اہلِ مصلحت کے نام ۔۔۔۔سہیل وڑائچ

مقتدر ترین حلقوں میں یہ مانا جاتا ہے کہ پانامہ اسکینڈل کسی ملکی یا غیر ملکی طاقت کا کام نہیں تھا بلکہ یہ ایک طرح سے قدرتی آفت تھی، جس نے شریفوں کو اپنی گرفت میں لے لیا اور اُنہیں جیلوں میں بند کروا کے چھوڑا۔ بالکل اسی طرح نیب کے حوالے سے بھی عذاب اوپر سے اترا ہے اور عذابِ الٰہی اتنی جلدی ٹلا نہیں کرتے۔ اہلِ مصلحت جتنا مرضی زور لگا لیں، جو مرضی تاویلیں پیش کر لیں، قدرتی آفات خونی بھینٹ لے کر ہی ٹھنڈی پڑتی ہیں۔

دنیا کی مہذب قومیں اور آئیڈیل معاشرے سچ پر چلتے ہیں جبکہ دنیا کی غیر مہذب قومیں جھوٹ اور دھوکے سے کام لیتی ہیں۔ سچ اور جھوٹ کے درمیان بھی ایک پردہ ہوتا ہے جسے مصلحت کا نام دیا جاتا ہے۔ اکثر حکومتیں سچ اور جھوٹ کے سخت معیار سے بچ کر مصلحت کی پناہ لیتی ہیں۔ گو مصلحت اور اصولوں کی پابندی میں بڑا فرق ہوتا ہے مگر پھر بھی حکومتوں کی چھوٹی موٹی مصلحتیں اُنہیں وقتی کامیابی دلاتی رہتی ہیں لیکن مصلحت اصولوں پر ہی حاوی ہو جائے، سچ کو جھوٹ بنا کر پیش کیا جائے تو پھر زوال آتا ہے، عذاب آتے ہیں اور سب کچھ بدل جاتا ہے۔

نیب اسکینڈل نے کئی شعبوں اور شخصیتوں کو ننگا کر دیا۔ کئی ایک ’’سچوں‘‘ کے چہرے سے پردے سرکائے اور وہ اصل میں اہلِ مصلحت نکلے۔ نونی ہوں یا جیالے، اکثر کی لیڈر شپ نے اصول کے بجائے مصلحت میں پناہ ڈھونڈی۔ کسی نے بھی اصول کی بنا پر اس اسکینڈل کو نہیں دیکھا بلکہ یہ دیکھا کہ اس سے اسے کتنا فائدہ اور حکومت کو کتنا نقصان ہے؟ اور تو اور انصافی حکومت نے بھی اصولوں کو پسِ پشت ڈال کر مصلحت کو اپنا لیا۔ نونی، جیالے، انصافی اور مقتدرہ سارے کے سارے ہی اہلِ مصلحت نکلے۔ اتنے بڑے واقعے کی سنگینی کو ڈھانپنے اور چھپانے میں سب شریک ملزم ہیں مگر تاریخ کا سبق کچھ اور ہے وہ یہ کہ بالآخر سچ غالب ہو کر رہے گا اور اہلِ مصلحت ناکام ہوں گے۔ سچ 2+2چار ہوتا ہے اور جھوٹ 2+2پانچ ہوتا ہے۔ مصلحت سوا چار یا ساڑھے چار تک چل جاتی ہے مگر جب سیاہ کو سفید کہا جائے تو معاملہ حل نہیں ہو پاتا، یہ نیب اسکینڈل بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ احتساب کا چابی والا گھوڑا مر چکا۔ یہ ایک اسکینڈل کا دبائو نہیں سہہ سکا۔ اس مردہ گھوڑے کو اب جتنے مرضی چابک ماریں، یہ اب دوڑ نہیں سکتا۔ جو مقدمات عدالتوں میں جا چکے یا جن کا فیصلہ ہو چکا وہ تو چلیں گے مگر اب نئے مقدمات بنانا ناممکن ہو گیا۔ گھوڑے کے مرنے سے اپوزیشن کی سختیاں پھر بھی ختم نہیں ہوں گی، عدالتوں کے اندر پہلے سے موجود مقدمات بھی انہیں کئی سال تک الجھائے رکھیں گے۔

مقتدرہ کی ’’اُسے‘‘ برقرار رکھنے کی مصلحت سمجھ آتی ہے، برا ہے یا بھلا ہے جیسا بھی ہے کام چلا رہا ہے اسے نکال دیا تو احتساب رک جائے گا۔ جیالے خوف زدہ تھے کہ الزام ان پر نہ لگ جائے کہ اسکینڈل انہوں نے بنایا ہے، چند انصافی سازش میں ضرور شریک تھے مگر پھر مصلحت غالب آگئی۔ حیران البتہ نون نے کیا۔ پہلے کہا استعفیٰ دو پھر کہا حکومت کی سازش ہے اور وعدہ کیا کہ معاملے کی تفتیش کے لئے پارلیمانی کمیٹی بنوائی جائے گی مگر آخر میں خواجہ آصف نے پارلیمان میں زور ہی نہ لگایا اور یوں معاملہ ٹائیں ٹائیں فش پر ختم ہوا۔

نون، نواز شریف کی میڈیکل ضمانت کی منسوخی کے بعد سے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، امید کے دروازے بند ہو چکے، مستقبل قریب میں بہتری کے دعوے غلط ہو چکے۔ یوں شہباز شریف کے مصالحتی بیانیے کی گنجائش نہیں رہی۔ مسلم لیگ(ن) کی تنظیم نو اس طرح سے کی گئی ہے کہ نواز شریف اور مریم کا بیانیہ غالب آگیا ہے۔ شہباز شریف نے تمام نامزدگیاں کھلے دل سے قبول کر لیں حالانکہ ان کے تحفظات تو ہوں گے۔ تنظیم نو کے بعد سے بقول شخصے شہباز شریف اپنی پارٹی کے صدر تو ہیں مگر ان کے اختیارات مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر جتنے رہ گئے ہیں۔

نون کی تنظیمِ نو کے بعد پہلا امتحان نیب اسکینڈل تھا، توقع تھی کہ نون کا مزاحمتی بیانیہ استعفیٰ کا مطالبہ کرے گا مگر اہل مصلحت چھا گئے۔ کیا شاہد خاقان عباسی اور کیا خواجہ آصف، سبھی نیب زدگان ہیں سو سبھی نے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے والے ملک احمد کو رگڑا اور مریم اورنگ زیب نے بھی اہلِ مصلحت کے موقف کو ہی پارٹی پالیسی قرار دیا حالانکہ نواز شریف کا موقف مختلف ہے، ایک پراپرٹی ٹائیکون نے نواز شریف کو صلح کا مشورہ دیا تو اس نے شرط رکھی کہ ٹی وی پر آ کر میرے ساتھ کی گئی زیادتیوں پر معافی مانگی جائے۔ ظاہر ہے اس کڑی شرط کے بعد سے مذاکرات کیا ہوں گے، صلح کیسے ہو گی؟ ابھی چند روز کی بات ہے نون کی قیادت نے جیل میں نواز شریف سے کہا یہ حکومت خود ہی اپنے بوجھ سے گرے گی، 2020میں نئے الیکشن ہوں گے جس پر نواز شریف نے ہنستے ہنستے تبصرہ کیا کہ اچھا تو مجھے ایک سال آپ نے جیل میں ہی رکھنا ہے۔ اہلِ مصلحت یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف زیادہ سے زیادہ دو سے 3سال جیل میں رہیں گے مگر آئندہ الیکشن سے پہلے باہر ہوں گے اور یوں اگلے الیکشن میں سب سے بڑی ’’کشش‘‘ پھر وہی ہوں گے۔

مجھے اہلِ مصلحت سے اختلاف ہے، میری ذاتی رائے یہ ہے کہ 600ارب روپے کے نئے ٹیکس ہضم نہیں ہوں گے اور پھر ستمبر اکتوبر کا بڑا عسکری فیصلہ اہم ترین کردار ادا کرے گا، کمان یہی رہی تو اور حالات ہوں گے، کمان بدلی تو اور حالات ہوں گے، چیف بدلتا ہے تو اسٹرٹیجی بدلتی ہے، ترجیحات بدلتی ہیں، چیف بدلتا ہے تو آرمی بھی بدل جاتی ہے۔ اس لئے تحریک انصاف کی حکومت کا مستقبل بہرحال معاشی اشاریوں اور عسکری فیصلہ سے طے ہو گا۔

یاد رہے کہ کل کے اہلِ مصلحت آج کے اہلِ مزاحمت بھی بن جاتے ہیں جیسے زرداری صاحب پہلے اہلِ مصلحت تھے مگر آج کل مزاحمت کے دور سے گزر رہے ہیںاور بالکل اسی طرح کل کے اہلِ مزاحمت شاہد خاقان و خواجہ آصف کو اہلِ مصلحت بننے میں ذرا دیر نہیں لگتی۔ اس سارے عمل میں قتل بیچارے اصول ہی ہوتے ہیں۔ رانا ثناءاللہ البتہ اس ریت روایت سے ماورا ہیں، وہ ہمیشہ سے اہلِ مزاحمت رہے ہیں اور اہلِ مزاحمت بھی اس قدر دبنگ کہ شہباز شریف کا قریبی ترین ساتھی ہوتے ہوئے بھی مزاحمت میں پیش پیش رہے۔ مریم نواز شریف نونی مزاحمت کا نیا چہرہ بن رہی ہیں۔ حمزہ کا ہاتھ پکڑ کر انہیں بھی اپنے بیانیے پر لانے کی کوشش میں ہیں۔ حمزہ کے پاس بھی آپشن نہیں بچا۔ دوسری طرف نیب مقدمات اور جیل کا ڈراوا ہے سو وہ بھی مزاحمتی بیانیے پر چلنے پر مجبور ہوں گے۔ نونی مزاحمت کا نیا بیانیہ البتہ تھوڑا سا تبدیل ہوا ہے، اب سارا فوکس مقتدر اداروں کی طرف نہیں بلکہ عمران حکومت اور اس کی معاشی پالیسیوں پر ہے۔ ویسے تو نونی بیانیے اور نئی تنظیمِ نو سے یوں لگتا تھا کہ اب مصلحت نہیں جدوجہد کی طرف توجہ ہو گی مگر تنظیمِ نو میں عطاء تارڑ کو لائل پور کا گھنٹہ گھر بنا کر یہی پیغام دیا گیا کہ اب بھی اصل فیصلے خاندانی بیورو کریسی ہی کرے گی۔ شہباز شریف کے ترجمان احمد ملک کو کونے لگایا گیا اور عظمیٰ بخاری کو پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات کے عہدے پر سرفراز کیا گیا، یقیناً اس میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہو گی۔ یہ سارے سیاسی کارکن ہیں، ان کے اوپر نیچے ہونے پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے البتہ دیکھنا یہ ہو گا کہ ان میں سے مصلحت کیش کون ہے اور مزاحمتی سیاست کا وارث کون؟

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ روزنامہ جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply