے بچھڑے ہیں نا؟ جون ایلیا بھی تو ابھی گزرے ہیں..سر سید، اقبال اور حالی بھی تو زیادہ پرانے نہیں تھے.. پھر حسن البناء، سید قطب،مودودی، نعیم صدیقی اور نیلسن منڈیلا، ماؤزے تنگ، یہ سب بھی آج ہی کے زمانہ سے ہیں..ان سب کو دیکھو! یہ لوگ ہجوموں کے نہیں باشعور لوگوں کے ہیرو بنے ہیں… اپنی زندگیاں تو بے شک انہوں نے مشکلات میں گزاری ہیں مگر رہتی دنیا تک باشعور لوگوں میں ہیرو ہی مانے جاتے رہیں گے.. لکھنا ہے نا تو وہی لکھو جو ملک و ملت کے لئے نفع بخش ہو! جو جوانوں کو بزدل اور بےکار نہ بنائے…بلکہ جوانوں کو ملک و ملت کاسرمایہ بنائے.. وہ لکھو جو آنے والے وقتوں میں آئندہ نسلوں کے عروج کا باعث بنےـ جو پوری دنیا میں ملک و قوم کی سربلندی کا سبب ہو سکے..اور وہ لکھو جو دنیا میں امن و سکون اور رواداری، مساوات، اور اعلیٰ ترین اخلاقیات قائم کرنے میں مددگار ہو….

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ کہہ کر ضمیر خود تو خاموش ہو گیا، مگر دل و دماغ دونوں کو ہی اس بے چینی میں مبتلا کر گیا جس کا ازالہ میرے بس سے بہت باہر ہے…۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply