• صفحہ اول
  • /
  • مشق سخن
  • /
  • برداشت اور مکالمے کی روایت کو فروغ دیجئے ۔۔۔۔ محمد عباس شاد

برداشت اور مکالمے کی روایت کو فروغ دیجئے ۔۔۔۔ محمد عباس شاد

 ہمارے ہاں قومی سیاست میں اپنے مخالف کو پاکستان کا دشمن کہہ کر گالی دی جاتی رہی ہے. جس سے پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں اپنے مخالفین کو غدار، ملک دشمن اور کسی دوسرے ملک کا ایجنٹ اور مذہبی جماعتوں میں مخالفین کو بے دین، کیمونسٹ، دہریہ، لبرل اور کافر کہنے کا عام چلن رہا ہے. جب تک سوشل میڈیا موجود نہ تھا توپرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر یک طرفہ ٹریفک ہی چلتی تھی. جو لوگ اپنے تئیں ملک کے وفادارسمجھتے تھے وہ ہی بتاتے تھے کہ اس ملک میں کون کون غدار اور ملک دشمن ہیں. جو لوگ ان کے خیال کے مخالف تھے ان کی پوری بات اور موقف کو کوئی بھی قومی سطح کا اخبار یا چینل شائع کرنے یا نشر کرنے کے لیے تیار نہ ہوتا تھا. ذرائع ابلاغ پر مسلط مائنڈ سیٹ جو بات بھی کہہ دیتا سادہ لوح اور فریب خوردہ عوام اس پر یقین کرلیا کرتے تھے.

اس فضا کے زیر اثر ہماری فرقہ وارانہ دانش اس سے عاری ہوچکی ہے کہ کسی مخالف نظریے کی بات کو دلائل اور حقائق کے پیرائے میں سن سکیں یا یہ جان سکیں کہ ہمارے مخالف کی کھوپڑی میں بھی ایک عدد دماغ ہی ہوتا ہے اور وہ بھی کوئی درست بات سوچ سکتا ہے .

قیام پاکستان سے مابعد تک ہمارے ہاں برداشت کی روایت بہت کمزور رہی ہے. جن قوموں کے ہاں برداشت اور مکالمے کی رعایت پروان نہ چڑھ سکے وہاں ذہنی ترقی رک جاتی ہے جو تمام ترقیات کی بنیاد ہوتی ہے.اس میں موجود فرقوں کے خیالات کسی تالاب میں رکے ہوئے پانی کی مانند ہوتے ہیں جس کا مقدر بالآخر گل سڑ کر بدبو پیدا کرنا ہی ہوتا ہے.

کسی بھی معاشرے میں مکالمہ کا ماحول بہت خوش آ ئند ہوتا ہے اس سے جہاں خیالات نکھرتے ہیں وہاں برداشت کا ماحول بھی پروان چڑھتا ہے اور اس کی مثال بہتے پانی کی ہوتی ہے جو کھڑے پانی کو بھی اپنے ساتھ بہاکر ایک نئی زندگی عطا کردیتا ہے . لیکن ابھی تک ہمارا پرانا مائنڈ سیٹ نئی تبدیلی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وہ کسی کی وال پر کسی ایسے دانشور کا کوئی قول دیکھتا ہے جسے وہ پسند نہیں کرتا یا ایسے نظریات و تصورات کو زیر بحث دیکھتا ہے جو اس کی معلومات اور عقل کے سانچے میں فٹ نہیں بیٹھتیں تو فوراً بھڑک اٹھتا ہے کہ سازش ہورہی ہے اور فوراً آ رڈر صادر ہوتا ہے کہ ایسے لوگ پاکستان سے چلے کیوں نہیں جاتے.

کیا کسی کو محض اس بنیاد پر اس کی مٹی سے الگ کیا جاسکتا ہے کہ وہ ایک خاص مائنڈ سیٹ کا انکار کرتا ہے یا کسی مخصوص جماعت کے نظریے سے اتفاق نہیں کرتا. آج کی جمہوری دنیا میں ایک ہی ملک میں مختلف الخیال لوگوں کا رہنا ایک زندہ حقیقت ہے. پاکستان سب کا ہے محض نظریے اور سوچ کے اختلاف کی وجہ سے کسی کو اس کے جمہوری حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا. بھلا ہو سوشل میڈیا کا جس پر اب سب اپنے دل کا غبار نکالتے ہیں اور متنوع نظریات وخیالات کے خوب میدان سجتے ہیں. اور “ہم سب” لالٹین”اور” دلیل “کی روشنی” میں “مکالمہ”تک پہنچ چکے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

صحت مند اختلافات اور بالغ نظری سے کیا گیا مکالمہ ہمیشہ ترقی کے راستے کھولتا ہے، قومیں اختلاف سے نہیں تعصب اور عدم برداشت سے تباہ ہوتی ہیں.”اور دلیل”اور “مکالمہ” سے آ گے بڑھتی ہیں. اب ایسے حلقوں سے گزارش ہے کہ جو صرف اپنی سنانا چاہتے لیکن کسی دوسرے کی سننا نہیں چاہتے اب وہ اپنی ریت بدلیں اور تصویر کے دوسرے رخ کو بھی دیکھنے کا حوصلہ پیدا کریں.ایک دوسرے کو غدار اور کافر قرار دینے کے بجائے انصاف، عدل، امن اور انسان دوستی کی اساس پر معاشرے کی نئی تشکیل کی طرف بڑھیں اور ان ابدی انسانی اصولوں پر جدوجہد کرنے کا حق ہر شہری کو دیں کیونکہ پاکستان سب کا ہے . لہذا اب پاکستان کو مکالمے کے ساتھ سب مل کر آگے بڑھائیں.تشدد، نفرت، گروہ بندی اور فرقہ واریت سے نجات وقت کی اہم ترین ضرورت ہے.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”برداشت اور مکالمے کی روایت کو فروغ دیجئے ۔۔۔۔ محمد عباس شاد

Leave a Reply to Irfan Cancel reply