اتفاق قوت کا سرچشمہ ہے۔۔۔۔۔ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ

یہ ایک امرمسلمہ ہے کہ اتفاق ویکجہتی(مختلف قسم وکئی جہات کے قلوب کا باہم الفت ومحبت کی وجہ سے یکجہت، متحد ومتفق ہوجانا )قوت ہے ، نہ صرف قوت بلکہ قوت کا سرچشمہ ہے کہ تمام ترقوتیں طاقتیں اوربرکتیں اسی اتفاق ہی کی بدولت ہیں۔ دنیا کی تمام زبانوں میں اتحاد ،یکجہتی اور اتفاق کے مفہوم کا کوئی نہ کوئی محاورہ ضرور ملے گا۔جیسے اردو میں “اتفاق میں برکت ہے” انگریزی میں(Union is Strength) کہا جاتاہے۔

ظاہری دنیا میں اتفاق میں قوت وبرکت کی کئی مثالیں ہیں۔ ایک مثال انسان کے ہاتھ میں پانچ انگلیوں کی ہے اگر یہ الگ الگ کوئی کام کرناچاہے  ،توان کی کوئی حیثیت نہیں لیکن اگریہی مل کر یکجاہوجائیں ،متحد ہوجائیں،تو یہ صرف انگلیاں نہیں بلکہ مکا،بن جاتا ہے ،ایک طاقت کا نام اور دشمنوں کے لئے خوف کی علامت بن جاتاہے اور ایک انگلی صرف پانچ گنا نہیں بلکہ پچاس گنازیادہ طاقت ور ،قوی،مضبوط،اور توانا ہوجاتی ہے۔دوسری مثال الگ الگ دھاگوں کی ہے کہ اگر ہزاروں کی تعداد میں بھی ہوں وہ کبھی کبھی ایک مضبوط رسی کی شکل نہیں اختیار کرسکتے ،ان کی کمزوری اور جلد ٹوٹنے کی وجہ سے کسی اہم اوروزنی کام میں ان کوا ستعمال نہیں کیاجاسکتا لیکن اگر ان کو یکجاکردیاجائے اور ان سے ایک رسہ بنالیا جائے تو اب وہی کمزور دھاگے قوت اورمضبوطی میں بے مثال ہوجائیں گے اور ان کی مدد سے ان سے کئی گنا زیادہ وزنی اوربھاری چیزیں اٹھانا قطعاً مشکل نہ ہوگا۔بقول ابو المجاہد زاہد
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے

قرآن کریم نے بھی اتفاق اور اتحاد کاحکم دیا ہے ۔اس ضمن میں ارشادباری تعالی ہے :وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعاََ( آل عمران :۱۰۳)اور مضبوط پکڑؤ اللہ کی رسی کو اورآپس میں تفرقہ نہ کرنا ۔
اتفاق ،اتحاد اوریکجہتی اللہ رب العزت کی بہت بڑی نعمت ہے۔اللہ رب العزت مومنین کو اس انعام و احسان اوراکرام و نعمت کو یاد کرنے کا حکم دیتا ہے: واذکروا نعمت اللہ علیکم اذکنتم اعداء فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخوانا ( آل عمران :۱۰۳)اور یاد کرو تم اللہ کی نعمت کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر اللہ رب العزت نے تمہارے قلوب میں الفت ڈال دی اور تم بفضلہ تعالیٰ بھائی بھائی بن گئے ۔
مسلمانوں کا تو امتیاز ہی یہ تھا کہ اگر کسی ایک شخص پر بھی دنیا کے کسی کونے میں ظلم ہو تو پوری مسلم امت اس سے متاثرہوتی تھی۔ امیر مینائی
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

اتفاق،اتحاد ،یکجہتی،یگانگت کے بغیر کوئی قوم زندہ نہیں رہ سکتی اوراگر قومیں محبت اتفاق اوراتحاد کے ساتھ رہیں توانہیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ کیونکہ جب تک قوم متحد ہوتی ہے وہ قوم کہلاتی ہے نہیں تو وہ افراد کامنتشر گروہ کہلائے گا۔جن کو دوسری اقوام بآسانی اپنا شکار بناسکتی ہیں اور ان کے پاس اپنے دفاع کرنے کی بھی صلاحیت نہیں ہوگی۔
جیسا کہ ا قوام عالم کی تاریخ اس حقیقت پر شاہد ہے کہ بکھرے ہوئے لوگوں کے گروہ کو کبھی عروج،بلندی اور دنیا پرحکومت نصیب نہ ہوئی ، بلکہ وہ ہمیشہ مغلوب ، محکوم،مجبور،اور زوال کاشکار ہی رہے یہاں تک کہ وہ مزید مختلف گروہوں میں بٹ گئے اور اس دنیا سے ان کا وجود ختم ہوگیا ۔لیکن جب انہوں نے اتفاق واتحاد کے دامن کو تھام لیا ،آپس میں اخوت ومساوات کو قائم کرلیا، وہ منتشر لوگوں کو گروہ ایک جماعت اور ایک قوم کے دھارے میں تبدیل ہوگیا اور ان کی قوت، طاقت ،رعب اوردبدبہ سے دوسری قومیں لرزنے ،کانپنے لگیں۔ان سے خوف کھانے لگیں اورانہوں نے بڑے بڑے دشمنوں کو بآسانی زیر کرلیا۔ اور ان پر اپنی طاقت وقوت کی دھاک بٹھادی۔

حضور اکرمﷺ نے بھی اتفاق واتحاد پر بہت زور دیا اورمسلمانوں کے اندربھائی چارہ اورمواخات کو قائم کیا جس سے بڑھ کر اتفاق واتحاد کا دنیا کی کسی دوسری قوم نے مظاہرہ نہیں کیا۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک قلیل اوربہت ہی مختصر مدت میں عرب قوم نے کم وبیش آدھی دنیا فتح کرلی۔اور اس زمانے کی سپر پاورز (روم اورفارس)اس کے قدموں میں آکر ڈھیرہوگئے۔
اتحاد اور اتفاق پر احادیث مبارکہ بھی شاہد ہیں۔ چند ایک ملاحظہ ہوں۔
حضرت ابوہریرہ سے مروی ایک حدیث کا مفہوم ہے جوکوئی شخص جماعت سے علیحدگی اختیار کرتا ہے وہ جاہلیت کی موت مرا۔
مشکوٰۃ میں ابن عمر سے مروی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ اللہ کاہاتھ جماعت پر ہے یعنی اللہ کی مدد جماعت کے لئے ہے اورجوشخص جماعت سے الگ ہوا تووہ دوزخ میں داخل ہوا۔
آخر میں اتفاق اور اتحاد میں برکت پر ایک حکایت پیش ہے جس میں اتفاق کے فائدے اورنااتفاقی،انانیت،خودغرضی اورتکبر ہلاکت کا سبب نظرآتی ہے۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک شخص اپنے بیلوں کے ساتھ جنگل سے گزررہا تھا۔ رات ہوتی ہے وہ بیلوں کے ساتھ کسی درخت کے نیچے لیٹ جاتا ہے۔ بیل اس کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔ لیکن خدا کا کرنا اندھیرے میں ایک سانپ درخت سے اترتا ہے اور اس آدمی کو ڈس لیتاہے۔ جس سے آدمی وہیں مٹی کا ڈھیر بن جاتاہے۔ اگلے دن جب مالک نہیں اٹھتا تو پہلے تو وہ اسے کافی دیر تک ہلاتے جلاتے ہیں ایک آدھ دن اس کے پاس بیٹھ کر غمزدہ رہتے ہیں۔ لیکن جب وہ کوئ حرکت نہیں کرتا تو بھوک کی شدت نہ برداشت کرتے ہوئے آخر وہاں سے چلے جاتے ہیں ۔اپنے کھانے پینے اور رہائش کا انتظام کرتے ہیں ۔ دونوں بیلوں میں بہت اتحاد تھا ۔ ان میں بڑی دوستی تھی وہ یک جان دو قالب کی عملی مثال تھے۔ وہ ہر مصیبت اور آفت کا مل کر مقابلہ کرتے اور آپس میں اتفاق اور محبت سے رہا کرتے تھے ۔

ایک دفعہ جنگل کے اس حصہ میں شیرآٹپکتا ہے ۔ دو موٹے تازے صحت مند بیل دیکھ کر اس کے منہ میں پانی آجاتا ہے ۔اسے یہ بہت ہی ترنوالہ نظر آتاہے کہ پالتو بیل توڈرپوک ہوتا ہے اور وہ جنگل میں اپنا دفاع نہیں کرسکتا۔ یہ سوچ کر وہ ان پر حملہ کردیتا ہے۔ مگریہ کیا دونوں کے اتحاد کے سبب وہ ان کا بال بیکا نہ کرسکا بلکہ زخمی ہوکر دم دبا کر بھاگ گیا ۔شیر کا حال دیکھ کر جنگل کے دوسرے درندوں کو بھی کبھی ہمت نہ ہوئی کہ وہ میلی آنکھ سے انہیں دیکھیں۔

وہیں قریب ایک لومڑی بھی رہتی تھی۔جس نے شیر اوربیلوں کی جنگ کو قریب سے دیکھا تھا۔وہ ان بیلوں کی قوت کا راز سمجھ چکی تھی کہ یہ اتفاق کی برکت سے ہے۔ وہ اپنے نام کی طرح مکار ،چالاک اورعیار تھی۔ سو بھیس بدل کر ،سوبہروپ بدل کر دوسروں کو شیشے میں اتار لیتی۔ اسے ان بیلوں کی دوستی اسے ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ وہ ہروقت ان دونوں میں دشمنی پیداکرنے کا سوچتی رہتی۔ایک دفعہ جب ایک بیل کچھ بیمار ہوگیا تو دوسرا بیل اس دن اکیلا ہی پتے وغیرہ کھانے گیا ہوا تھا۔ اس کے لئے یہ موقع غنیمت تھا۔ اس نے قریب آکر سفید بیل کی تعریفیں کرنے لگی۔ کیا خوبصورت اورسمارٹ ہو۔ بالکل دودھ کی طرح اجلے اورصاف۔تمہارے رنگ ہی سے پاکیزگی و طہارت وبزرگی جھلکتی ہے۔ پھر باتوں میں باتوں میں دوسرے بیل کا کہنے لگی وہ تو شکل سے ہی کالا کلوٹا بھتناہے تم دونوں میں کوئی قدر مشترک نہیں یہ دوستی غیر فطری ہے اورسمجھ نہیں آتی۔ تم اتنے خوبصورت وہ اتنا بھدا۔

پھر دوسرے بیل کے پاس گئی اورکہا تمہارا رنگ کالا اور شوخ ہے۔ ایسا رنگ تو لاکھوں میں کسی کو ملتا ہے۔ تمہارا رعب اور وقاربھی بہت زیادہ ہے۔ تمہیں تو معلوم ہی ہوگا وزیر اعظم ،صدر اور بڑے افسران کی گاڑیوں کا رنگ کالا ہوتا ہے۔ کیونکہ اس رنگ میں رعب و جلال واسرار ہی کچھ ایسا ہے کوئی اس کی تاب نہ لاسکتا ہے،یہ تو مخفی قوتوں واسرار کا خزانہ ہے۔دیکھو نہ غلاف کعبہ بھی سیاہ اورحجراسود بھی ۔ لیکن تمہارے دوست کا بھی کوئی رنگ ہے ۔ سفید بھدا ۔ وہ بھی مٹیالا سا رنگ ۔ یہ بھی کوئی رنگ ہے۔ میں تو سفید رنگ کو رنگ ہی نہیں سمجھتی۔ یہ کوئی رنگ ہی نہیں۔تم دونوں کی دوستی بالکل غیرفطری اور سمجھ سے بالاتر ہے۔

اس کی اس قسم کی باتوں کے باوجود بھی وہ شیشہ میں بال نہ پیدا کرسکی تھی۔ ابھی تک وہ ایک دوسرے کے ساتھ اتفاق اورا تحاد کئے ہوئے تھے۔ بہرحال یہ ملاقات نکتہ آغاز تھی۔ اس نے دونوں سے الگ الگ ملنا شروع کردیا ۔ اب جب اسے موقع ملتا وہ اس قسم کی باتوں سے ان کے دلوں میں کینہ پیدا کرنے کی کوشش کرتی۔
ایک دفعہ اس نے سفید بیل سے کہا ۔کیا جرات ہے۔ میں نے سنا ہے تم پر شیر نے حملہ کیا تھا۔ لیکن کالے بیل نے تمہیں بچالیا۔ سفید بیل بھڑک کر بولا اس نے مجھے نہیں میں نے اسے بچایا ہے۔ اب لومڑی کو موقع مل گیا ۔اس نے ان کی جھوٹی انا اور تکبر کواستعمال کرتے ہوئے دونوں کو الگ الگ کردیا ۔
اورسمجھایا کہ اب اگر شیر حملہ کرے تو تم نہ بچانا پھر تم دیکھنا ۔اس نے اندر ہی اندر کچھ ایسا چکر چلایا اور دونوں بیلوں نے لومڑی سے ایک خاموش معاہدہ کرلیا کہ اب شیر اگر دوسرے بیل پرحملہ کرے گا تو وہ اس کا دفاع نہ کرے گا۔
لومڑی اتنی بڑی خوشخبری شیر کو سنانے گئی۔ شیر کو یقین نہ آیا۔ لیکن اس نے کہا ۔”کوشش کرلینے میں کوئی حرج نہیں۔ نوہارم ان ٹرائنگ”۔
چلو حملہ کرکے دیکھتے ہیں۔ اس نے پہلے کالے بیل کو نشانہ بنانے کا سوچا ۔

جب دونوں بیلوں نے شیر کو اپنی جانب آتا دیکھا ۔دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا ۔دونوں کی آنکھوں میں اجنبیت پائی جاتی تھی کہ اب حملہ کرو۔اب پتہ چلے گا کون طاقتور ہے۔ شیربھی ان کی نااتفاقی کو سمجھ گیا۔ اس نے پہلے کالے بیل پر حملہ کیا اور اسے مارڈالا۔سفید بیل اپنے ساتھی کو بچانے کیلئے آگے نہ بڑھا شیر نے اس کے ٹکڑے کیے اور کھا گیا۔
سفید بیل کالے بیل کی ہلاکت پر خوش ہوا کہ بہت گھمنڈ تھا اسے اپنی طاقت پر ۔ لیکن اس کی خوشی ادھوری رہ گئی کچھ ہی دنوں کے بعد جب شیر اچانک سفید بیل کی جانب متوجہ ہوا تو وہ بھی اپنا دفاع نہ کرسکا اورشیر کے ہاتھوں مارا گیا۔دونوں بیلوں کو نااتفاقی اورتکبر نے مارڈالا۔ورنہ اس شیر میں اتنی ہمت نہ تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خلاصہ کلام:
اتفاق،اتحاد اوریکجہتی اللہ رب العزت کی ایک بہت بڑی نعمت اورعظیم قوت ہے۔یہ عزت،وقار،شان وشوکت اور سربلندی عطاکرتاہے۔اس کی بنیاد بے لوثی ،بے غرضی، ایثار،قربانی، پر قائم ہے۔
اس کے برعکس منافرت گروہ بندی،شیرازہ بندی خواہ مسلکی ہو یا لسانی انسان کو تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔ تقسیم کا سادہ سا فارمولہ ہے یہ ہمیشہ تقسیم کو ہی جنم دیتی ہے جس سے تقسیم کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوجاتاہے۔ اس کی بنیاد خودغرضی پر قائم ہے۔ اللہ رب العزت ہم (مسلمانوں) میں اتحاد، اتفاق،یکجہتی ،ہمدردی، اخوت اور محبت پیدافرمائے ۔آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply