• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • زکواۃ، ٹیکس، نصاب، زیورات پر زکوۃ ۔۔۔ طفیل ہاشمی

زکواۃ، ٹیکس، نصاب، زیورات پر زکوۃ ۔۔۔ طفیل ہاشمی

 

ہمارے دوست حافظ صفوان چوہان نے حسب معمول زکوۃ کے حوالے سے کچھ پھلجھڑیاں چھوڑی ہیں۔
ان میں سے کوئی بھی عنوان ایسا نہیں جس پر بہت تفصیلی جامع لٹریچر موجود نہ ہو۔ اگر کوئی صاحب تمام اختلافات، دلائل اور موازنہ پڑھنا چاہیں تو ڈاکٹر یوسف القرضاوي کی تالیف فقہ الزکوۃ کا مطالعہ کریں جس کے اردو سمیت کئی زبانوں میں تراجم موجود ہیں۔
حافظ صاحب کا یہ کہنا درست نہیں کہ سونے چاندی کی زکوۃ کا کوئی نصاب کتاب و سنت نے مقرر نہیں کیا۔ یہ بات درست ہے کہ نمازوں کے اوقات، رکعات وغیرہ کی طرح زکوۃ کا نصاب بھی قرآن میں نہیں ہے لیکن نمازوں کی تفصیلات کی طرح زکوۃ کی تفصیلات بھی سنت میں موجود ہے اور مسند احمد، مصنف عبدالرزاق، بیہقی، ابوداؤد وغیرہ کتب حدیث میں سونے اور چاندی دونوں کا نصاب رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے متعین فرمایا تھا۔ اس وزن کو ہردور کے مروج اوزان سے ہم آہنگ کیا جاتا رہا۔ سونے اور چاندی کے نصاب پر بہت معمولی فقہی اختلاف کے باوجود فی الجملہ اس پر اجماع امت رہا ہے۔
یہ بات کہ ٹیکس دینے والے پر زکوۃ الگ سے واجب نہیں ہے۔ یہ نقطہ نظر مولانا جعفر ندوی نے اپنے مقالات میں بیان کیا جسے میں نے دقت نظر سے پڑھا تھا اور اس خواہش کے باوجود کہ لوگوں پر دوہرا بوجھ نہ پڑے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ان کے دلائل میں کوئی وزن نہیں تھا بلکہ دلائل ہی نہیں تھے محض انفاق فی سبیل اللہ سے فرار کی خواہش تھی۔
میں نے اس ضمن میں مولانا محمد زاہد سے بھی مراجعت کی تھی لیکن چیزے بر نہ خواست۔ کیونکہ اولا زکوۃ اور ٹیکس وصول کرنے والے ادارے اسے سرکاری طور پر الگ الگ قرار دیتے ہیں نیز دونوں کے مصارف الگ الگ ہیں اور زکوۃ کے مصارف قرآن نے بتائے ہیں جبکہ ٹیکس میں حکومت کی صوابدید ہوتی ہے۔
جہاں تک زیورات پر زکوۃ کی بات ہے تو یہ بات درست ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا اجتہاد یہ ہے کہ اثاث بیت یا لباس کی طرح اس پر زکوۃ نہیں لیکن یہ کہنا کہ تمام خلفاء راشدین کی یہی رائے تھی محض واعظانہ تعلی ہے۔ صحابہ کرام کے آپس میں فقہی اختلاف ہوتے تھے اور کوئی کسی کو مجبور کرتا تھا نہ کسی کی تقلید۔ حدیث میں ہے ایک خاتون رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئی اس کی بیٹی نے سونے کے کڑے پہنے ہوئے تھے، آپ نے پوچھا، زکوۃ دیتی ہو، اس نے نفی میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا کہ دوزخ کی آگ کے کڑے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی درجنوں احادیث زیور پر زکوۃ کا مستدل ہیں جبکہ زکوۃ واجب نہ ہونے کی روایات کی تضعیف کی گئی ہے تاہم جو فقہا زیور پر زکوۃ کے قائل نہیں ہیں وہ بھی اس پر متفق ہیں کہ روزمرہ کے معمول کے استعمال کے زیور مستثنیٰ ہیں۔ اگر کوئی زیورات بنا کر رکھتا ہے تو وہ مستثنیٰ نہیں ہیں۔ نیز جن روایات میں سونے چاندی پر زکوۃ کا حکم ہے ان میں حکم عام ہے اور زیورات کا استثنا نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

واللہ یقول الحق وھو یھدی السبیل

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply